ہاں میں ہی وہ گوجر ہوں جو سو گیا تھا 

0
0

چودھری ذکریا مصطفائ ترابیؔ
اہرہ بل کولگام کشمیر
میں آج جو ضعیف لگ رہا ہوں تمہیں ضرور کمزور بھی لگ رہا ہوں یہ لمبے سفر کے آثار ہیں میں منزل کی جانب جا رہا ہوں، میں سند کے تخت سے نہیں چلا میں ایران میں رہا افغانستان کے پہاڑاں پر گزارا کیا میں عراق کے صحراؤں میں گھومتا رہا میں فلستین میں تھا میں سند کے تخت پہ آ کے بیٹھا تھا مینے ہی سندھی راجاؤں کا ظالمانہ جابرانہ نظام اُکھاڑ پھہنکا تھا، میں سند سے دہلی بھی آیا وہاں میں کبھی ہردی زبان بولا تو کبھی ہندی کہیں ہریانوی باشہ بولتا رہا تو کبھی کھڑی بولی مینے ہی گجرات کو دورالسلطنت بنایا میری ہر دور میں الگ روپ میں الگ دیس میں الگ پہچان تھی، سند سے گجرات تک مینے ڈاہی سو سال حکومت کی اس لمبے عرصے میں مجھے بہت تھکاوٹ ہوئ، 750سے 950 تک پورے دوسو سال مینے قنوج پہ حکومت کی، میرا 900ء سے 1800ء کے قریب تک ہندو پاک بنگلہ دیش اور دیگر حصوں پہ لمبی حکومت کا سلسلہ رہا ہے میرے کندھے اس بوجھ سے بہت کمزور ہوتے رہے میں بزرگی کی طرف جاتا رہا اندلیپ میں بھی میرا بہت چرچا رہا ہے، اس سفر میں مینے راشٹر کوٹ قوم سے مہاراسٹرا میں طویل جنگ کی، پنجاب پشاور گرجربھومی میری ملکیت میں رہا، ہند میں جب مینے ملک الجزر بن کے حکومت کی تو عربی سلیمان نے گواہی دئ کہ اس گجر بادشاہ سے بڑی کسی ہندی بادشاہ کی فوج نہیں پھر بھی اسکی حکومت کے اندر والے امن و آمان کی مثال نہیں، اس سفر میں امن بھی رہا جنگ بھی۔ یہ سارا سفر اتنا لمبا اور پُر خطر تھا کی میں بہت تھک گیا مجھے معلوم ہی نہ تھا کہ مجھے جانا کہاں ہے۔ وہ ۱۸۰۰ کے آس پاس جب حد سے زیادہ ضعیف اور لاگر ہو گیا میری ہمت میرے سفر کے سامنے ہار گئ تو پھر ایک دن میں لمبی نید سو گیا، اور جب جاگا تو نہ میرا سندھ میرے پاس تھا نہ دہلی تھا نہ گجرات، نہ پنجاب اور نہ پشاور میں پتا نہیں زمین کے کس انجان خطے پہ موجود تھا، جہاں نہ وہ پہلا نظام تھا نہ میرے لوگ تھے نہ میری پہچان تھی، میرے نشانات مٹ چکے تھے، اپنی پہچان کھو چکا تھا، میں پریشان، اداس اور غمگین ہو کے ڈھونڈنے لگا اپنی قوم کو برسوں برس گزر گئے ۲۰۰ سال تک مجھے اپنی قوم کا کوئ پتہ نہ ملا وہ کہاں ہے وہ کیسی ہے ان کا رہن سہن کیسا ہے ان کے خوراک کا کیا سلسلہ ہے، کیا وہ خواجہ بندہ نواز گیسو دراز نے اُس دور میں جو کھڑی بولی میں ادبی رنگ رنگا تھا آج بھی ہے، میاں محمد بخش پسوال علیہ رحمہ بابا میاں نظام الدین، بابا سائیں فقردین ترابیؔ، وغیرہ نے اس قوم کو جو وقت وقت پہ جگانے کی کوشش کی تھی وہ کچھ رنگ لائ ہے۔ مینے بہت سارے خط لکھے اپنی قوم کی نام مجھے کوئ جواب نہ ملا پھر اچانک مینے سوشل میڈیا کا استعمال کیا کہ شائد میری قوم کے بارے میں کوئ خبر یہاں لکھی ہو ایک عرصے تک دوڑتا گھومتا اپنی قوم کی تلاش میں رہا امید کی شمع بجھ چکی تھی میں یہ سفر ہار چکا تھا کہ اچانک میری ایک نظر صدائے حق فیس بک پیج پہ پڑی تو دوسری نظر آوازِ گجر فیس بک پیج پہ پڑی تو امید کی کرن روشن ہونے لگی مینے دیکھا سویرا ہو رہا ہے میری قوم کہیں صدائے حق بنی ہوئ اور کہیں آواز گجر بنی ہوئ آنکھیں مل رہی ہے اور جاگنے کی کوشش میں برسوں پرانی رضائی اپنے اپر سے ہٹانا چاہتی ہے مگر یہ رضائی بہت پرانی بہت زیادہ موٹی اور وزن دار ہے جو ہٹانے سے ہٹتی نہیں، یہاں میری قوم بھی ہزاز جتن کر کے اپنی پوری کوشش سے اس جدد جہد میں مصروف ہے یہ قوم کہیں میاں محمد یوسف کے روپ میں صدائے حق فیس بک پیج پہ آنکھیں مل رہے ہے تو کہیں شوکت نسیم، خالد مشتاق اور بشارت حسین کے ہلیے میں آوازِ گجر فیس بک پیج پہ اسی کشمکش میں مصروف ہے، یہاں سے ہٹ کے دیکھا تو یہ کوشش کہیں ایک ادیبہ کی ہلیے میں شازیہ بہن اخباروں میں آنکھ ملتی ہوئ بڑے زور و شوق سے سر انجام دے رہی تھی تو کہیں ادیبوں کے روپ میں جناب چودھری ععبدالغنی عارفؔ، تاج دین تاجؔ تو کہیں اس کشمکش کا حصہ محمد منشا خاکی، اقبال عظیم، ڈاکٹر رفیق انجم، ڈاکٹر جاوید راہی، ڈاکٹر نصرالدین بارو، زرینہ نغمی، ادریس شاد،نور محمد مجروح،جلال الدین فانی، محمد امین قمر، حسن پرواز، جی ڈی طاہر، غلام رسول آزاد، عبداللطیف فیاض، ارشاد قمر، شریف شاہین، نکہت چودھری بنے ہوئے شاعری کا نیا لباس اوڑے ہوئے پرانی موٹی رضائی سے باہر آ رہے ہیں اور کہیں کلثمہ تو کہیں شمیؔ ناز بہن بھی تحروں اور افسانوں کا ہلیا اپنائے ہوئے اس رضائی کو ہٹانے کی کوشش میں مصروف ہیں، یہ سب دیکھتے ہی مجھ ناچیز کے میری قوم کے نام لکھے ہوئے خطوط کے جواب کہیں شوکت نسیم صاحب رودادِ قوم اخبار میں دے رہے تھے تو کہیں لمبی چوڑی تحریوں میں بہن شازیہ دے رہی تھی۔تو منزل کی دوڑ میں میں بھی اس قافلے کے ساتھ ہو گیا ۔
ہاں میں ہی وہ گوجر ہوں جو عراق ایران سندھ پنجاب دہلی گجرات ہندو و پاک کے ہر شہر کا ایک بادشاہ کے لباس میں سفر کر کے سو گیا تھا اب جاگ رہاں ہوں الگ جگہوں پہ الگ ہلیوں میں الگ لباس پہنے ہوئے۔ دعا کریں سب کی بہت جلدی جاگ جاؤں اور اپنی منزل کی جانب سفر دوبارہ شروع کروں تاکہ دنیا سے اک بار پھر اس ظالمانہ اور جابرانہ نظام کا خاتمہ کر کے اپنی سیاسی اور ادبی پہچان کو دوبارہ زندہ کر سکوں۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا