دٌنیا ایک امتحان گاہ ہے۔ جہاں لوگ زندگی کا امتحان دے رہے ہیں۔ یہ امتحان انسان قید میں رہ کر پاس تب ہی کر سکتے ہیں جب نتیجے سے متعلق انسان کو پورا یقین ہو۔ لوگ زندگی کی طوالت مانگتے ہیں اور موت سے نفرت کرتے ہیں۔ امتحان میں رہنا محبوب رکھتے ہیں، جبکہ نتیجے اور نتیجے کے بعد کی ابدی حیات کو صرف ایک خیال تصورکرتے ہیں،چونکہ لوگ اس سٹیج کو حقیقت اور خاتمے کو خیال جانتے ہیں، اس لئے لوگوں کی زندگیاں کمیوں سے بھری رہتی ہیں۔ ان کی عبادات رسموں کی تکمیل سے زیادہ نہیں ہوتی، کیونکہ ان عبادات کا مقاصد۔ جانتے ہوئے بھی لوگ جاننا نہیں چاہتے، کیونکہ مقاصد کی تکمیل میں نفس کی آرزوں کی تکمیل آڑے آتی ہے۔
کہتے ہیں کتا ہڈی کھاتا نہیں۔ وہ ہڈی کو دانتوں میں دباتا ہے، تو اس کے مسوڑھے پھول جاتے ہیں۔ وہ جب بار بار ہڈی کو دباتا ہے تو اسے ایک سیڈسٹک سی درد ہوتی ہے اور وہ اِسی درد کے نشے میں ہڈی دباتا رہتا ہے۔ انسان کو دنیا میں، اس زندگی میں ہر موڑ پر نئے امتحان کا سامنا کرنا پڑتا ہے،لیکن انسان اکثر باطل کی ہڈی صرف اس لئے چباتے ہیں کہ اسے سیڈسٹک درد کا نشہ لگ چکا ہوتا ہے۔ دنیا نے انسانوں کواس قدر مصروف کر دیا ہوتا ہے کہ آخرت خواب لگتی ہے۔ انسان کواس دنیا کی رنگینیاں اتنی بھاتی ہیں کہ اعمال کی لگن ختم ہو جاتی ہے۔ لوگ لمحے میں جینا پسند کرتے ہیں۔جیسے اس کے بعدکوئی لمحہ نہیں آنا۔دنیا کو ایک ٹرانزٹ یا گزر گاہ کہا گیا ہے۔ جو منزل کی سمت ایک مقام ہے۔ مقام منزل نہیں ہوتا، جو مقام کو منزل سمجھ بیٹھتے ہیں وہ کبھی منزل تک نہیں پہنچ پاتے۔ اِسی لئے تو صوفیا کہتے ہیں۔ مرنے سے پہلے مر جاؤ۔ تاکہ ظاہری موت تکلیف نہیں، بلکہ کا میابی کا پیغام بن کر آئے۔مرنے سے پہلے مرنے کا مطلب ہے کہ اپنے نفس کو نفسانی خواہشات سے پاک کر لینا اور اسے اللہ کی پسندیدہ راہ پر لے آنا تاکہ عبادات کے مقاصد پورے ہوں۔ عبادت کا حق ادا ہو اور زندگی کی رونقیں کسی صورت میں منزل، یعنی بندگی سے غافل نا کر سکیں
مولانا روم سے کسی نے پوچھا کہ دنیا کی حقیقت کیا ہے؟مولانا روم نے فرمایا،دنیا کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص جنگل کی طرف جاتا ہے اس نے دیکھا کہ اس کے پیچھے شیر آرہا ہے وہ بھاگا جب تھک گیا تو دیکھا کہ سامنے ایک گڑھا ہے اس نے چاہا کہ گڑھے میں چھلانگ لگا کر جان بچائے لیکن گڑھے میں ایک خوفناک سانپ نظر آیا اب آگے سانپ اور پیچھے شیرکا خوف اتنے میں ایک درخت کی شاخ نظر آئی وہ درخت پر چڑھ گیا مگر بعد میں معلوم ہوا کہ درخت کی جڑ کو کالا چوہا کاٹ رہا ہے وہ بہت خائف ہوا کہ تھوڑی دیر میں درخت کی جڑ کٹے گی پھر گر پڑوں گا پھر شیرکا لقمہ بننے میں دیر نہیں۔
اتفاق سے اسے ایک شہد کا چھتہ نظر آیا۔وہ اس شہد شیریں کو پینے میں اتنا مشغول ہوا کہ نہ ڈر رہا سانپ کا اور نہ شیر کا۔
اتنے میں درخت کی جڑ کٹ گئی وہ نیچے گر پڑا۔شیر نے اسے چیر پھاڑ کر گڑھے میں گرا دیا اور وہ سانپ کی خوارک بن گیا۔
جنگل سے مراد یہ دنیا ،شیر سے مراد یہ موت ہے جو انسان کے پیچھے لگی رہتی ہے،گڑھا قبر ہے ،چوہا دن اور رات ہیں،درخت عمر ہے اور شہد دنیا ئے فانی سے غافل ہو کر دینے والی لذت ہے۔
انسان دنیا کی لذت میں اعمال بد اور موت وغیرہ بھول جاتا ہے اور پھر اچانک موت آجاتی ہے۔
کبھی بھی ایسی بات نہ کہو جس سے تمھارے بہن بھائی کو دکھ ہو۔اچھا انسان وہ ہے جو مصیبت کے وقت کام آئے۔
نماز وہ راستہ ہے جو سیدھا جنت کی طرف جاتا ہے۔
ماں باپ کی قدر کرو ان کے بڑھاپے کا سہارا بن سکو۔
بچوں سے شفقت سے پیش آؤ۔یہ پھول کسی کسی آنگن میں کھلتے ہیں۔
تین چیزیں انسان کو برباد کر دیتی ہیں
حسد۔قرض۔غرور
علم ایک ایسا سمندر ہے جس کی کوئی تہہ نہیں ۔
دل ایک ایسا آئینہ ہے ۔اگر بدی سے پاک ہو تو اس میں خدا بھی نظر آجاتا ہے۔
عزت دنیا مال سے ہے اور عزت آخرت اعمال سے ہے۔
تعجب ہے اس پر جو شیطان کو دشمن جانتا ہے پر اسکی اطاعت کرتا ہے۔
معاف کردینا سب سے اچھا انتقام ہے۔
ہمیں ہر اس چیز سے محبت کرنی چاہیے جو محبت کروانے کے لائق ہو
اور ہر اس چیز سے نفرت کرنی چاہیے جو نفرت کے قابل ہو۔
لیکن اس صورت میں ممکن ہے جب ہمارے پاس دونوں کا فرق دیکھنے کے لیے عقل کی دولت ہو۔
پڑوسی کو ستانے والا جہنمی ہے گرچہ تمام رات عبادت کرے اور تمام دن روزہ رکھے۔
دوسروں کی خامیاں تلاش کرنے سے پہلے اپنی خامیاں تلاش کرو۔
تحریر کلثوم چوہدری ضلع ریاسی 990601756