اے کاش ! کوئی کچھ سمجھے

0
0
موج نے ڈوبنے والوں کو بہت کچُھ پلٹا
   رُخ مگرجانبِ ساحِل نہیں ہونے پائے
   خالق کائنات کی حکمتوں کا منتہی نہیں آخر مسلمان کیسا ہی گیا گزرا ہو ، پھر بھی ایمانی وصف سے متصف ہے حقیقت یہ ہے کہ بعض مظلوم مسلمان بھی بزبان قال نہ سہی بزبان حال خوش ہیں کہ رب اکرم نے مدد فرما ہی دی گو جس صورت میں بھی ہے
اس وقت پوری دنیا امن و آشتی کا گہوارہ بن چکی ہے اہل ایمان پر سکون ہیں چوں کہ ان پر فضائی حملے بم دھماکے بند ہیں قتل و غارت گری ، ریپ ، ڈکیتی اور چوری کی وارداتیں محدود ہوچکی ہیں ظلم و ستم میں بھی بہت کمی پرندے اور جانور صاف اور تازہ ہوا میں گہری گہری سانسیں لے رہے ہیں فضائیں رقصاں اور دریا و ندی نالے جھوم رہے ہیں انسان کے سوا سب خوش ہیں فضاؤں میں عجب سی روحانیت اور سرور ہے کہا جاتا ہے کہ مسجد نبوی اور کعبہ کی عبادت بند ہے جب کہ یہ بات صحیح نہیں ہے درست بات یہ ہے کہ مسجد نبوی بھی آباد ہے اور خانہ کعبہ کا طواف بھی جاری ہے اور پوری آب و تاب سے جاری ہے بس ابن آدم کو روک دیا گیا ہے تاکہ اس کی عقل میں اس کا مقصدتخلیق آجائے جاننا چاہیئے کہ بے عملی کا وائرس کرونا وائرس سے زیادہ خطرناک ہے فرمایا کہ خشکی اور تری میں جو بھی فساد برپا ہوتا ہے اس کی وجہ انسانوں کی بداعمالیاں ہوتی ہیں رب ذوالجلال اپنی قدرت کا اعجاز دکھاتے ہیں جس میں انسانوں کے لیے بہت بڑا سبق ہوتا ہے اس وقت کائنات انسانی امتحان و آزمائش کے مرحلے میں ہے
حدیث پاک میں ہے کہ تم دعاؤں کے ساتھ تقدیر کے فیصلے بدلواو خیرات اور صدقات کے ساتھ بلاوں اور آفات کو ٹال لو تفسیر میں آتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام ایک جنازے میں تشریف لے گئے تھے آپ کو کہا گیا کہ بس جنازہ پڑھا کر اپنے ساتھیوں کو ساتھ کرکے اس علاقے سے بھاگیں کیوں کہ ان لوگوں پر قہر اور عذاب آ رہا ہے عیسی مسیح حق تعالٰی کے رسول برحق تھے حضرت عیسی علیہ السلام حق تعالٰی کے حکم کی تعمیل میں جنازے سے فارغ ہو کر وہاں تشریف لے گئے اور بہت دور چلے گئے تاکہ وہاں کی تباہ کاری کا اثر ان پر نہ ہو کچھ دن گزر گئے دیکھا کہ وہ شہر اور گاؤں بالکل قائم دائم ہے حضرت عیسی علیہ السلام کو بہت حیرت ہوئی جبریل علیہ السلام آپ کے ساتھ ہمہ وقت ہوتے تھے حضرت عیسی مشیت ایزدی کے مطابق بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے جبریل علیہ السلام نے بحکم خدا جناب مریم کی قمیض میں پھونکا تو اس سے عیسی علیہ السلام متولد ہوئے تو حق تعالٰی نے ان کو ایک سہولت دی تھی کہ جبریل علیہ السلام تقریبا ان کے ساتھ رہتے تھے ان سے پوچھا کہ یہ کیا معاملہ ہوا ہے حق تعالٰی کا تو سارا نظام سچ و صدق کا ہے جبریل نے حق تعالٰی سے جاکر پوچھا تو حق تعالٰی نے فرمایا کہ اے عیسی ! جب آپ جلدی چلے گئے لوگ بڑے زیرک اور ذہین تھے سمجھ گئے کہ کوئی گڑ بڑ ہے تو لوگوں نے گھر جاکر اعلان کیا کہ آٹے میں سے کچھ آٹا خیرات کرو شکر میں سے شکر خیرات کرو خدا کے نام پر جانور قربان کرو ہر چیز میں تصدق فی کل شئی حق تعالٰی نے فرمایا کہ میں ایسی زمین پر کیسے عذاب بھیجوں گویا اس وجہ سے عذاب کا فیصلہ ہوا تھا کہ ان میں خرچ کرنے کا مادہ ختم ہوگیا تھا صرف جمع کرنا اور لوٹ کھسوٹ جوا بازاری گرم تھی ہندوستان کے معروف عالم دین حضرت مولانا یعقوب نانوتوی علیہ الرحمہ کو مسلسل کچھ علامات نظر آرہی تھیں اور کچھ خواب دیکھنے میں نظر آرہے تھے اور کچھ جان پہچان والے لوگ ملنے آتے تو وہ بھی کچھ اسی قسم کے خواب سناتے مولانا بہت زیادہ غمگین ہوئے اور رونے لگے صوفی مزاج کے آدمی تھے بہت مشکل سے کسی کے پوچھنے پر بتایا کہ یہ قصبہ ڈوب جائے گا تو انہوں نے یہ بھی پوچھا کہ پھر بچنے کا کیا طریقہ ہے سدباب کیسے ہوگا کہا کہ ہر چیز میں صدقہ کرو آٹا چاول چینی پھل سبزی میں سے اناج میں سے تو لوگ ہر قسم کے ہوتے ہیں توجہ نہیں دی کسی نے کہا کہ لگتا ہے دارالعلوم کے باورچی خانے میں کمی ہوگئی ہے تو مولانا کو بہت غصہ آگیا فرمایا کہ محمد یعقوب اور ان کا خانہ دان و گھرانہ ابھی یہی الفاظ جاری تھے کہ ایک شخص بھاگتا ہوا آیا اور کہا خدا کے لیے حضرت کے منہ پر ہاتھ رکھو اور کہا کہ خدا کے لئے خاموش ہوجاو اس نے کہا کیا کہا بس جو کہا وہ ہوگیا ہے چنانچہ سات مہینے تک وبا پھیل گئی وہاں مولانا کے اہل و عیال اور بچے بھی اس میں فوت ہوگئے حوض کے کنارے کھڑے تھے کسی نے کہا کہ سب کو بھیج دیا تو یہاں کھڑا ہے کہا کہ وقت آچکا ہے اگلے دن حضرت کا بھی انتقال ہوگیا کہتے ہیں اتنی بڑی وبا تاریخ میں کہیں نہیں آئی ستائیس ہزار لوگ ہلاک ہوگئے لوگوں کے گھروں میں لاشیں پڑیں تھیں اٹھانے والا کوئی نہیں تھا تو بلائیں آفات خیر و حسانات سے ٹلتیں ہیں اور مسلمان جو سچ مچ زکوٰۃ دیتے ہیں حق تعالٰی ان کا مال پاک کر دیتا ہے ان کی زندگی پر سکون کر دیتا ہے خلاصہ یہ کہ عمومی بلاوں اور وباوں کے وقت صدقہ و خیرات ایک مجرب عمل ہے اس پر عمل کیا جائے اہل ایمان اپنے سائے سے نہ بدکیں اہل ایمان دو وجہوں سے ہی خسارہ میں آسکتے ہیں ایک یہ کہ خوف خدا میں کمی آجائے دوسرا یہ کہ احتیاط نہیں کی گئی اور احتیاط میں نمازیں ہیں جو برائی اور بے حیائی سے بچاتی ہیں ذکر و اذکار اور قرآن مجید کی تلاوت ہے جس سے سکون قلب حاصل ہوتا ہے صدقہ و خیرات ہیں کہ جن سے آفات و مصائب  دور دفع ہوتے ہیں معروفات کی اشاعت اور منکرات کا سدباب ہے کہ جس سے خیر وجود میں آتی ہے بہ ہرحال اس قسم کے حالات میں امت کو فطرتِ الہیہ کے تقاضوں پر عمل کرنا آسان ہے جو شرعی قانون کی شکل میں ہمارے پاس ہے سماج کو اسلامی طرز زندگی میں تبدیل کر نا بھی سہل ہو گیا ہے واقعہ یہ ہے کہ اس وقت پوری اِنسانیت غیر شعوری طور فطری طور و طریق کی پابند ہو گئی ہے اسی کا نام قدرت ہے کاش مسلمان اس کو سمجھیں
                                                                                                           *احساس زیاں —–  مقصوداحمدضیائی
FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا