کشمیری زبان اور گلمرگ کے نوجوان قلمکار

0
0

اس بات سے ہر ذی شعور آشنا ہے کہ وادی کشمیر جہاں اپنے لالہ زاروں، آبشاروں،پہاڑوں کے حسن کے حوالے سے پورے دنیا میں مشہور ہیں وہی پر علم وفن کے حوالے سے بھی یہ چمن انتہاہی معنی خیز ہے۔ یہاں کے لوگوں کی ذہانت کے لیے یہی بات کافی کہ’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی‘‘۔یہاں کے لوگوں نے ماضی میں بھی اور آج کے تاریخ میں بھی علمی اور ادبی دنیا کے ہر شعبے میں اپنا لوہا منوالیا ہیں۔چونکہ جہاں یہاں کے رہنے والے لوگوں کے اخلاق وعادات،رہن سہن کا طریقہ اپنا انفرادی مقام رکھتا ہے وہی پر یہاں کی زبان بھی ایک خاص حثیت کی حامل ہے۔ کشمیری زبان سرزمین کشمیر کی طرح انتہاہی خوبصورت ہیاور ہمارے تہذیب ثقافت،رہن سہن اور دیگر چیزوں کی ترجمان ہے۔اس زبان کو تاریخی نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس زبان نے ان قلمی سپاہیوں کو جنم دیا جنہوں نے آفاقی سطح پر پزیرائی حاصل کی۔ یہ وہی زبان ہے جس کے ترجمان نندریش اور لل دید جیسے فلسفی ہیں۔جن کے بدولت کشمیری شاعری اور ادب میں ایک نیا دنیا وجود میں آیا۔اس زبان نے اگرچہ ہر دور میں سوتیلی ماں کا سلوک محسوس کیا لیکن پھر بھی بادِ مخالف کے ہواوں سے گزر کر بھی اس زبان نے ہر دور میں ہماری شناخت کو بحال رکھا۔دور جدید میں جب اس زبان کا طائرانہ نگاہ سے جائزہ لیتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ کشمیری زبان کے تئیں کوئی ٹھوس کام نہیں ہوتی ہے۔ لیکن پھر بھی اس زبان کے مقام اور عظمت کے خاطر کچھ حساس لوگ قلم اور خیالوں کا ہتھیار لیکر کمر بستہ ہیں۔جہاں سرزمین کشمیر ادبی اور فلسفی حوالے سے زرخیزہے وہی پر وادی گلمرگ بھی اپنے دامن میں ان فن کاروں کو تحفظ دیتی ہیں جنہوں نے دور جدید میں ادبی دنیا میں وہ نام کمایا کہ اب یہ علاقے کے شناخت بن چکے ہیں۔گلمرگ علاقے نے ان قلمکاروں اور ادیبوں کو جنم دیا جو ادب کے بنیادی اصولوں سے آشنا ہیں۔ حسین لالہ زاروں کے اس چمن میں کچھ ایسے اہل شباب قلم کار آج کے دور میں موجود ہیں جو کشمیری زبان کے تحفظ اور اس کے بقا کے ل?ے خونِ جگر پیش پیش رکھتے ہیں۔ ان نوجوانوں نے وادی کے دیگر علاقوں کے نسبت چند قدم آگے ہی خود کو پیش کیا۔یہ نوجوان زبان اور ادب کے ان تمام اصولوں سے واقف ہیں جو کشمیری زبان اور ادب کے ضامن ہیں۔ کہنے والوں کی بات معنی خیز ہیں کہ پہاڑوں سے گوہر نکلتے ہیں اس پیرا میں جب گلمرگ کے نوجوان قلمکاروں کے اقدام کشمیری زبان کے تئیں سے بات کرتے ہیں تو یہ گوہر اور قلمی سپاہی واضح نظر آتے ہیں۔وادی گلمرگ کا دامن بہت وسیع ہے جس کے سبب اس حسین وادی نے ایک وسیع علاقے کو دامن میں جگہ دے کر ان کے ذہنوں کو بھی حسن بخشا۔ یہ نوجوان قلمکار ان بستیوں سے وابسط ہیں کہ انسان محو حیرت رہتا ہے کہ یہ زبان کتنی عظمت کی مالک ہے جس زبان نے ان آوازوں کو جنم دیا جنہوں نے نہ صرف وادی بلکہ دیارِ غیر میں بھی یہ بات واضح کیا کہ’’میں کہ میری غزل میں ہے آتش رفتہ کا سراغ‘‘۔ گلمرک کے حسین دامن میں پلنے والا ریاض ربانی کسی تعرف کا محتاج نہیں۔ واری پورہ پاین جیسے چھوٹے گاوں سے تعلق رکھنے والا یہ استاد اگرچہ عمر کے لحاظ سے چھوٹا ہے لیکن ادبی دنیا میں یہ بہت آگے جاچکا ہے۔ وادی کا یہ نورِنظر صرف قلمکار اور استاد ہی نہیں ہے بلکہ ایک ایسا سماجی کارکن جس نے ہر مزاج کے سامنے مقام پایا۔ اس کا سوچ وفکر اس قدر بالغ ہے کہ یہ ہوا?ں کا نبض دیکھنے کے فن سے بھی آشنا ہے۔اور ہر احساس کو الفاظوں میں قید کرنے کا ہنر اس خودی کے مالک اور شاہین صفت نوجوان کے پاس ہے۔اس نوجوان قلمکار اور شاعر نے چند ماہ قبل بہترین استاد کی سند بھی حاصل کی۔ سماج کے ہر طبقے میں اس کو قدر نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ربانی نام فقط چند شعروں میں موجود نہیں ہے بلکہ یہ صاحب عقل کشمیری ادب میں ایک معروف نام ہے۔ ربانی زبان کی بقا کے لیے ارادوں کو مضبوطی سے تھام کر ایک ادبی فورم’’ہم سخن کلچرل فورم‘‘ کے نام سے چلاتاہے۔جس کامقصد فقط زبان کی بہبودی ہے۔ ہر صنف کا فہم رکھنا ہر مزاج کا کمال نہیں ہوتا مگر ربانی ہر طرح کے احساس کو فن کارانہ صلاحیت سے قلم کی زبان دیتاہے۔
اسی تن کاڑھا خوشی چانس نصیبس باخدا
چھم غنیمت دود لہ ون چشمہ پرنم آستن
جگرکس یتھ آمہ تاوس چھم پھہان مہ سخ ریاض
یار شہجار،بونہ شہولہ،شہل شبنم آستن
ربانی
ریاض ربانی شعروشاعری کے اس فن سے واقف ہے جس سے ہر احساس کو الفاظوں کا لباس پہناتے ہیں۔اگر اس صاحب فہم کے فن اور کشمیری زبان کی خدمت کے حوالے سے بات کی جا? تو مضمون گہرائی کا رنگ لے سکتاہے۔
تمی دوپ نہ تھاونی کانسہ بندس ستی عداوت
فرمودہ یی سپد ز،کرن شوبہ محبت
اسی کور یہ سورے پانہ اتھو ستی ونو کس
توج پانہ اسی ننہ وانہ ربس ستی بغاوت
ربانی
کشمیری زبان کی خدمت کے لیے سرزمین گلمرک نے وہ گوہر ہمیں دئیجن کو دیکھ یہ عیاں ہورہا ہے کہ یہ زبان کبھی اپنا مقام نہیں کھوسکتی۔جدید دور میں ساگر نزیر بچوں سے لیکر بزرگوں تک ہر مزاج کا شہزادہ نظر آتا ہے۔چوکر کی تعلیم یافتہ بستی کایہ ہیرہ ایسی صلاحیت کا مالک ہے جس کو دیکھ کر ہر ایک علم شناس ڈاکٹر اقبال کے اس بات سے متفق ہوگا۔
ندانم نکتہ ہائے علم وفن را
مقامے دیگرے دادم سخن را
میان کارواں سوز وسرورم
سبک پے کرد پیران کہن را
اقبال
ساگر نزیر دور جدید کیان قلمکاروں میں شامل ہے جنہوں نے کشمیری زبان کو وہ وفا کیا کہ یہ زبان اب ہر ایک کے دل میں بسنے لگی۔ساگر نے نا صرف وادی میں بلکہ وادی سے باہر بھی اپنا لوہا منوالیا۔دو کتابوں کا مصنف ساگر نے کشمیری زبان کی مٹھاس میں اس وقت اضافہ کیا جب اس فن کار نے ’’بانگہ درایوکھ ڑانکہ ما آکھیہ‘‘جیسی تخلیق سے ہر ذہن کو متاثر کیا۔ساگر انتہاہی حساسیت کا مالک ہیں کیونکہ یہ روزمرہ زندگی سے لیکر اپنی تہذیب سے منسلک ہر احساس کو قلمی زبان دینے کا فن جانتا ہے۔
تلا حکیمہ سر تہ سوچ واروچھ نبض رٹتھ
یہ دود کیاز بے خبر اکس بلتھ بیس یوان
ساگر
ساگر کو پڑھ کر انسان یہ کہنے پر مجبور ہوتا ہے کہ یہ صاحب علم نفسیات کے فن سے بھی آگاہ ہے۔نوجوانی کے دہلیز پر قدم رکھنے والے اس فن کار نے جہاں ریاستی سطح کے بہت انعام حاصل کییوہی پر اس کے قلم نے ادب کے حوالے سے ملک کا سب سے بڑا انعام ساہیتہ اکاڈمی انعام اپنے نام کیا۔’’تھر آنگنچ ‘‘جیسی کتاب کا نام اب ملکی سطح پر بھی متعارف ہوا۔ساگر اپنے وقت اور صلاحیت کو کشمیری زبان کے لیے اس قدر قربان کرتا ہے کہ اس نے خود کو اسی بقا کے لیے وقف کیا۔ساگر کلچرل فورم کے نام سے یہ ایک فورم چلا رہا ہے جو کہ علاقے یا وادی کے نو آموز قلمکاروں یا نئی آوازوں کے لئے ایک پر خلوص سٹیج ہے۔ساگر ناصرف انفردی احساسوں کو لفظی عنواں دیتا ہے بلکہ اجتماعی درد کو بھی قلم کا سہارا دیتا ہے۔
ظلمکی فرستن تیوت چھ کوڈمت واش لنجین
آفتابچ چھنہ،ڑھا پیواں کشمیرس منز
بدامنی بورود چھ ساگر کاڈ کڈتھ
زانہہ چھنہ امنک پوش پھولاں کشمیرس منز
ساگر
ساگر ان لوگوں کے احساسوں کا بھی ترجمان ہے جن کو دور جدید میں ہر ظلم کا شکار ہونا پڑتا ہے اور جو یہ محسوس کرتے ہیں کہ کیا ان کیدرد کا بھی سماج میں کسی کو احساس ہیں۔
ہتھ آمد ستھ کیاپالہ مزو
نم ڑم تے پانس گالہ مزور
کس آکھ ساہ دواں مجراہی چھم
ید کھنی کھنی کوہ تیوالہِ مزور
ساگر
افروٹ کے دامن میں رہنے والے ان بستیوں میں جہاں سنجیدہ اور اہل صلاحیت نوجوانوں کی اکثریت موجود ہے وہی پر وا?یلو کی تاریخی بستی میں رہنے والامنظور یوسف آج کے دور میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ پیشہ ور استاد اور ینگ رائٹرس کا جنرل سیکریٹری منظور یوسف ادبی دنیا میں ایک باعزت نام ہے۔یہ مدبرانہ خصلت رکھنے والا نوجوان شاعری کے دنیا میں بالغ نظریہ رکھتاہے جس کی وجہ سے اس کوہر مکتب فکرمیں قدر نگاہ سے دیکھتے ہیں۔منظور ناصرف کشمیری زبان کے حوالے سے قلمی وفاداری پیش کرتاہیبلکہ اس جوان سال قلمکار نے اپنی تعلیم اسی مضمون میں لی اور ماسٹرس ڈگری حاصل کرکے وفاداری کا مکمل ثبوت پیش کیا۔منظور علمی،ادبی اور سماجی دنیا میں ہر مزاج کو منظور ہیں۔منظور کی شاعری پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ جہاں یہ شاہین صفت اپنی زبان کا وفادار ہیں وہی پر یہ ہر احساس کو زبان دینے کی صلاحیت رکھتاہے۔اس کی صلاحیت کو دیکھ کر اقبال کی بات یاد آتی ہے۔
نپنداری کہ مرغ صبح خوانم
بجزآہ وفغاں چیزے ندانم
مدہ ازدست دامانم کہ یابی
کلید باغ رادرآشیانم
منظور یوسف ہر گزرتے احساس کوشاعری کے لباس سے سنوارتا ہے۔جس کی ضمانت منظور کی تخلیق’’لفظ لفظ اضطراب ہے‘‘۔
تمس سورے بنن گدرن اچھن تل میون
ڑ ونتم یاد ہے پاوس تہ پاوس کیا
تمس یون از مگر چھم چھون ہلم کیاہ
دپان چھس برونٹھ کنہ تھاوس تہ تھاوس کیا
منظور یوسف
حسین وادی گلمرک کے دامن میں پلنے والاکرالہ پورہ کا مسرور مظفر آج کے ادبی دنیا میں ایک معروف نام ہے۔ کشمیری زبان کی محبت کے سلسلے میں اس نے اپنا سارا تعلیمی سفر اسی زبان میں حاصل کرنے کا عزم کیا ہیجس کے لیے یہ نورِنظر جامع علی گڑھ میں پی۔ایچ۔ڈی کی اعلی ڈگری حاصل کرنے میں محو عمل ہے۔مسرور اگرچہ نوجوانی کے ابتداہی دنوں سے ہی گزرتاہے لیکن یہ عقل سلیم کا مالک فن کی بلندیوں پر ایک نام بنانے میں کامیاب ہوا۔مسرور نہ صرف ایک شاعر یا اسکالر ہے بلکہ سماجی حلقوں میں ہر مسلے کو اجاگر کرنے میں بھی اس نوجوان نے خود کو پیش پیش رکھاہے۔’’واوچ باوتھ‘‘نام کی کتاب کاتعارف ہر ذی فہم انسان کے علم میں ہے۔اس معروف کتاب کا تخلیق کار بھی یہی پختہ کار ہے۔ اگرچہ مسرور ابھی طالب علمی کے سفر ہی میں ہے لیکن مختلف ادبی ،علمی اور سماجی حلقوں کی طرف سے پزیراہی ملنا گلمرگ کے پورے فضا کے ل?ے باعث فخر ہے۔مسرور کہی ادبی تمغے بھی اپنا نام کرچکا ہے۔ گلمرک کا یہ سپوت جب بھی قلم کو ہاتھ میں لیتا ہے۔تب اپنی زبان کے وفا کے حوالے سے بہت سنجیدہ نظر آتا ہے۔
ونے یتے بہ یار محبتک بجر
چھ یس گڑھاں تہ سے خدا خدا کراں کراں
گمڑ سلے چھ از تہ داری بند متیس
توے چھ اور یور زونہ گاہ کراں
یتھے وچھاں چھ سہ ناخدا چھ مظفرس
سوار ہیتھ سہ نا لا پتا کراں
مسرور
مسرور مظفر حسین وادی گلمرک سے نکل کر باہری دنیا میں بھی ایک معروف نام ہے۔ مسرور کشمیری زبان کے کل کاضامن ہے۔
گلمرگ کے حسن سے یہاں کے رہنے والے نوجوان کا ذہن بھی تازہ اور حساس ہوا ہے جس کا ثبوت ادبی بستی تلگام کا نوجوان استاد شوکت تلگامی ہے۔ شوکت جہاں سانس مضمون کا استاد ہے وہی پر یہ کشمیری زبان کی بقا کے لیے ہر اس محفل کے شان ہوتے ہیں جہاں پر کشمیری زبان کے درد مند اپنے خیالوں کا اظہار کرتے ہیں۔شوکت ہر احساس کو قلم کے نوک سے ترجمانی کرنے کا فن رکھتا ہے۔شوکت تلگامی ایک باصلاحیت اور تجربہ کار شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ زبان کے قواعد وضوابط سے آشنا ہے۔ شوکت تلگامی اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ۔
کاشر ستی چھ کاشر ساری
نتہ وارنک حاران کا
اس لیے یہ گلمرک کا سپوت جب بھی الفاظوں کو کاغذ پر سجاتا ہے تو فقط اپنی زبان کے حروف ہی استعمال میں لانے کا طریقہ اختیار کرتا ہے۔
وتھ چھ سویبس میلہ کنہ ناوے بدل
پرتھ پڑاوس پیٹھ چلے جاوے بدل
گوڑھ نہ اویل پش زمانس ین وستھ
شینہ ڑھٹہ بو پیٹھ تلہ تراوے بدل
شوکت تلگامی
وادی گلمرک کے فضاوں کے سائبان میں رہنے والا محبوب بلال ریرمی ایک ایسی آواز ہے جو کشمیری زبان کے لئے بہت سنجیدہ ہے۔ یہ صاحب دل نوجوان اسکالر جامع حضرت بل سے ایم۔فل کشمیری حاصل کرچکاہے۔محبوب بلال ریرمی اس بستی کا چراغ ہے جسے اگر گلمرک کا دروازہ کہا جاو تو حق ہے۔ محبوب ناصرف کشمیری زبان کی بہبودی کے لئے کمر بستہ ہے بلکہ یہ نوجوان شاعری اور ادب کے ہر اصول سے واقف ہے۔بات واضح ہوتی ہے کہ یہ زبان جب بلال جیسے نوجوان کو جنم دے سکتی ہے پھر خوف کس بات کا یہ ہر بادِمخ?لف سے لڑنے کی بھی ہنر رکھتی ہے۔بلال کا کلام پڑھ کریہ صاف ہوتا ہے کہ ہماری زبان دیگر زبانوں سے بہت آگے ہیں اور یہ زبان ہماریہراحساس کی مکمل ترجمان ہے۔
ینہ سورملی چشمو اوش ہارکھ سوی روزیم عشقس پام مے از
ینہ سایہ ڑزلفکی وہراوکھ بلی سپدیم مندین شام مے از
انہ گٹی کوچین ڑانکی ڑور پاٹھی پانے تم ڑھیوراونی
ینہ لولہ بورت الزام مے دین یاد پیوان سہ شام مے از بلال
وادی گلمرک کے فضاوں میں ایسے قلمکاروں اور فنکاروں نے جنم دیا جنہوں نے کشمیری زبان کو خون جگر دے کے فرض سمجھ کر خدمت کی۔یہاں اگرچہ میں نے چند نوجوانوں کی ذکر کی ہیں لیکن اصل میں حق بات یہی ہے کہ’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی‘‘۔اللہ ہمارے ان عقل سلیم اور طبعیت حلیم رکھنے والے نوجوانوں پر مہربان رہے اور ان کو زورِ قلم عطا کرے۔آمین

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا