سالکؔ دھام پوری حج مبارک ہو

0
0

حج اسلام کا پانچواں رُکن ہے۔یہ بھی نماز ،روزے ، اور زکواۃ کی طرح ایک فرض عبادت ہے۔ یہ ہر اس مسلمان پر اﷲکا ایک حق ہے، جو خانہ کعبہ تک جانے کے وسائل اور طاقت رکھتا ہو ۔ایک مسلمان کا سفر حج و زیارت کے لئے نکلنا یقیناًً اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ اس کے اندر اﷲکی اطاعت اور اس سے مُحبت کا کتنا جذبہ ہے۔چنانچہ ایک مسلمان جب پاکیزہ اور بلند ارادے کے ساتھ سفرِ حج کے لئے نکلتا ہے تو اس کا دل ہر قسم کی برائیوں سے پاک ہونے لگتا ہے اور بھلائیون کی طرف اس کی رغبت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
حج کی فرضیت کا حکم اسلام میں ۹/ہجری کے شروع میں نازل ہوا۔ حج کی فضیلت اور اس کے احکام میں قرآن پاک کی بہت سی آیات نازل ہوئیں اور احادیث لا تعداد ہیں۔ چند آیات یہ ہیں:
’’ لوگوں میں حج ( کے فرض ہونے ) کا اعلان کردو (اس اعلان سے ) لوگ تمہارے پاس ( یعنی بیت الحرام کے پاس حج کے لئے ) آئیں گے ، پیدل بھی اور اپنی اونٹنیوں پر سوار ہوکر بھی ،
جو دور دراز راستوں سے چل کر آئی ہونگی اور سفر کی وجہ سے دبلی ہو گئی ہونگی o تاکہ یہ آنے والے اپنے منافع کو حاصل کریں۔‘‘ ( ترجمہ القرآن، الحج ۲۲:۲۷ا۔۲۸)
’’ (حج کی مدت ) چند مہینے ہیں،جو ( مشہور )معلوم ہیں۔پس جو شخص ان ایام میں اپنے اوپر حج مقرر کرے ( یعنی حج کا احرام باندھ لے ) تو پھر نہ کوئی فحش بات جائز ہے ، نہ عدول
حکمی درست ہے اور نہ کسی قسم کا جھگڑا زیبا ہے ( بلکہ اس کو چاہیئے کہ ہر وقت نیک کام میںمشغول رہے )اور جو بھی نیک کام کرو گے اﷲاس کو جانتا ہے ۔‘‘
( ترجمہ القرآن،البقرۃ۲:۱۹۷ )
اﷲکے رسول ﷺکا ارشاد ہے:
’’ جو شخص حج کرے ، اس طرح کہ دوران ِ حج نہ رفث ہو( یعنی فحش بات ) اور نہ فسق( یعنی حکم عدولی ) وہ حج سے ایسا واپس ہوتا ہے جیسا اس دن تھا ، جس دن ماں کے پیٹ سے پیدا
ہوا تھا۔‘‘
( ترجمہ حدیث صحیح البخاری )
حج کے بارے میں یہ معلومات لکھنے کی ضرورت اس لئے پیش آئیں کہ اﷲتعالیٰ نے جس اہم فرض کو اپنی عبادت قرار دیا اور اپنے بندوں کو جس عبادت کو ادا کرنے کا حکم دیا ہے آج اس عبادت کو زیادہ تر افراد نے دکھاوے اور اپنے نام کو اُجاگر کرنے کے لئے ایک نمائشی فعل بنا لیا ہے۔حج کا سفر آج ایک تفریح اور واہ واہی لوٹنے کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے۔
میرے سامنے میز پر ایک لفافہ رکھا ہوا ہے جس پر اوپر لکھا ہوا کہ ’’ حج مبارک ‘‘ یہ کارڈ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ شادی بیاہ کے کارڈ ہوتے ہیں ۔لفافے کے اندر سے میں نے کارڈ نکالا ۔کارڈ رنگین تھا، اس پر لکھا ہوا تھا:
مکرمی جناب السلام علیکم
آپ سب حضرات کو یہ خوشخبری دیتے ہوئے ہمیں نہایت خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ ہمارے والدِ محترم جناب۔۔۔۔۔۔۔۔۔صاحب
حج مبارک
کے لئے روانہ ہو رہے ہیں۔ انکی روانگی کے مبارک موقع پر ایک مختصر دعوتِ طعام کا پروگرام منعقد کیا گیا ہے
جس میں آپ سب کی آمد ہمارے لئے باعثِ مسرت ہوگی۔
پروگرام: ۱/نومبر ۲۰۱۰ء بروز پیر
دعوتِ طعام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۱۲/بجے دن
منتظرین آمد الداعی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اندازے کے مطابق اس دعوت پر ایک لاکھ روپیہ خرچ ہوا۔سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ جن صاحب کے حج پر جانے کی خوشی میں یہ دعوتِ طعام دی گئی ، وہ خیر سے جماعتِ اسلامی ہند کے قدیم رکن ہیں۔دوسری افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس مہنگی دعوتِ طعام کے باوجود وہ صاحب حج کو نہ جا سکے۔کم سے کم جماعت ِ اسلامی کے ایک رکن سے اس کی توقع نہتھیکہ وہ حج جیسے فرض کو اس طرح نمائشی تزک و احتشام سے منانے کی اجازت اپنی اولاد کو دے گا۔
آج حج کو لوگوںنے اپنی وجاہت اور شہرت و نیک نامی کا بھی ذریعہ بنا لیا ہے۔ہمارے ایک واقف کار نے ہمیں بتایا کہ ’’ ان کی لڑکی کے خسر اس سال حج کے لئے گئے تو انہوںنے جانے سے قبل ہمیں فون کیا کہ ہمارے گھر والے بڑی تعداد میں دہلی آئیں گے آپ کے پاس ٹھہریں گے۔میں نے معذرت کی کہ حج کے لئے زیادہ بھیڑ نہ کی جائے یہاں اس کی گنجائش نہیںہے۔یہ بات ان کو بہت بری لگی۔میری لڑکی نے فون کیا کہ ابا! یہ لوگ مجھے طعنہ دے رہے ہیں کہ تیرا باپ ہمیں گھر دکھانا نہیں چاہتا۔ اس نے کہا کہ یہ مجھے تنگ کریں گے اور برا بھلا کہیں گے۔ میں نے یہ سوچ کر ان کو کہہ دیا کہ ٹھیک ہے آجاؤ۔میرے واقف کار نے بتا یا کہ ایک دن مجھے فون ملا کہ ہم لوگ ۴۵/افراد پرانی دہلی ریلوے اسٹیشن پر موجود ہیں سواری لے کر ہمیں لینے آؤ۔ میں تین گاڑیاں کرکے ان کو گھر لایا میرا ۴۰ گز کا چھوٹا سا فلیٹ تھا آس پڑوس میں ان کو ٹھہرایا ۔کسی نہ کسی طرح کھانے پینے کا بندوبست کیا ،صبح ان کو ایئر پورٹ پہنچایا۔ان کو حج کے لئے جانا تھا وہ چلے گئے لیکن مجھ غریب آدمی کو ساڑھے پانچ ہزار روپیئے خرچ کرنا پڑے۔
یہ ہے آج کے دور کے حاجیوں کا حج کا طریقہ! پچھلے سال ضلع غازی آباد کے علاقے مسوری سے ایک بزرگ حج کے لئے گئے تھے۔جب وہ حج سے واپس آئے تو ان کا بیٹا اپنے چند دوستوں کے ساتھ ان کو لینے ائر پورٹ گیا۔ حاجی صاھب نے بیٹے سے پوچھا کہ گاؤں سے کتنے لوگ مجھے لینے آئے ہیں۔بیٹے نے کہا کہ میں اور میسے چند دوست تو وہ بزرگ سخت ناراض ہوئے اور بیٹے کو ڈانٹتے ہوئے کہنے لگے کہ میں یہاں سے باہر نہیں نکلوں گا جب تک گاؤں سے چالیس پچاس لوگ نہیں آئیں گے۔ بیٹے نے انہیں بہت سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ نہ مانے۔آخر بیٹے نے فون کرکے گاؤں سے بذریعہ بس لوگوں کو بلوایا اور پھر وہ بزرگ نعروں کی گونج اور پھولوں کے گلدستوں سے لدے پھندے اس قافلے کے ساتھ گاؤں پہنچے۔یوں بھی آج کل حاجیوں کی دعوت کرنے کا ایک عام رواج چل پڑا ہے۔ حج کو جانے سے قبل بڑی شاہانہ دعوت ہر رشتے دار کراتا ہے اور حج سے آنے کے بعد بھی حاجی صاحب کی آمد کی خاطر دعوتوں کا سلسلہ دراز رہتا ہے۔اس ضمن میں ہمیں ایک گھرانے کا یہ قصہ بھی یاد آ رہا ہے کہ میاں بیوی نے حج کو جانے کی درخواست دی۔کچھ دنوں بعد دونوں نے یہ طے کیا کہ ہم حج کرنے تو جا ہی رہے ہیںتو کیوں نہ کم سے کم آپس میں ایک دوسرے کو حاجی اور حاجن کہہ لیا کریں ۔ بس اسی دن سے ان کا یہ معمول ہو گیا کہ بزرگ کو چائے پینی ہوتی تو کہتے حاجن صاحبہ ایک کپ چائے لے آؤ۔ عورت چائے لاتی تو کہتی حاجی صاحب لیجئے چائے حاضر ہے۔ غرض کہ ہر کام میں ایک دوسرے کو حاجی حاجن کہا جانے لگا۔ پہلے گھر کے نوکر نوکرانی کو پتہ لگا پھر گھر سے بات باہر نکلی۔محلے بھر میں کچھ ہی دنوں میں وہ دونوں حاجی حاجن بن گئے۔ اتفاق سے ان کی درخواست منظور نہ ہو سکی ، مگر وہ بنا حج کے حاجی حاجن بن گئے۔
اسی طرح ایک دینی جماعت میں ایک دوسرے کو مولانا کہنے لکھنے کا بڑا رواج چل پڑا ہے۔یہاں تک کہ بنا داڑھی والا بھی مولانا، کم پڑھا لکھا بھی مولانا ، علمِ دین سے کورا بھی مولانا۔۔۔۔مولانا کا اس کثرت سے استعمال ہو رہا ہے کہ لفظ مولانا کی مٹی ہی پلید ہوکر رہ گئی۔ اگر چہ قرآن و حدیث میں مولانا اﷲکے لئے استعمال ہوا ہے اور غیر اﷲکے لئے اس کی ممانعت آئی ہے۔اسطرح حج جو ایک عبادت ہے اس کو محض نام و شہرت اور دکھاوے کیلئے ادا کیا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ غیر اسلامی چیزیں وابستہ کرکے حج کی روح کو ہی فراموش کردیا گیا ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ آج اسلام اور اسلام کے ماننے والوں نے غیر اسلامی چیزیں اسلام میں ضروری قرار دینی شروع کردیں اور ضروری چیزوں کو اسلام سے علٰحیدہ کر دیا ہے۔

نوٹ:۔بُرا نہ مانیں تو لوگوں نے آج حج یا عمرہ کو ایک اضافی سند سے زیادہ اہمیت نہیں دی ہے۔کوئی نوکری سے سبکدوش ہوا تو عوام کا ایک مخصوص طبقہ ہاتھ دھو کر اُن کے پیچھے پڑ جاتا ہے کہ بھائی ماشا اﷲخیر سے نوکری سے سبکدوش ہو گئے اب شکرانے میں حج بیت اﷲ یا کم از کم عمرہ کی فکر کرو۔خیر کہنے والوں کو تو کوئی موقع چاہیئے وہ اُکسانے کا کام خالص اسلامی طرز پر کرتے ہیں۔ چاہیئے تو یہ ہے کہ اِس سبکدوش شدہ سرکاری ملازم سے کہیں کہ بھیا نوکری کے دوران کوئی بھول چوک ہوئی ہو یا حقوق العباد ادا کرنے رہ گئے ہوں ، یا کسی سے لین دین رہا ہو تو وہ ادا کرنے کی فکر کرو۔مگر ایساکرتے کسی بھی بی جمالو کو کبھی نہیں دیکھا ہے۔ البتہ عمرہ اور حج پر جانے کی تلقین کو وردِ زبان فرض کیئے بیٹھے لوگ تب تک اِس غریب ملازم کا پیچھا کیئے رہتے ہیں جبتک یا تو وہ غریب نقل مکانی کرکے کہیں دُور جا بسے یا اُس دُنیا کی طرف کوچ کر لے۔
کیا آپ میں سے کوئی سینہ ٹھوک کر یہ بات کہہ سکتا ہے کہ اُس نے اس بیچارے سرکاری ملازم کے گھریلو حالات جاننے کی کبھی کوشش کی ہے ؟۔ اُس کے گھر میں جوان بیٹی یا بیٹا شادی کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں۔یا بچا پڑھ لکھ کر نوکری یا کاروبار شروع کرنے کے انتظار میںبیٹھا ہے۔بہ خُدا خاکم بدہن ہم حج کی مخالفت نہیں کرتے بلکہ دُکھتی رگ سے آپ کو شناسا کیئے دیتے ہیںکیونکہ شکم سیر کو کیا معلوم کہ بھوک یا مجبوری کیا ہوتی ہے۔
اﷲتعالیٰ ہمیں کہنے سننے سے زیادہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔۔۔آمین

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا