تعلیم وتربیت ڈاکٹر اقبال رح کی نظر میں

0
0
تحریر:منتظر مومن وانی
بہرام پورہ کنزر
رابط: 8082706173
علم کے دریا سے نکلے غوط زن گوہر  بدست
وائے محرومی!خزف چین لبِ ساحل ہوں میں
                                                               بانگ درا
علم کے دریا سے غوط لگانے والے ہاتھوں میں موتی لے کر باہر نکلے. اس سلسلے میں مجھے اپنی محرومی کا بڑا دکھ ہے کہ میں سمندر کے کنارے سنگریزے چننے والا ہوں.
  کائنات میں تعلیم کا ابتدا "اقرا”لفظ کے ساتھ ہوا. تعلیم سیکھنا اور سکھانا یہ ایک ایسی عمل ہے جو انسانی روح کو پرلطف ماحول بخش کر زندگی کے تمام حقائق سے آشنا کراتا ہے. تعلیم کا مطلب ہے خود کو جہلت زدہ دنیا سے نکال کر اخلاقی دنیا میں قیام کرنا ہے.ایک نوجوان جو تعلیم حاصل کرتا ہے کیا وہ تعلیم اس کے ضمیر کو زندگی بخشتی ہے؟ اس بات کی فکر علامہ اقبال کے ذہن میں ہمیشہ گردش کرتی تھی. یہ بات سنہری لفظو سے قلمبند کرنے کے قابل ہے کہ علم کائنات کا روح ہے. روح کو الگ رکھ کر کائنات کا مقام مردہ تصور کیا جائے گا. اس لیے اسلام نے پہلے ہی اس بات کا پیغام دیا.
 طلب العلم فریضتہ علے کل مسلم.
 تعلیم کے نور سے جانور صفت انسانوں کو حقیقی منزل کا پتا مل گیا اور اس سے پیار,انسانیت اور ہمدردی کا جزبہ ان کے دلوں میں زندہ ہوا.صیح تعلیم اور حقیقی علم وہ ہے جو انبیاہوں ,ولیوں اور بزرگوں کی زندگی میں تھا جس کے بدولت انہوں نے انسانیت کو جہالت کی آندھی سے نکال کر ایک صالح معاشرے کا قیام عمل میں لایا. ویران چمن کو بہار کا پیغام دے کر پورے عالم کو علم کی خوشبو سے مہکایا. تعلیم کی بدولت انسان نے عرش اور فرش پر اشرف المخلوقات کا دعوا کیا.
  یہ بات حقیقت کے آسمان پر تاروں کی طرح چمکتی ہے کہ تعلیم اللہ کا نور ہے اور اس کا طالب ایک سچا مجاہد ہے.تعلیم وہ ہتھیار ہے جس کے بدولت انسان زندگی کے کسی بھی پریشانی کو ہرا سکتا ہے.میرے جگر کے قرار امام کائنات حضرت محمد ﷺ نے فرمایا علم حاصل کرو محد سے لحد تک اس کا مطلب ہے انسان کو پوری عمر علم حاصل کرنے کے لیے زانوئے طلب رہنا چاہیے. اس لیے دانشوروں اور عقل سلیم رکھنے والوں نے یہ بات اپنے مزاج میں درج کی ہے کہ تعلیم سوئے دلوں کو جگانے کے لیے ایک واحد راستہ ہے.بے علم انسان زندگی میں قدم قدم پر مصائبوں کا شکار ہوتا ہے. اس لیے شیخ سعدی رح نے  اس حقیقت کو یوں زبان دی ہے.
 چوں شمع از پئے علم باید گداخت
کہ بے علم ناتواں خدارا شناخت
 ڈاکٹر اقبال جہاں ایک جوان کو زندگی کے ہر حقیقت کا اطلاع دیتا ہے وہی پر اس بات کا بھی پیغام دیتا ہے کہ اپنے وجود کو ایک خوبصورت شکل دینے کے لیے تعلیم مکمل عمل ہے. جس کے بدولت انسان  زندگی کے حقیقت سے باخبر ہوتا ہے. ایک انسان علم کے ذریعے ہر مصیبت سے لڑنے کے لیے زندہ دلی کا اظہار کرتا ہے. تعلیم کے ذریعے انسان کے شعور اور عقل میں پختگی آتی ہے.
 علم و حکمت رہزن سامان اشک و آہ ہے
یعنی اِک الماس کا ٹکڑا دِل آگاہ ہے
                                                 بانگ درا
علم و حکمت اشک و آہ کا لٹیرا ہے. گویا دل آگاہ محض الماس کا ایک ٹکڑا ہے.علم و حکمت اور اس کی بنا پر اسباب و حقائق سے آخر دل انسان کو کسی بھی غمگین موقع پر رونے اور آہیں بھرنے سے روکتا ہے.
علم مردہ دل انسان کو اسی طرح جان بخشتا ہے جس طرح بارش کسی صحرا کو. اس لیے علم ایسا درخت ہے جس کو دل ودماغ کی زمین میں لگا کر خوبصورت عقل کا پھل حاصل کرتا ہے. میرے نبیﷺ نے فرمایا ایک عالم شیطان پر ہزاروں سے عابدوں سے سخت ہے اور عالم کو عابد پر ایسی ہی فضیلت ہے جس طرح چودوہیں  چاند کو تاروں پر کیونکہ عالم انبیا کا وارث ہے. انبیاہوں کی وراثت دینار یا درہم نہیں ہوتا بلکہ علم. اس لیے امام کائناتﷺ کی بات دل کے دیوار پر رکھنے کے قابل ہے کہ
العالمہ افضل من عبادۃ الجاھل
عالم کی نیند جاہل کی عبادت سے بہتر ہے.
اقبال رح بھی اسی علم کا طلبگار ہے اور وہ جوانوں کا بھی اسی تعلیم کا پیغام دیتا ہے.
علم کی سنجیدہ گفتاری, بڑھاپے کا شعور
دینوی اعزاز کا شوکت, جوانی کا غرور
                                                  بانگ درا
علم حاصل کرنے سے انسان میں سنجیدگی پیدا ہوتی ہے پھر بڑھاپے کا احساس بھی انسان کو سنجیدہ بناتا ہے جب کہ دنیاوی چیزوں کا ہونا اور نوجوانی کا غرور رعب دار بناتا ہے.
  علم ایسی دولت ہے جو کائنات کے پوشیدہ رازوں سے انسان کو واقفیت دیتی ہے.علم سے انسان اخلاقی قدروں کا جائزہ لے کر فرشتوں پر برتری حاصل کرتا ہے. یہ علم کا ہی طاقت ہے جس سے انسان آسمانی رازوں سے پردہ اٹھا کر اللہ کی عظمت سے واقف ہوتا ہے. امام غزالی رح اس بارے میں فرماتا ہے جس شخص کو علم حاصل کرنے کی فکر ہو اسے پہلے اس بات پر غور کرنا ہے کہ اس کو علم حاصل کرنے کا کیا مقصد ہے. اگر وہ دکھاوے کے لیے تعلیم حاصل کرتا ہے تو وہ خود کا دشمن ہے اگر جہالت دور کرنا اور رب کو پہچاننا اس کا غرض ہے تو پھر سبحان اللہ.اسی بات کی فکر ڈاکٹر اقبال رح کو بھی ہے. دنیاوی علوم جہاں اقبال رح سیکھنا ضروری سمجھتا ہے وہی پر اسلامی علوم کی خبرداری بھی نوجوان کے لیے انتہائی اہم ہے. جس علم سے انسان کی نظر وسیع ہوتی ہے اور انسان کی بصارت اور بصیرت میں بالغ پن آجاتا ہے.
وہ علم اپنے بتوں کا ہے آپ ابراہیم ؑ
کیا ہے جس کو خدا نے دل ونظر کا ندیم
زمانہ ایک, حیات ایک, کائنات بھی ایک
دلیل کم نظری قصہ جدید وقدیم
چمن میں تربیت غنچہ ہونہیں سکتی
نہیں ہے قطرہ شبنم اگر شریک نسیم
وہ علم,کم بصری جس میں ہم کنار نہیں
تجلیات کلیم و مشاہدات حکیم
                                               ضرب کلیم
اس بات سے سب متفق ہے کہ جس جگہ آفتاب کی کرنوں سے روشنی ہوتی ہے وہاں پر اندھیری بھی ڈھیرا سجا لیتی ہے لیکن جس جگہ علم کی روشنی پڑھتی ہے وہاں سے جہالت کی آندھی کا ہمیشہ سے خاتمہ ہوتا ہے. اقبال رح بھی اس علم کی تلاش میں ہے جو جوانوں اور قوم کے لیے زندہ کا پیغام بن جائے.اقبال اس علم کو بے معنی قرار دیتا ہے جو فقط دنیاوی ضروریاتوں کو پانے کے لیے حاصل کی جائے.
     خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر
لب خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ
 ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
گھر میں پرویز کے شیریں تو ہوئی جلوہ نما
لے کے آئی ہے مگر تیشہ فرہاد بھی ساتھ
کانچہ کشتیم ز خجلت نتواں کرد درد”
                                                       بانگ درا
اقبال رح تعلیم کے بنیادی اصولوں سے واقف ہے وہ جوان اور قوم کو اس علم کا پیغام دیتا ہے جو تعلیم اخلاقی ضابطوں کا ترجمان ہو. اقبال رح اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ اگر علم نفس کا تابع بن گیا تو پھر یہ معاشرے کے لیے زوال کی بات ہے لیکن اگر دین کا تابع بن گیا تو پھر یہ رحمت ہے.اگرچہ موجودہ وقت میں تعلیم کا زور و شور ہر علاقے اور پوری دنیا میں ہے مگر پھر بھی انسانیت دہشت زدہ ہے کوئی مسلہ ہے جو تعلیم پڑھ کے بھی ہم خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتے.ڈگری حاصل کر کے آج کا نوجوان مغرب کا مکمل مقلد اور غلام بن گیا ہے. مغرب کی غلامی میں مست یہ نوجوان قوم کے لیے کسی بھی اعتبار سے خیر خواہ نہیں ہے.
حرارت ہے بلا کی بلادہ تہذیب حاضر میں
بھڑک اٹھا ببھو کا بن کے مسلم کا تن خاکی
کیا ذرہ کو جگنو کے تاب مستعار اس نے
کوئی دیکھے تو شوخی آفتاب جلوہ فرما کی
نئے انداز پائے نوجوانوں کی طبعیت نے
یہ رعنائی,یہ بیداری,یہ آزادی,یہ بیباکی
تغیر آگیا ایسا تدبر میں ,تخیل میں
ہنسی سمجھی گئی گلشن میں غنچوں کی جگر چاکی
کیا گم تازہ پروازوں نے اپنا آشیاں لیکن
مناظر دل کشا دکھلا گئی ساحر کی چالاکی
                                                    بانگ درہ   
اقبال رح جہاں نوجوان کو علم کے عظمت سے باخبر کرنے میں محو عمل ہے وہاں وہ اسے اس بات کا بھی پیغام دیتا ہے کہ مغربی تہذیب فقط زہر ہے جو زہر انسان کے وجود میں اتر کر اس کے وجود کو تباہ کرتا ہے.اقبال نوجوانوں کے لیے خوابوں کو وہ تعبیر ڈھونڈتا ہے جو پورے کائنات کے لیے  زندہ دلی کا پیغام ہو.اقبال رح جوانوں کو اس تعلیم کی بھی بات سناتا ہے جس سے اس کے شعور میں امامت کی خصلت پیدا ہوجائے. اقبال رح جہاں تعلیم کی فروغ کے لیے سنجیدہ ہے وہاں پر مغربی تعلیم کے مضر اثرات کے لیے بھی وہ انتہائی کر مند ہے اس مغربی تعلیم نے نوجوان کو اخلاقی لباس سے الگ کر کے بہت گرا دیا.
تعلیم مغربی ہے بہت جرت مند
پہلا سبق ہے,بیٹھ کے کالج میں مارڈینگ
                                                  بانگ درا
اقبال رح دور جدید کی طرز تعلیم پر طنز کرتا کرکے کہتا ہے کہ یہ بت اثر اور بے معنی ہے. اس کی نظر میں آج کے مکتب علمی روح سے بلکل خالی ہے. دور جدید کی حالت دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ تعلیم کسی بھی صورت میں اخلاقی بیماریوں کے لیے بااثر علاج نہیں ہے.
یہ بتان عصر حاضر کہ بنے ہیں مدرسے میں
نہ ادائے کافرانہ, نہ تراش آزرانہ
                                                 بال جبرئیل
آج کے یہ بت جو ان مدرسوں سے پیدا ہوتے ہیں ان کی حالت ایسی ہے نہ ان میں کافرانہ ادا پائی جاتی ہے اور نہ آزر کی ماہرانہ فن کاری. مطلب کہ موجودہ طرز تعلیم سے نہ نوجوانوں کی ظاہری صورت ٹھیک ہوتی ہے اور نہ باطنی.
اس تعلیم سے اقبال رح کا وجود مضطرب ہوا ہے وہ جوانوں کے حالت سے عجیب کیفیت کا شکار ہے. اقبال جوان اور اس تعلیم کے لیے انتہائی فکر مند ہے.
مکتبوں میں کہی رعنائی افکار بھی ہے؟
خانقاہوں میں کہی لذت اسرار بھی ہے؟
                                                  بال جبرئیل
آج کے مکتبوں میں سوچ و فکر کی خود آرائی موجود نہیں ہے اور نہ خانقاہوں پوشیدہ رازوں کا وہ مٹھاس .
اقبال رح ان تمام کمزوریوں سے باخبر ہے جو ہمارے تعلیمی اداروں میں پائی جاتی ہے اور ہمارے نوجوان تعلیم کا مطلب فقط ڈگری ہی سمجھتے ہے جو کہ قوم کےلیے پریشانی کی بات ہے.
  یہ مدرسہ, یہ جواں, یہ سرور و رعنائی
انہی کے دم سے ہے, میخانہ فرنگ آباد
                                                    بال جبرئیل
یہ آج کے تعلیمی ادارے اور ان میں زانوئے طلب نوجوان ان کی یہ عیش پرستی اور اپنے آپ کو سجانا ان چیزون سے فقط یورپ کے میخانے ہی آباد ہوئے. مطلب اس یورپی طرز فکر سے ہمارا نوجوان برباد ہوگیا.
نوجوان جہاں کاغذی ڈگری حاصل کرکے کاروان زندگی میں کمر بستہ ہوجاتا ہے وہی پر یہ اس حقیقی راز سے بے خبر رہ جاتا ہے جو راز اخلاقی کے اعلی اصولوں کا تعارف دیتا ہے. موجودہ بداخلاقی جیسے بیماری کا بنیادی وجہ وہ میٹھا زہر ہے جو مغرب نے میرے جوان کو پلایا,
یورپ میں بہت روشنی علم و ہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمہ حیواں ہے یہ ظلمات
                                                    بال جبرائیل
   اس بات میں شک نہیں کہ یورپ علم و ہنر کی روشنی سے چمک رہا ہے لیکن حقیقت میں اس اندھیری میں کوئی چشمہ نظر نہی آتا مطلب ان کا طور طریقہ حقیقی زندگی سے باخبر ہے.
یہ علم ,یہ حکمت,یہ تدبر,یہ حکومت
پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم مساوات
                                                بال جبریل
      اہل یورپ دنیا کو برابری کی تعلیم دیتا ہے کہ سارے انسان ایک ہے مگر جب ان کا کردار دیکھتے ہیں تو بات واضح ہوجاتی ہے ان کا علم و حکمت ان کا وہ وسیلہ ہے جس کے بدولت وہ محکوم قوموں کا لہو پیتے ہیں
  غرض اقبال اس بات کے لیے فکر مند ہے کہ ایک نوجوان اسلامی علوم کے سائے میں زندگی کو سمجھے پھر وہ مقصد زندگی کے اصولوں سے آشنا ہوجائے گا ورنہ یہ مغرب کے رنگ میں رنگ کر بربادی کے سوا کچھ حاصل نہی ہوگا. اللہ میرے جوانون کو حقیقی علم و عقل عطا کرے اور ان شاہینوں کو نگاہ کرم سے نوازے.آمین
FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا