چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
رمّانہ تبسم،پٹنہ سٹی
ای میل rumanatabassumooooo@gmail.com
سال نو 2020کا والہانہ استقبال کرنے میں پورا ملک ہر فکر سے بے نیاز ہو کر جشن میں ڈوبا ہوا تھا ۔آتش بازیاں چھوڑی جا رہی تھیں ۔پارک،کلب اور ریستوران میںلاابالے ہاتھوں میں جام لے کر چھلکاتے ہوئے فلمی دھنو ںپر جاچ گانوں میں مصروف تھے۔ چکا چوند روشنیاں ہر طرف اس طرح پھیلی ہوئی تھیں،گویا ہر طرف رنگ و نور کا سیلاب امنڈ رہا تھا لیکن جب آئی ۔آئی ۔ٹی کانپور کے طلبہ و طالبات نے دہلی کے جامعہ اسلامیہ یونیو رسٹی میں شہریت قانون کے خلاف ہوئے مظاہرے میں طلبہ و طالبات پر لاٹھی چارج کی مخالفت کی اور طلبہ و طالبات نے سال نو 2020 کا والہانہ استقبال فیض احمد فیضؔ کی اس انقلابی نظم سے کیا ؎ ہم دیکھیں گے لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے جو لوحِ ازل میں لکھا ہے جب ظلم و ستم کے کوہ گراں روئی کی طرح اڑ جائیں گے ہم محکموں کے پائوں تلے جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی اور اہل حکم کے سر اوپر جب بجلی کڑکڑ کڑکے گی جب عرض خدا کے کعبے سے سب بت اٹھوائے جائیں گے بی جے پی لیڈروں نے اس نظم کے کچھ مصرعہ کو ہند و مخالف کہہ کر ہنگامہ برپا کر دیا ۔جس کے بعد آئی ۔آئی ۔ٹی کانپور نے اس نظم کی جانچ کا فیصلہ کیا۔جبکہ فیض احمد فیضؔ نے یہ نظم لیاقت علی خان کے دور میں کہی تھی جس کی وجہ کر ان کو جیل بھیج دیا گیا تھا لیکن اس نظم سے بی جی پی کو کیا پریشانی ۔شاید انہیں اپنے قدموں کے نیچے سے زمین کھسکنے کا اندازہ ہونے لگا۔اگر یہ نظم مسلم شاعر کے بجائے کسی اور مذہب جنہیں سی اے اے اور این آر سی فہرست سے باہر رکھا ہے ،شاید لکھی ہوتی تو کوئی ہنگامہ برپا نہ ہوتا۔گویا آج مسلم شعرا کے کلیات اور دوادین کو بھی سی اے اے اور این آر سی کی فہرست میں رکھا جائے گا اور جو مصرعے ان کے دل پر گراں گزریں گے اسے فکلٹی جانچ پڑتال کا فیصلہ دے کر اس مصرعوں کو نکال باہر کریں گے ۔اس کند ذہن حکومت پر افسوس بھی آتا ہے کہ کاش ان میں شعرا کرام کے کلام کو سمجھنے کی کم ازکم صلاحیت ہوتی لیکن آج یہ اپنی آگ میں اتنے اندھے ہو چکے ہیں کہ شاعر اپنے محبوب کو بھی مٹی کی مورت کہہ کر مخاطب کرے تو انہیں جان سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ آج ہمارے جمہوری ملک پر جن غنڈوں کی حکومت ہے ۔عام عوام کے ساتھ شعرا ادبا کو قلم کی زبان چلانے کے لئے سیاسی غنڈوں سے اجازت لینی پڑے گی جب کہ ملک پر جب بھی کوئی طوفان آیا ہے نامور ہستیوں ،لاکھوں عوام کے ساتھ شعرا اور ادبا نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ، ظالم حکمرانوں کے خلاف بازوئے قلم کا تلوار اور بارود کی طرح وار کیا ہے اور قوم کے عوام کے دلوں میں آزادی کا جوش اور ولولہ پیدا کیا ہے۔ جس کی وجہ سے شعرا کو جابر حکمرانوں کی طرف سے بہت ساری پشانیوں کا سامنا کرپڑا ہے ۔انہیںجیل جانا پڑا، سرکار کی طرف سے ملنے والے وظیفے بند کر دیے گئے لیکن اس کے باوجود تمام پریشانیوں کا خندہ پیشانی سے سامنا کیااور جیل کی چہاردیواری میں اپنے لوح قلم سے حکمرانوں پر وار کرتے رہے ۔ بہادر شاہ ظفر کو 1858ع میں زندگی بھر کے لئے رنگون بھیج دیا گیا ۔اس محب وطن بادشاہ نے ملک سے دور رہ کر بھی ملک کی آزادی کے لئے خود کو قربان کر تے ہوئے اپنے قلم سے آزادی کی لڑائی کو جاری رکھا۔اس دوران بہادرشاہ ظفر نے جو غزلیں لکھیں وہ اپنی مہارت اور ترقی کے لئے ہندوستان کی آزادی کے متوالوں کے دلوں میں خاص اہمیت رکھتی ہیں۔ فیض احمد فیض ؔکی نظم’’ہم دیکھیں گے‘‘پر جو ہنگامہ ہو ا ۔ اس طرح تو دوسرے انقلابی شعرانے بھی انقلابی نظم لکھی ہیں۔ حبیب جالبؔ کے یہ اشعارپڑھیں گے تو کیا کہیں گے: ؎ میرے ہاتھ میں قلم ہے میرے ذہن میں اجالا مجھے کیا دبا سکے گا کوئی ظلمتوں کا پالا مجھے فکر امن عالم،تجھے اپنی ذات کا غم میں طلوع ہو رہا ہوں تو غروب ہونے والا رام پرساد بسمل کی یہ نظم : سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے ہند و پاک تقسیم کے وقت بہت سارے ادبااور شعرا پاک چلے گئے ۔1947ع میںہندوستان تقسیم ضرور ہوا لیکن ہمارے دل و دماغ سے ادبااور شعرا کا تقسیم نہیں ہوا کیوں کہ ہمارا رشتہ گنگا جمنی کی طرح ہے ۔ ادبااور شعرا نے ہر دور میں انسانیت دوستی اور محبت کا پیغام دیا۔ادبااور شعرا کا کوئی مذہب نہیں ان کا مذہب ’’انسانیت‘‘ ہے۔ فیض احمد فیضؔ 1911ع میں پیدا ہوئے تھے ۔اس وقت ملک تقسیم ہی نہیں ہوا تھا۔جب انگریزی حکومت سے ملک کو آزادی ملی تو فیض ؔنے کہا۔ ؎ یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر چلے تھے یار کے مل جائے گی کہیں نہ کہیں آج فیض احمد فیضؔ کی نظم بی جے پی اپنے لئے خطرہ محسوس کر رہی ہے انہیں ڈر ہے کہ شعرا کے کلام سے انقلاب نہ آجائے اور عوام کے دلوں میں جوش اور ولولہ پھر سے نہ پیدا ہو جائے ۔بی جے پی لیڈران اپنی آنکھوں پر سے پٹی اتارے ۔ ان کے ظلم کی آگ کو بجھانے کے لئے طلبہ و طالبات اور ملک کے لاکھوں عوام بگل بجا چکے ہیں۔ گاندھی جی نے جس طرح ظالم حکمرانوں کے خلاف ستیہ گرہ شروع کیا تھا ۔آج شاہین باغ میں حکومتی غنڈوں سے مقابلہ کر احتجاجیوں کا سیلاب امنڈ پڑا ہے تاکہ جابر حکومت انہیں اپنے ہی وطن سے جلا وطن نہ کریں اور یہ جدوجہد تب تک چلے گی جب تک تاناشاہی ختم نہ ہو جائے۔امیت شاہ جی پشمینہ لباس زیب تن کر آتش دان کے بھرکتے شعلے کے پاس بیٹھ کر شیر کی طرح دھاریں مار کر کہہ رہے ہیں کہ سی اے اے سے ایک اینچ پیچھے نہیں ہٹیں گے اور آئے دن ان کے ظلم و ستم کا نیا نیا ہتھکندہ اپنایا جا رہا ہے۔کچھ روز قبل جامعہ ،علی گڑھ کو نشانہ بنایا، امن پسند احتجاجیوں کو نشانہ بنایا ۔ان کا ظلم یہیں ختم نہیں ہوا نوجوانوں ،بوڑھوں کو ان کے گھروں سے نکال کر ظلم و ستم کر رہے ہیں ۔یہ زخم ابھی بھرا بھی نہیں تھا کہ ایک زخم پھر سے ہرا ہو گیا اور اب ان کا نشانہ امن آشتی کا گہوارہ جے این یو ہوا۔ بی جے پی اپنے غنڈوں کے ذریعہ ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر کے دیکھ رہی ہے پھر بھی ہمارے حوصلے کو ذرہ برابر بھی پست نہیںکر پا رہی اور پست بھی کیوں ہو ظلم کے خلاف آواز اٹھانا ہمیں وراثت میں ملا ہے کہ ظالم حکمرانوں کے خلاف جدوجہد تب تک جاری رکھو جب تک ظلم کرنے والا تھک کر گھٹنے نہ ٹیک دے۔ بقول شاعر فیض احمد فیضؔ ؎ چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی ؤؤ ؤ