ڈاکٹر نغمہ جاوید ملک (ایسوسی ایٹ پروفیسرشعبۂ ہندی، ایس این ڈی ٹی یونیورسٹی،ممبئی)mob- 09833692732
یہ سوانحی ناول مجھے کرشنا سوبتی کے ’’زندگی نامہ‘‘ کی بھی یاد دلاتا ہے۔ یش پال کے ناول ’’ودّیا‘‘ کی طرح اس میں بھی ایک عورت کی زندگی کے تمام اتارچڑھاؤ کو بڑے مؤثرانداز میں پیش کیا گیا ہے۔ہندی ادیبہ الکاسراوگی کے ناول ’’کلی کتھا وایابائی پاس‘‘ کی طرح اس کا کینوس بہت وسیع ہے۔ کئی پشتوں کا تعارف اس میں درج ہے۔ تاریخ کے اوراق کو بھی پلٹا گیا ہے۔ ساتھ ہی سماجی، معاشی، ثقافتی مسائل اور حقائق کو بھی بڑے مستند طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔ دونوں ناولوں کی شروعات انگریزو ںکی غلامی سے ہوتی ہے۔ بعض انکشافات بڑے تحیّر آمیز و عمیق ہوتے ہیں۔ ’’کہانی کوئی سناؤ متاشا‘‘ پڑھ کر یہ انکشاف ہوا کہ ڈاکٹر صادقہ نواب سحر کے چھوٹے سے دلکش پیکر میں ایک قدآور ناول نگار بھی جلوہ افروز ہے، جس کی موجودگی سے وہ خود بھی یکسر بے خبر تھیں اور ایک دن اس نے بڑی تمکنت اور وقار کے ساتھ اپنی ہستی کو تسلیم کراہی لیا۔ یعنی صادقہ صاحبہ کی ہمہ جہت شخصیت کا ایک اور دروا ہوا۔کسی مفکر کا قول ہے ’’ناول وہ آئینہ ہے جسے لے کر سڑک پر سے گزرتے ہیں۔‘‘ سڑک کی رواں دواں زندگی کے تمام جزئیات، واقعات، خدوخال وچہرے اپنی تمام تر صداقتوں کے ساتھ اس آئینہ میں منعکس ہوکر قاری کے ذہن کو باندھ لیتے ہیں۔ ایک عمدہ ناول کی یہی پہچان ہے۔صادقہ صاحبہ کا ناول اس کسوٹی پر سوفیصد کھرا اترتا ہے۔ ناول کیا ہے، ایک آبشار ہے۔ متاشا کی زندگی کا آبشار۔۔۔ جو حالات کی ٹیڑھے میڑھے پتھروں سے اپنا سرپھوڑتا، تلخیوں کو اپنے دامن میں سمیٹتا، نصیب کی ستم ظریفیوں سے نبردآزما ہوکر اپنا راستہ خود تراشتا منزل کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ متاشا کی روداد زندگی میں ہزاروں متاشاؤں کی اندوہ گیں زندگیاں نوحہ خواں ہیں۔کیا عورت کا جنم اس لیے ہوا ہے؟ اس ناول میں دردواذیتوں کے تھان کھلے پڑے ہیں۔ متاشا کی ماں اپنے شوہر کے ظلم و ستم سہتی ہے، لیکن یہی ماں جب متاشا کے سینے پر پاؤں رکھ کر اسے موسل سے مارنا چاہتی ہے تو کیا وہ خودپدری نظام کے تحت چلنے والے سماج کی نمائندگی نہیں کرتی؟ معصوم متاشا کی سمجھ سے ہی بات بالاتر ہے کہ اس کی ماں اسے اتنا مارتی کیوں ہے؟ باربار یہ سوال اس کے چھوٹے سے ذہن میں چبھتا ہے۔مصنفہ کے عمیق مشاہدے نے سماجی اور معاشی استحصال کا شکار عورت کی نفسیاتی اور ذہنی گتھیوں کو سمجھنے اور سلجھانے کی کاوش کی ہے۔ آگے یہی ماں جب دیکھتی ہے کہ باپ متاشا کی شادی بھرت جیسے نابکار آدمی سے کرنا چاہتا ہے تو وہ شیرنی کی طرح بپھر اٹھتی ہے۔ ’’خبردار! جو ایک قدم بھی آگے آئے تولکڑی جلاکر آگ میں بھون دوں گی۔۔۔ میں نے آپ کی ہر بات سہن کی لیکن بھرت سے شادی کرکے اپنی بیٹی کی زندگی اجاڑنے نہیں دوں گی۔‘‘یہاں تانیثیت کی مہک ہے۔ احساس خودآگہی کی ندا ہے۔ متاشا کی دادی کا بھی بڑا جاندار بت تراشا ہے مصنفہ نے۔ روایتی ساسوں سے ایک دم ہٹ کے۔ عام طور پہ یہ ہوتا ہے کہ بیٹا چاہے جیسا ہو۔۔۔ جواری، شرابی، کوٹھے باز۔۔۔ ماں اس کی طرف داری کرتے ہوئے بہو کو ظلم وستم کی صلیب پر چڑھا دیتی ہے۔ لیکن یہ بیدار مغز عورت اپنے بیٹے کی زیادتیوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ پولیس میں شکایت درج کراتی ہے۔ میں پورے وثوق سے یہ بات کہہ سکتی ہوں کہ جس دن ہمارے سماج کی عورتیں دادی کی طرح سوچنے لگیں گی، اسی دن عورت کی زندگی میں ایک نئی تابندہ صبح نمودار ہوگی اور وہ حقیقی معنوں میں آزاد ہوگی۔ ہندی ادیبہ الکاسراوگی کے ناول ’’کلی کتھا وایابائی پاس‘‘ کی طرح اس کا کینوس بہت وسیع ہے۔ کئی پشتوں کا تعارف اس میں درج ہے۔ تاریخ کے اوراق کو بھی پلٹا گیا ہے۔ ساتھ ہی سماجی، معاشی، ثقافتی مسائل اور حقائق کو بھی بڑے مستند طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔ دونوں ناولوں کی شروعات انگریزو ںکی غلامی سے ہوتی ہے۔ جگدمباپرساد بیٹے کی چٹیا نہ دیکھ کر مشتعل ہوکر کہتے ہیں:’’چٹیا کدھر گئی؟‘‘’’کاٹ دی‘‘ بیٹے نے نظریں چرائیں۔’’چٹیا ہماری روایت ہے اور پرمپرا کو ماننا پڑتا ہے۔‘‘’’نہیں مان سکتا‘‘۔ عیسائی مذہب کو اپنا لینے والے بیٹے کے جواب میں دو پیڑھیوں کے نظریاتی تفاوت کو بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ پربھا کھیتان کے ناول ’’چھن مستا‘‘ کی ہریا کی طرح متاشا بھی متواتر نامساعدحالات کے شکنجے میں پھنستی ہے، لیکن ناقابل شکست ہمت و حوصلہ کے بل بوتے پر ہرجنجال سے نکل آتی ہے۔ پریا آخر میں ایک کامیاب بزنس مین کے روپ میں اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہوتی ہے۔ متاشا کو ایسا کوئی موقع نہیں مل پاتا۔ مردولہ گرگ کے ناول ’’کٹھ گلاب‘‘ کی اسمتا کی طرح آبروریزی کے بعد متاشا کے اندر مردوں کے لیے نفرت کا الاؤ تو لپٹ لپٹ جاتا ہے لیکن وہ خود احساس گناہ یا اپرادھ کا شکار نہیں ہوتی۔ مصنفہ مبارکباد کی مستحق ہیں کہ انہوں نے عورت کو نئی نظر اور فکردی ہے۔ میں پوچھتی ہوں کیوں ملے لڑکیوں کو ناکردہ گناہ کی سزا؟ کیوں وہ ذہنی اذیت سہے؟ سماج کو کیا حق ہے اسے معتوب و مصلوب کرنے کا؟ مرد کی ہوسناکیوں کا نشانہ بھی وہ بنے اور طرّہ یہ کہ سماج کی حقارت آمیز نگاہوں کے تیر بھی اس کی روح کو لہولہان کرتے رہیں۔۔۔ میں پوچھتی ہوں یہ کہاں کا انصاف ہے؟یہ سوانحی ناول کرشنا سویتی کے ’’زندگی نامہ‘‘ کی بھی یاد دلاتا ہے۔ یش پال کے ناول ’’ودّیا‘‘ کی طرح اس میں بھی ایک عورت کی زندگی کے تمام اتارچڑھاؤ کو بڑے موثرانداز میں پیش کیا گیا ہے۔ متاشا کی داستان زندگی بڑی عجیب ہے۔ شومئی قسمت کہ جب جب زندگی کی بہاریں اس کے لیے اپنا دروازہ کھولتی ہیں۔ کچھ نہ کچھ ایسا وقوع پذیر ہوتا ہے کہ وہ تہی دامن ہی رہ جاتی ہے۔ سفاک باپ، ڈاکٹر پربھاکر اور اس کے بیچ غلط فہمی کے کانٹے بودیتا ہے۔ یووراج بھی اسے چاہتا ہے لیکن غلط فہمی دیوار بن کر کھڑی ہوجاتی ہے۔ سمیر اور متاشا کے بیچ کا زہر پھیلانے کی کوشش کرتا ہے، لیکن بعد میں سمیر کو نہ اپنانے کا جواز سمجھ میں نہیں آتا۔سمیرمتاشا سے بے حد محبت کرتا ہے لیکن اس کا باپ اس کی منگنی کردیتا ہے اپنی پسند سے۔ شاید اَنا ہی آڑے آئی ہو متاشا کی:۔۔۔’’تو اس کو رکھیں نہ ڈیڈی ہی!میں تو تمہارے ساتھ ہی رہوں گا۔‘‘۔۔۔’’یعنی دودو‘‘۔۔۔۔’’میں اس کے لیے تیار ہوں‘‘۔۔۔۔’’مگر میں اس کے لیے تیار نہیں۔‘‘وہ لگاتار میرے چہرے پہ پیار کی بوچھار کررہا تھا اور میں بے بس تھی۔آخر میں پانچ بچوں کا باپ گوتم اس کے جیون میں بہار کے جھونکے کی طرح آتا ہے۔ گوتم سے شادی کرکے وہ ایک بچے کی ماں بھی بنتی ہے، لیکن جلد ہی اس کی زندگی خزاں آلود ہوجاتی ہے۔ گوتم کی موت اس کے سر پر سے چھت چھین لے جاتی ہے۔ لیکن پے درپے تقدیر کے داؤ سہہ کر بھی نہ جدوجہد کی آنچ دھیمی پڑتی ہے، نہ حوصلے کے پنکھ ٹوٹتے ہیں، نہ ہمت کے پاؤں لڑکھڑاتے ہیں۔ بلکہ ہر چوٹ اسے فولاد بناتی ہے اور وہ بڑی جواں مردی سے اٹھتے طوفانوں کا مقابلہ کرتی ہے۔متاشا کے کردار کا تجزیہ کریں تو اس میں انسان سے زیادہ فرشتوں کی صفات ہیں۔ غیرمعمولی صبروتحمل کے ساتھ وہ شنکر بھگوان کی طرح سارا زہرخود پی لیتی ہے۔ یہاں تک کہ لوگ اس کی زندگی میں کانٹے بوتے ہیں، ان کے ساتھ بھی وہ شرافت سے پیش آتی ہے۔ انتشار، کشمکش اور بدلے کی بھاؤنا انسانی فطرت کا خاصہ ہے لیکن متاشا بھیڑیا باہر کہیں بھی طیش سے بل کھاتی دکھائی نہیں دیتی۔ اس کے دل و دماغ، جذبات اور عقل میں کہیں بھی رسہ کشی نہیں ہوتی۔ یہ بات فطرت انسانی کے منافی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ متاشا تھم تھم کر فیصلہ کرنے والی عورت ہو۔ میرا خیال ہے کہ مصنفہ اگر ان کیفیات اور احساسات کو کچھ طول دیتی تو حقیقت نگاری مزید جاندار ہوجاتی۔ سونے پہ سہاگا۔۔۔ بہرحال۔ آخر میں نونیتا کو اپنانا اور اس کے بچے کی پرورش کی ذمہ داری قبول کرنا متاشا کے قد کو بہت اونچا اٹھا دیتے ہیں۔کہانی سے قطع نظر اس ناول کی ایک اہم خوبی ہے بے ساختہ پن۔ بنا کسی باہری تام جھام کے نہایت شستہ و شائستہ اندازِبیاں۔ استعاروںکا ترشح ہے نہ استعاروں کی ریل پیل، نہ کنایوں کا فسوں۔ جیسے کوئی ریل چھوٹی پٹری پر سرپٹ دوڑتی چلی جارہی ہے۔ اس سادگی پہ کون نہ مرجائے؟۔۔۔ سمندر کا وجود لہروں سے عبارت ہے۔ اس ناول میں لہردرلہر کہانیاں ہی کہانیاں ہیں۔ ایک لہر ختم نہیں کہ دوسری زیادہ زوروشور اور طاقت کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ واقعات کا تسلسل کہیں زخم خوردہ ہوتاہے نہ کہانی میں کوئی سلوٹ پڑتی ہے نہ اکتا دینے والے بیانیہ راستہ روکتے ہیں۔ نہ اجنبی ماحول کے گلیشیرز قاری کو ہراساں کرتے ہیں۔مصنفہ کی سنجیدہ سوچ اور گہری نظر عصری مسائل اور تہذیبی قدروںکا بھرپور جائزہ لیتی ہے۔ کہانی پن اس ناول کی ایک اہم خوبی ہے جو آج کل کے خشک جیون اور بیزار دماغوں کو معجون فراہم کرتی ہے۔ سحر صاحبہ نے چھوٹے بڑے ابواب بڑے سلیقے سے آراستہ کیے ہیں جو سرچ لائٹ کا کام دیتے ہیں اور تکنیکی نُدرت کے بھی غماز ہیں۔ سماجی حقیقت نگاری اور اظہار بیان کا دلنشیں و مؤثر اسلوب اس ناول کی فیروزبختی کا ضامن ہے۔ تانیثی ادب کی شاہراہ پر ’’کہانی کوئی سناؤ، متاشا‘‘ لے کر وارد ہونے والی اس ذہین فنکارہ نے قصہ گوئی کا ایک نیا افق تلاش کیا ہے۔ اللہ کرے زورِقلم اور زیادہ۔ ٭٭