غزل

0
0

 

ہمارے یقیں پر صلیبیں گڑی ہیں
سوالوں سے زیادہ فصیلیں بڑی ہیں

مجسم ہوا سچ تو مارا گیا ہے
یہ منصف اسی سلسلے کی کڑی ہیں

ہمارے یہ صدمے دعا کھا گئے ہیں
کرامات کی زرد مہریں کھڑی ہیں

کوئی اس عمل کی وضاحت کرے گا
جہالت پہ کیونکر دلیلیں جڑی ہیں

کھلونے سفر پر روانہ ہوئے ہیں
محقق کے ہاں داستانیں پڑی ہیں

جفا کے سمندر کا پانی بھی کھارا
انا کی یہ مردہ سی جھیلیں کھڑی ہیں

دعا آنسوؤں کی لڑی بن گئی ہے
بہاروں کے موسم میں شاخیں جھڑی ہیں

 

سعدیہ بشیر

 

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا