300اسکول، 10ہزار اساتذہ اور 1لاکھ سے زائد طلاب کا مستقل کھٹائی میں

0
0

جماعت پر پابندی کے بعد فلاح عام ٹرسٹ غیر یقینی صورتحال سے دوچار
کئی اسکولوں کو کام کاج بند کرنے کی نوٹس جاری؛ والدین پریشان ”حالات کا جائزہ لے رہے ہیں، کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے “: فعٹ چیرمین
کے این ایس

سرینگرمرکزی سرکار کی طرف سے غیر قانونی قرار دی گئی جماعت اسلامی جموں وکشمیر کے تحت چلنے والے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلبا و طالبات کے والدین اور اہل خانہ سخت پریشانی میں مبتلاہوئے ہیں۔ معلوم ہوا کہ فی الوقت جماعت کے تعلیمی ادارے فلاح عام ٹرسٹ ساتھ 300اسکول منسلک ہیں جہاں 10ہزار سے زائد اساتذہ اپنی خدمات انجام دیتے ہوئے قوم کے مستقبل کو تعلیم کے نور سے آراستہ کررہے ہیں۔ مصدقہ ذرائع کا کہنا ہے کہ فلاح عام ٹرسٹ کے ساتھ وابستہ اسکولوں کا نیٹ ورک ریاست کے کونے کونے میں پھیلا ہوا ہے جن میں مجموعی طور پر ایک لاکھ سے زائد طلبا و طالبات تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ ادھر فلاح عام ٹرسٹ کے چیرمین محمد مقبول نے بتایا کہ فعٹ کا جماعت کے ساتھ براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہو ںنے بتایا کہ اگر سرکار نے فعت کے تحت چلنے والے تعلیمی اداروں میں کسی بھی قسم کی مداخلت کی تو ہم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے کے لیے تیار ہے۔ کشمیرنیوز سروس (کے این ایس) کے مطابق مرکزی حکومت کی طرف غیر قانونی قرار دی گئی جماعت اسلامی جموں وکشمیر کے تحت چلنے والے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم لاکھوں طلبا و طالبات کے والد ین سخت پریشانیوں میں مبتلا ہوئے ہیں۔ معلوم ہوا کہ ریاست کے کونے کونے میں پھیلے فلاح عام ٹرسٹ کے نیٹ ورک کے تحت چل رہے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم بچوں کے والدین اپنے بچوں کے مستقبل کے تئیں انتہائی فکر مند ہے ۔ مرکزی حکومت کی طرف سے جاری آرڈر کے بعد لوگوں کے دلوں میں یہ خدشات زور پکڑتا جارہا ہے کہ جماعت سے وابستہ دیگر شعبہ جات کو بھی ریاستی سرکار اپنی تحویل میں لے گی۔ اس سلسلے میں فلاح عام ٹرسٹ چیرمین محمد مقبول نے کشمیرنیوز سروس کو بتایا کہ اگر چہ مرکزی حکومت نے جماعت کو جمعرات کی شام دیر گئے غیر قانونی قرار دے کر 5سال کے لیے اس پر پابندی عائد کی تاہم فلاح عام ٹرسٹ معمول کے مطابق اپنا کام کاج سنبھالے ہوئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ فلاح عام ٹرسٹ کا جماعت کے ساتھ براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔ محمد مقبول کا کہنا تھا کہ جماعت دینی و سیاسی تنظیم ہے اور فلاح عام کے سامنے تعلیمی پروگرام زیر غور ہے۔ انہوں نے کہا کہ فی الوقت فلاح عام ٹرسٹ کے تحت مجموعی طور پر 300اسکول چل رہے ہیں جن میں صرف 18اسکول براہ راست فلاح عام ٹرسٹ کے ساتھ وابستہ ہے جبکہ بقیہ اسکول متعلقہ علاقوں میں مقامی انتظامیہ ہی چلارہی ہے اور فلاح عام کا ان پر صرف تین معاملات پر تعلق ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقامی سطح پر چلائے جارہے اسکولوں کے ساتھ فلاح عام کا صرف اتنا تعلق ہے کہ ہم وہاں امتحانات کو منعقد کرانے، نصاب و اساتذہ کی فراہمی کو ممکن بنانے میں اپنا رول ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 1990میں جب جماعت اسلامی پر حکومت نے پابندی عائد کی تو اُس وقت کی سرکار نے فلاح عام ٹرسٹ پر بھی ہاتھ ڈال کر تعلیمی اداروں کے کام کاج کو معطل کیا تاہم ہم نے اُس وقت سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایاجس کے بعد حکومت فعٹ کے خلاف عائد الزامات کو ثابت کرنے میں ناکام رہی ۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے فلاح عام ٹرسٹ کو اُ سوقت اپنے تعلیمی اداروں میں کام کاج کوبحال کرنے کی ہدایت کی جس کے بعد حالات معمول پر آگئے۔فعٹ چیرمین کا کہنا تھا کہ ہمارے اسکول ریاست کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے ہیں جہاں پر 10ہزاور سے زائد اساتذہ اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں جبکہ ان تعلیمی اداروں میں ایک لاکھ سے زائد طلبا و طالبات تعلیم کے نور سے منور ہورہے ہیں جن میں بلالحاظ رنگ، نسل اور مذہب طلباوطالبات تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ فعٹ کے تحت چلنے والے اداروں میں غریب، مفلس اور یتیم طلبا و طالبات کی ایک بڑی تعداد زیر تعلیم ہے اور اگر حکومت نے جلد بازی سے کوئی بھی قدم اُٹھایا تو ایسے میں سماج کا کمزور اور مفلوک الحال طبقہ تعلیم حاصل کرنے سے قاصر رہے گا۔ انہوں نے بتایا کہ فعٹ کے تحت چلنے والے اداروں کے خلاف اگر حکومت نے کوئی غلط قدم اُٹھایا تو اس سے سماج میں عدم توازن واقع ہوجائےگا کیوں کہ فعٹ سراسر تعلیمی میدان میں سرگرم ہے اور اس کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے۔وادی کے کئی علاقوں سے فعٹ سے وابستہ اسکولوں کو پولیس کی طرف سے نوٹس اجرا ہونے پر انہوں نے بتایا کہ ہم حالات پر گہرائی سے نظر بنائے ہوئے ہیں اور اگر اس طرح کی مزید نوٹسیں اجرا ہوئی تو ہم عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا