انٹرنیٹ خدمات کی مسلسل معطلی صحافیوں اور تاجروں کے لئے سوہان روح
یواین آئی
سرینگر؍؍وادی کشمیر میں گزشتہ 137 دنوں سے جاری غیر یقینی صورتحال اور اضطرابی کیفیت کے بیچ اگرچہ معمولات زندگی لگ بھگ معمول پر ا?گئے ہیں تاہم انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس خدمات کی مسلسل معطلی سے جہاں صحافیوں اور تاجروں کے پیشہ ورانہ معمولات ہنوز درہم و برہم ہیں وہیں طلبا کو بھی متنوع مسائل کا سامنا ہے۔بتادیں کہ مرکزی حکومت کی طرف سے پانچ اگست کے جموں کشمیر کو دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کے تحت حاصل خصوصی اختیارات کی تنسیخ اور ریاست کو دو وفاقی حصوں میں منقسم کرنے کے فیصلوں کے بعد وادی میں غیر یقینی صورتحال کے گھناونے بادل سایہ فگن ہوئے تھے اور غیر اعلانیہ ہڑتالوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوا تھا جس کے دھند لے اثرات و نقوش ہنوز موجود ہیں۔موصولہ اطلاعات کے مطابق وادی کے یمین ویسار میں جمعرات کے روز بازاروں میں دکانیں کھلی رہیں اور دیگر تجارتی سرگرمیاں بھی جاری رہیں تاہم انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس سروسز کی مسلسل معطلی سے جہاں ایک طرف صحافیوں اور تاجروں کے مسائل ومشکلات میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے وہیں طلبا کی پریشانیاں بھی روز افزوں بڑھ ہی جارہی ہیں۔وادی میں انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس سروسز پر جاری پابندی سے صحافیوں کو اپنے پیشہ ورانہ کام کی انجام دہی کے لئے محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ کے ایک چھوٹے کمرے میں قائم میڈیا سینٹر میں بیٹھنا پڑتا ہے جہاں دستیاب سہولیات ناکافی ہیں کیونکہ یہاں کے تمام صحافیوں کے لئے کام کرنے کا یہ میڈیا سینٹر واحد ذریعہ ہے۔صحافیوں کا کہنا ہے کہ گوگل سیرچ کے لئے بھی انہیں بیرون ریاست اپنے دوستوں کو فون کرکے ضروری معلومات حاصل کرنا پڑتی ہیں۔ادھر اگرچہ یہ افواہیں گرم تھیں کہ وادی میں براڈ بینڈ انٹرنیٹ سروس ماہ رواں میں ہی بحال ہوں گی لیکن فی الوقت زمینی سطح پر اس کے ا?ثار و قرائن کہیں نظر نہیں ا?رہے ہیں۔انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس سروسز پر جاری پابندی نے تاجروں اور طلاب کو بھی پریشانی کے ایک ایسے بھنور میں دھکیل دیا ہے جس سے باہر ا?نے کی انہیں کوئی امید نظر نہیں ا?رہی ہے۔ایک تاجر نے یو این ا?ئی اردو کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس خدمات پر جاری پابندی کی وجہ سے میرا کاروبار چوپٹ ہوگیا ہے۔انہوں نے کہا: ‘میرے تجارت کا انحصار انٹرنیٹ پر منحصر ہے جو پانچ گست سے لگاتار معطل ہے اس سے میرا کاروبار چوپٹ ہوگیا ہے اور میں دیوالیہ ہونے کے دہانے پر پہنچ گیا ہوں’۔قابل ذکر ہے کہ کشمیر چیمبر ا?ف کامرس نے گزشتہ روز کہا ہے کہ وادی میں گزشتہ پانچ ماہ کے دوران کاروبار کو 18 ہزار کروڑ روپیے کا نقصان ہوا ہے اور اس کے علاوہ اس عرصے میں پانچ لاکھ کے قریب افراد روزگار سے محروم ہوئے ہیں۔شہر سری نگر کے پائین وبالائی علاقوں میں بھی جمعرات کے روز بازاروں میں دکانیں کھلی رہیں اور سڑکوں پر ٹرانسپورٹ کی نقل وحمل برابر جاری وساری رہی تاہم سردہ کی شدت کی وجہ سے بازروں میں دکان صبح کے وقت ذرا دیر سے کھل گے اور لوگوں نے بھی صبح سویرے گھروں سے نکلنے میں احتراز ہی کیا۔سری نگر کے پائین شہر کے نوہٹہ میں واقع تاریخی جامع مسجد میں گزشتہ روز زائد از چار ماہ کے بعد نماز ظہر باجماعت ادا کی گئی۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ نوہٹہ میں واقع وادی کے قدیم ترین اور سب سے بڑے معبد تاریخی جامع مسجد میں گزشتہ جمعہ کو مسلسل 19 ویں جمعہ کو بھی نماز جمعہ ادا نہیں کی گئی۔ ادھروادی کی مین اسٹریم جماعتوں سے وابستہ بیشتر لیڈراں جن میں تین سابق وزرائے اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی بھی شامل ہیں، نظر بند ہیں۔ نیشنل کانفرنس کے صدر اور سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق پر عائد پی ایس اے میں مزید توسیع کی گئی ہے۔انتظامیہ نے جہاں ایک طرف سیاسی لیڈروں کی رہائی کا سلسلہ شروع کیا ہے وہیں سردی کے پیش نظر 33 لیڈروں کو سنتور ہوٹل سے مولانا ا?زاد روڑ پر واقع ایم ایل اے ہوسٹل منتقل کیا گیا ہے۔مزاحمتی لیڈران بشمول سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق بھی مسلسل خانہ یا تھانہ نظر بند ہیں۔حریت کانفرنس (گ) کے چیرمین سید علی گیلانی کوعلیل ہونے کی وجہ سے ایک نجی طبی کلینک میں داخل کیا گیا تھا جہاں سے انہیں گزشتہ روز ہی حالت بہتر ہونے کے بعد ڈسچارج کیا گیا ہے۔