شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف پوراملک شدید احتجاجی لہر کی لپیٹ میں

0
0

دہلی کے جنتر منتر پر سی اے اے کے خلاف اُمنڈا عوامی سیلاب
نئے شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی سے ملک کے آئین کو خطرہ لاحق ہوگیا :مظاہرین
لازوال ڈیسک

نئی دہلی؍؍وہ نوجوان جن کو ملک کا مستقبل کہا جاتا ہے اور جن کو یا تو کلاس میں ہونا تھا یا لائبریری میں ہونا تھا یا پھر کھیل کے میدان میں ہونا تھا وہ سب آج جنتر منتر پر ملک کے نئے شہریت ترمیمی قانون پر حکومت کے خلاف مظاہرہ کرنے میں مصروف نظر آئے۔ ان نوجوانوں میں نئے شہریت ترمیمی قانون اور وزیر اعظم مودی کے خلاف زبردست غصہ نظر آیا اور ان کو اس بات کا احساس تھا کہ ملک کا مستقبل اور آئین اس نئے قانون کی وجہ سے خطرے میں ہے۔ دہلی کی ہر یونیورسٹی کے طلباء نے بایاں محاذ کے اس مظاہرہ میں شرکت کی جو دیر شام تک جنتر منتر پر چلا۔بایاں محاذ کے اس احتجاجی مارچ کو منڈی ہاؤس سے شروع ہو کر پارلیمنٹ تک جانا تھا لیکن دہلی پولیس نے اس مظاہرہ کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ دہلی پولیس نے اے این ا?ئی کو یہ بیان دیا کہ اس ریلی کی کوئی اجازت نہیں ہے اور پھر شروع میں جو لوگ منڈی ہائوس پہنچے ان کو وہاں سے بس میں بٹھا کر لے جایا گیا اور کچھ لوگوں کو الگ الگ تھانوں میں زیر حراست رکھا گیا۔ جن لوگوں کو پولیس نے مندر مارگ تھانہ میں زیر حراست رکھا گیا ان میں سابق مرکزی وزیر اجے ماکن کی اہلیہ اور ان کے بچے بھی شامل تھے، پھر ان لوگوں کو دیر شام چھوڑ دیا گیا۔تمام کوششوں کے باوجود بایاں محاذ کے لوگوں نے اپنے مارچ کو ترک نہیں کیا اور وہ وہاں سے ادھر ادھر ہو گئے اور پھر بیس تیس لوگوں نے جمع ہوکر بارا کھمبا روڈ سے نعرے لگاتے ہوئے آگے چلنا شروع کر دیا۔ ان کے پیچھے بڑی تعداد میں پولیس فورس تھی، لیکن اے این آئی کی خبر کی وجہ سے وہاں لوگ کم نظر آئے، لیکن چند لوگوں کا یہ کارواں جیسے جیسے آگے بڑھتا گیا ویسے ویسے لوگوں کی تعداد بڑھتی گئی اور جنتر منتر تک یہ تعداد کئی سو میں بدل گئی۔ جنتر منتر پر مظاہرین کو پولیس نے روک لیا اور ان کو کہا گیا کہ وہ جنتر منتر پر مظاہرہ کی جگہ اپنا جلسہ کر سکتے ہیں۔ منڈی ہائوس سے جو مارچ شروع ہوا تھا اس میں شام تک تعداد ہزاروں میں بدل گئی تھی۔ احتجاجی مظاہرہ میں بڑی تعداد میں طلباء نظر آئے اور یہ طلباء شہریت ترمیمی قانون اور وزیر اعظم و وزیر داخلہ کے خلاف ہاتھوں میں کتبہ لئے نعرے لگاتے رہے۔جنتر منتر پر مظاہرین نے مودی-شاہ کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے کہا کہ ملک کو مودی اور شاہ سے آزادی چاہیے، ملک کو شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی سے آزادی چاہیے۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ تعداد ہزاروں میں پہنچ گئی اور پھر جنتر منتر پر تل رکھنے کی بھی جگہ نہیں بچی۔ اس دوران جہاں لوگوں نے اپنے طور پر کھانے اور پانی کا انتظام کیا، وہیں طلباء پیٹیز اور کیلے تقسیم کرتے نظر آئے۔ کئی جگہ پر طلباء نئے نئے کتبہ لکھتے اور شرکاء میں تقسیم کرتے نظر آئے۔ کئی طلباء سڑک پر اپنے نعرے لکھتے نظر آئے۔ ادھر ایک جانب کچھ مسلم شرکاء نماز ادا کرتے نظر آئے۔ آج کے مظاہرہ میں جہاں اکثریت بایاں محاذ کے طلباء کی تھی وہیں برقع پوش خواتین خاصی تعداد میں نظر آئیں جو ایک بڑی تبدیلی ہے۔ برقع پوش خواتین کا مظاہرہ میں شرکت کرنا اور وہ بھی اس مظاہرہ میں شرکت کرنا جس کا اعلان بایاں محاذ نے کیا تھا ایک بڑی تبدیلی ہے۔ واضح رہے بایاں محاذ اور مسلم مذہبی افراد میں ہمیشہ بڑی دوری رہی ہے۔نعرے، گانے اور ایک سے بڑھ کر ایک کتبہ نے پورے مظاہرہ میں جان ڈالی ہوئی تھی، وہیں ایک لڑکا اور ایک لڑکی پورے مظاہرہ میں ایک کتبہ لئے ہوئے گھومتے نظر آئے اور گھومنے کے دوران کہہ رہے تھے ’’وزیر اعظم بیمار ہیں ہماری کوئی مدد کرو۔‘‘ وہیں ایک گروپ پولیس کے سامنے کھڑے ہو کر مرکزی حکومت کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے دہلی پولیس اور سی آر پی ایف سے ساتھ دینے کی اپیل کرتا نظر آیا۔ ادھر ارونا دھتی رائے، ڈی راجا، کویتا کرشنن، اپوروا نند سمیت کئی پروفیسر اور بایاں محاذ کے رہنما وہاں نظر آئے۔دہلی کے طلباء نے اس مظاہرہ میں اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا اور حکومت کو یہ واضح پیغام دے دیا کہ وہ مرکزی حکومت کی پالیسیوں سے ناخوش ہیں، ان کو یہ خطرہ محسوس ہو رہا ہے کہ نئے شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کی وجہ سے ملک کے آئین کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا