عبدالعزیز
اس اعتماد سے فضول اندیشوں اور خیالی خطروں سے نجات مل جائے گی فرمانِ خداوندی ہے کہ ’’اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو، جب تم آپس میں پوشیدہ بات کرو تو گناہ اور زیادتی اور رسول کی نافرمانی کی باتیں نہیں بلکہ نیکی اور تقویٰ کی باتیں کرو اور اس خدا سے ڈرتے رہو جس کے حضور تمہیں حشر میں پیش ہونا ہے۔ کانا پھوسی تو ایک شیطانی کام ہے اور وہ اس لئے کی جاتی ہے کہ ایمان لانے والے لوگ اس سے رنجیدہ ہوں، حالانکہ بے اِذن خدا وہ انھیں کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکتی اور مومنوںکو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئے‘‘۔(سورہ المجادلہ:10-9) ’’اس سے معلوم ہوا کہ نجویٰ (آپس میں راز کی بات کرنا) بجائے خود ممنوع نہیں ہے بلکہ اس کے جائز یا ناجائز ہونے کا انحصار ان لوگوں کے کردار پر ہے جو ایسی بات کریں اور ان حالات پر ہے جن میں ایسی بات کی جائے اور ان باتوں کی نوعیت پر ہے جو اس طریقے سے کی جائیں۔ جن لوگوں کا اخلاص، جن کی راست بازی، جن کے کردار کی پاکیزگی معاشرے میں معلوم و معروف ہو، انھیں کسی جگہ سر جوڑے بیٹھے دیکھ کر کسی کو یہ شبہ نہیں ہوسکتا کہ وہ آپس میں کسی شرارت کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ بخلاف اس کے جو لوگ شر اور بدکرداری کیلئے معروف ہوں ان کی سرگوشیاں ہر شخص کے دل میں یہ کھٹک پیدا کردیتی ہیں کہ ضرور کسی نئے فتنے کی تیاری ہورہی ہے۔ اسی طرح اتفاقاً کبھی دو چار باہم کسی معاملہ پر سرگوشی کے انداز میں بات کرلیں تو یہ قابل اعتراض نہیں ہے لیکن اگر کچھ لوگوں نے اپنا ایک جتھا بنا رکھا ہو اور ان کا مستقل وتیرہ یہی ہو کہ ہمیشہ جماعت مسلمین سے الگ ان کے درمیان کھسر پُسر ہوتی رہتی ہو تو یہ لازماً خرابی کا پیش خیمہ ہے۔ اور کچھ نہیں تو اس کم سے کم نقصان یہ ہے کہ اس سے مسلمانوں میں پارٹی بازی کی بیماری پھیلتی ہے۔ ان سب سے بڑھ کر جو چیز نجویٰ کے جائز و ناجائز ہونے کا فیصلہ کرتی ہے وہ ان باتوں کی نوعیت ہے جو نجویٰ میں کی جائیں۔ دو آدمی اگر اس لئے باہم سرگوشی کرتے ہیں کہ کسی جھگڑے کا تصفیہ کرانا ہے یا کسی کا حق دلوانا ہے یا کسی نیک کام میں حصہ لینا ہے تو یہ کوئی برائی نہیں ہے بلکہ کارِ ثواب ہے۔ اس کے برعکس اگر یہی نجویٰ دو آدمیوں کے درمیان اس غرض کیلئے ہو کہ کوئی فساد ڈلوانا ہے یا کسی کا حق مارنا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کرنا ہے تو ظاہر ہے کہ یہ غرض بجائے خود ایک برائی ہے اور اس کیلئے نجویٰ برائی پر برائی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلے میں آدابِ مجلس کی جو تعلیم دی ہے وہ یہ ہے کہ ’’جب تین آدمی بیٹھے ہوں تو دو آدمی آپس میں کھسر پسر نہ کریں؛ کیونکہ یہ تیسرے آدمی کیلئے باعث رنج ہوگا‘‘ (بخاری، مسلم، مسند احمد، ترمذی، ابوداؤد)۔ دوسری حدیث میں حضورؐ کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’دو آدمی باہم سرگوشی نہ کریں مگر تیسرے سے اجازت لے کر کیونکہ یہ اس کیلئے باعث رنج ہوگا‘‘ (مسلم)۔ اسی ناجائز سرگوشی کی تعریف میں یہ بات بھی آتی ہے کہ دو آدمی تیسرے شخص کی موجودگی میں کسی ایسی زبان میں بات کرنے لگیں جسے وہ نہ سمجھتا ہو۔ اور اس سے بھی زیادہ ناجائز بات یہ ہے کہ وہ اپنی سرگوشی کے دوران میں کسی کی طرف اس طرح دیکھیں یا اشارے کریں جس سے یہ ظاہر ہو کہ ان کے درمیان موضوع بحث وہی ہے۔ یہ بات اس لئے فرمائی گئی ہے کہ اگر کسی مسلمان کو کچھ لوگوں کی سرگوشیاں دیکھ کر یہ شبہ بھی ہوجائے کہ وہ اسی کے خلاف کی جارہی ہیں، تب بھی اسے اتنا رنجیدہ نہ ہونا چاہئے کہ محض شبہ ہی شبہ پر کوئی جوابی کارروائی کرنے کی فکر میں پڑجائے یا اپنے دل میں اس پر کوئی غم یا کینہ یا غیر معمولی پریشانی پرورش کرنے لگے۔ اس کو یہ سمجھنا چاہئے کہ اللہ کے اذن کے بغیر کوئی اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔ یہ اعتماد اس کے قلب میں ایسی قوت پیدا کر دے گا کہ بہت سے فضول اندیشوں اور خیالی خطروں سے اس کو نجات مل جائے گی اور وہ اشرار کو ان کے حال پر چھوڑ کر پورے اطمینان و سکون کے ساتھ اپنے کام میں لگا رہے گا۔ اللہ پر توکل کرنے والا مومن نہ تھڑدِلا ہوتا ہے کہ ہر اندیشہ و گمان اس کے سکون کو غارت کردے، نہ کم ظرف ہوتا ہے کہ غلط کار لوگوں کے مقابلے میں آپے سے باہر ہوکر خود بھی خلافِ انصاف حرکتیں کرنے لگے‘‘۔ (تفہیم القرآن) ’’یہ مومنین مخلصین کو تسلی دی گئی ہے کہ منافقین کی یہ ساری سرگوشیاں شیطان کی تحریک اور اس کی وسوسہ اندازی سے وجود میں آئی ہیں اور شیطان زیادہ سے زیادہ بس یہی کرسکتا ہے کہ اس طرح کی باتوں سے اہل ایمان کے دلوں کو ذرا رنج و ملال پہنچادے۔ اس سے زیادہ اس کے امکان میں کچھ نہیں ہے۔ وہ اللہ کے اذن کے بدون اہل ایمان کوکوئی ضرر نہیں پہنچا سکتا تو اہل ایمان کو چاہئے کہ وہ شیطان کی ان وسوسہ اندازیوں کی کوئی پروا نہ کریں بلکہ اپنے موقف پر ڈٹے رہیں اور اپنے رب پر بھروسہ رکھیں کہ وہ ان کو ہر شریر کی شرارت سے محفوظ رکھے گا‘‘۔ (تدبر قرآن) مسلمانوں کو ہر دور میں آزمائش اور امتحان سے گزرنا پڑتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کچھ اس طرح فرمایا ہے کہ ’’خوف و ہراس، بھوک پیاس، نقصان اموالِ مال ومتاع، قتل نفس اولاد اور آمدنیوں کے گھاٹے سے ضرور بالضرور آزمائیں گے۔ اور جو لوگ صبر کریں گے اور کہیں گے کہ ہم اللہ کے ہیں اور اللہ کی طرف لوٹ کر جائیں گے ان کو اے نبی! خوش خبری دے دو، ان پر اللہ کی رحمت کا سایہ ہوگا۔ یہی لوگ ہدایت کے راستے پر ہیں‘‘۔ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے دو باتیں بیان کی ہیں، ایک بات تو یہ بیان کی ہے کہ ’’مومن کو صبر اور نماز سے مدد لینا چاہئے۔ جو لوگ صبرکرتے ہیں اللہ ان کے ساتھ ہے‘‘۔ دوسری بات اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمائی ہے کہ ’’جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں انھیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں، اگر چہ تمہیں ان کی زندگیوں کا شعور نہیں‘‘۔ اگر مومن اللہ یا قرآن کی طرف رجوع کرتا رہے اور اللہ کی ہدایت اور رہنمائی حاصل کرتا رہے تو اسے ہر مرحلے اور ہر منزل پر رہنمائی حاصل ہوتی رہے گی۔ جو کام بھی اللہ کے احکام کے مطابق اس کی خوشنودی کیلئے اور فلاحِ آخرت کیلئے انجام دیا جائے گا اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال رہے گی۔ خطرہ یا مصیبت کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو اللہ کا بھروسہ اور اس پر اعتماد ایک ایسی چیز ہے کہ خطرات اور مصیبتیں ٹل جاتی ہیں۔ جو لوگ اللہ سے بے نیاز ہوکر زندگی گزارتے ہیں اللہ انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔ وہ زندگی بھر بھٹکتے رہتے ہیں۔ انھیں اعمال نصیب نہیں ہوتا۔ وہ فضول اندیشوں اور خیالی خطرات سے گھرے ہوتے ہیں۔ اللہ سے بے نیازی اور اللہ کے رسولؐ سے روگردانی اور آخرت فراموشی سب سے بڑا خطرہ ہوتا ہے۔ انسان کو اس خطرے سے بچنا چاہئے۔
(یو این این) E-mail:azizabdul03@gmail.comMob:9831439068