نئی نظام کے تحت عرضداروں کو امکانی طور پر سر نو دروازہ کھٹکھٹانا پڑے گا
جے کے این ایس
سرینگر؍؍جموں کشمیر تنظیم نو قانون کے تحت کالعدم شدہ قانونی اداروں میں زیر سماعت ہزاروں کیس ممکنہ طور پر ختم ہونگے،کیونکہ تنظیم نو قانون اور تنظیم نو حکم نامہ برائے رفع مشکلات میں ان کیسوں سے متعلق وضاحت کرنے پر خاموشی اختیار کی گئی ہے،جس کے نتیجے میں عرضداروں کو امکانی طور پر ایک مرتبہ پھر نئی نظام کے تحت دروازہ کھٹکھٹانا پڑے گا۔جے کے این ایس کے مطابق محکمہ انتظامی عمومی نے23اکتوبر کو مختلف حکم نامے جاری کیں،جس میں کہا گیا کہ جموں کشمیر تنظیم نو قانون کے تحت مختلف ریاستی قوانین کی منسوخی کو مد نظر رکھتے ہوئے7ریاستی کمیشنوں کے وجود کو 31اکتوبر2019 ،جب ریاست دو مرکزی زیر انتظام والے علاقوں جموں کشمیر اور لداخ میں تبدیل ہوگی سے ختم کرنے کی منظوری دی جاتی ہے۔ان سرکاری حکم ناموں کے مطابق 7کمیشنوں کے سیکریٹریوں کو ہدایت دی گئی کہ وہ اپنے قانونی اداروں کے تمام ریکارڈ کو متعلقہ انتظامی محکموں کے سپرد کریں۔تاہم سرکاری سطح پر ریاستی انسانی حقوق کمیشن،ریاستی اطلاعات کمیشن،ریاستی کمیشن برائے تحفظ خواتین و اطفال،ریاستی صارفین کمیشن برائے ازالہ تنازت،جسمانی طور پر نا خیر افراد کے ریاستی کمیشن اورریاستی بجلی انضباطی کمیشن میں زیر التوائ4 ہزار کیسوں کے انجام سے متعلق کوئی بھی بات نہیں کی گئی،کیونکہ جموں کشمیر تنظیم نو قانون میں اس اہم پلو پر کوئی بھی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔جموں کشمیر تنظیم نو(رفع مشکلات) کے احکامات بھی30اکتوبر2019کو صدر ہند کی طرف سے جاری کئے گئے،تاہم اس میں بھی ان آئینی اداروں ،جنہیں ریاستی قوانین کے تحت قائم کیا گیا تھا،اور انکی تنسیخ کے ساتھ ہی ختم کیا گیا،میں زیر التواء کیسوں ،کے کسی بھی پہلو پر کوئی بھی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔جموں کشمیر تنظیم نو(رفع مشکلات) حکم نامہ کے17ویں پیراگراف میں کہا گیا ہے’’موجودہ ریاست جموں کشمیر کے قوانین کے تحت قائم شدہ کوئی اتھارٹی کو جموں کشمیر اور لداخ نامی دو مرکزی زیر انتظام والے علاقوں میں نافذ مرکزی قوانین کے متعلقہ دفعات کے تحت قائم تب تک تصور کیا جائے گا‘،جب تک نہ مرکزی زیر انتظام والے علاقوں میں نئی قوانین کے تحت نئی اتھارٹی کا قیام عمل میں نہیں لایا جائے گا۔اوراس ا تھارٹی کی طرف سے کوئی بھی کاروائی یا پیش رفت،تمام مقاصد کیلئے قابل عمل رہیں گی‘‘۔قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ریاستی قوانین کے دفعات،جن کے تحت7کمیشنوں کا قیام عمل میں لایا گیا تھا، مرکزی قوانین ،جو کہ جموں کشمیر اور لداخ نامی مرکزی زیر انتظام والے علاقوں میں نافذ ہیںکے متعلقہ دفعات سے مطابقت نہیں رکھتے،کیونکہ یہ7قانونی ادارے صدارتی حکم نامہ کے17ویں پیراگراف میں وضع کردہ طریقہ کار سے قائم نہیں کئے گئے۔ان کا مزید کہنا ہے’’ کالعدم کئے گئے ان 7کمیشنوں کے منتخبہ طریقہ کار،سیلکشن کمیٹیوں،سرگرمیوں اور معیار،مرکزی قوانین ،جن کا اطلاق جموں کشمیر اور لداخ میں کیا گیا ہے،مختلف ہے۔ قانونی مزہرین کا ماننا ہے کہ جموں کشمیر تنظیم نو قانون اور جموں کشمیر تنظیم نو(رفع مشکلات) آرڈر میں زیر التواء ان کیسوں میں وضاحت کی عدم موجودگی میں یہ کیس ممکنہ طور پر ختم ہو سکتی ہے،اور عرض گزار اگر چاہے تو وہ نئے طریقہ کار کے تحت تازہ درخواستیں دیں سکتے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ریاستی صارفین کمیشن برائے ازالہ تنازت میں سب سے زیادہ2500کے قریب کیس زیر التواء تھے،جب23اکتوبر کو اس کو ختم کیا گیا۔ نہ صرف کمیشن بلکہ بڑی تعداد مین جموں کشمیر ضلع صارفین فورموں میں بھی زیر التواء تھے،جبکہ ان فورموں کو صارفین تحفظ قانون کے تحت عمل میں لایا گیا،اور اب اصل قانون کی ہی تنسیخ کی گئی۔ذرائع کے مطابق ریاستی انسانی حقوق کمیشن میں قریب600جبکہ حق اطلاعات کمیشن میں دوسری اپیلوں میں233اور شکایتوں کی فہرست میں131شکایات زیر التواء تھیں۔ ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ ،ریاستی کمیشن برائے تحفظ خواتین و اطفال میں مختلف نوعیت کے200کیس زیر التواء تھے،جبکہ جسمانی طور پر نا خیر افراد کے ریاستی کمیشن سمیت ریاستی احتسابی کمیشن میں بھی کئی ایک کیس زیر التواء تھے۔