مشورہ ہر کوئی دیتا ہے مگر ذمہ داری کوئی نہیں لیتا

0
0

غلام غوث
9980827221
آج سب سے آسان کام مشورہ دینا ہے۔ آپ کسی بھی میٹنگ یا کانفرنس میں چلے جائیے آپ کو ایسے لوگ ضرور مل جائیں گے جو یہ کہیں گے کہ ہم کو ایسا کرنا ہے ویسا کر نا ہے مگر بہت کم لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم ایسا کر رہے ہیں ویسا کر رہے ہیں۔جو احباب میٹینگیں اور کانفرنس کر تے ہیں وہ ہمیشہ پورے اخلاص کے ساتھ کوشش کر تے ہیں کہ ہم جن مسائل سے دو چار ہیں ان کا حل تلاش کیا جائے اور اْس پر عمل کیا جائے۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ہر جگہ ایک ایک مسلہ لے کر اْس کا حل دریافت نہیں کیا جاتا بلکہ صرف جنرل باتیں ہو تی ہیں تجزیہ analysis ہو تا ہے اور methodology بیان کی جاتی ہے مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ اْس کام کو کرنے کے لئے کون آگے آ رہا ہے، والنٹیرس کہاں ہیں اور روپیے کہاں سے آ ئیں گے۔نہ ڈونیشن ملتا ہے اور نہ ہی خود خرچ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ سب جمعہ کے خطبے ہیں اور سب باتیں ہی باتیں ہیں۔ ہمارے درمیان صرف دو جماعتیں ہیں جو کہتے بھی ہیں اور کرتے بھی ہیں اور وہ ہیں جماعت اسلامی اور جمیت العلمائے ہند ۔ باقی سب صرف باتیں اور مشورے ہیں۔ آج ہمارے پاس کوئی مرکزی ادارہ ایسا نہیں ہے جس کے باقی تمام ادارے بازو بن جائیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ کوئی نیا ادارہ قائم کر نا اور اسے اْس اونچائی تک پہنچانا آسان نہیں ہے۔ ایسے میں ہمیں موجودہ جماعتیں اور اداروں ہی کو مضبوط بنا نا ہے۔آج ہمارے پاس آر یس یس جیسا کوئی ادارہ نہیں ہے جس کی بے شمار شاخیں ہیں جو الگ الگ کام میں لگی ہوی ہیں اور جن کے پاس زمینی سطح پر کام کر نے والے والنٹیرس بھی ہیں اور مالی ذرایع بھی۔ ہر ادارے کی مالی ضروریات اْس قوم کے کچھ مالداروں کی ذمہ داری ہے۔جتنی بھی غیر مسلم تنظیمیں ہیں وہ سب کی سب آر یس یس کے ماتحت ہیں جس کی بنیاد 1929میں رکھی گئی۔ 80 سال کی جد و جہد کے بعد یہ تنظیم ایک تناور درخت بن کر کھڑی ہوی ہے جس کی بے شمار ڈالیاں ہیں جو ہر میدان میں کام کر رہی ہیں۔ یہ ڈالیاں (ادارے) ایک دوسرے سے ٹکراتے نہیں بلکہ اپنا اپنا کام بغیر کسی رکاوٹ کے کر تی ہیں۔ یہ ہر قوم کے لئے ایک اچھا ماڈل ہے جو عین اسلامی ھدایات کے مطابق ہے۔ایسا ماڈل ہم جماعت اسلامی اور جمیت العلماے ہند دونوں کو ملا کر بنا سکتے ہیں اور باقی سب ادارے ان کے بازوں کے طور پر کام کر سکتے ہیں۔پچھلے تیس سال کی جد و جہد اور کامیابی اور نا کامیوں نے مجھے اس طرز پر سوچنے کے لئے مجبور کر دیا ہے۔ کرناٹکا کی باتیں کروں تو یہاں” مسلم متحدہ محاذ” ہے جو الیکشن کے دوران مسلمانوں کی رہنمائی کر نے کا کام کر تا ہے، "صدائے اتحاد "مسلمانوں کے درمیان اتحاد قائم کر نے کا کام کر تا ہے ، "FKMAہے جو تعلیم اور صحت پر کام کر تا ہے ، "ویژن کر نا ٹکا "ہے جو عوام میں سیاسی شعور پیدا کر نے کا اور پریژگروپ کا کام کر تا ہے ، CMA ، BET اور دیگر ادارے تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ الامین مومنٹ ایک آل انڈیا مومنٹ بن چکا ہے اور باقی سب ادارے اپنے اپنے کاروبار کو وسعت دینے میں مشغول ہیں۔ان تمام اداروں میں آج مکمل تال میل نہیں ہے جو کے وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہر ادارے کے اراکین کو چاہیے کہ وہ دوسرے اداروں کے کام و کاج میں ان کا ساتھ دیں ، ان کے منعقدہ جلسوں میں شرکت کریں اور ان کی ہمت افزائی کریں۔ مالدار طبقہ کو چاہیے کہ چند سالوں تک مسجدوں اور مدرسوں کے قیام پر اپنے روپیے خرچ کر نے کے بجائے وہ روپیے اداروں کے کام میں لگائیں اور یہ بات یاد رکھیں کہ بلڈنگس کھڑی کر دینے سے ملت کھڑی نہیں ہو گی بلکہ ادروں کو کھڑا کر نے سے ملت کی خدمت ہو گی۔آج ہمارے ادارے مالی تنگی کے سبب موثر انداز میں کام نہیں کر پا رہے ہیں۔ہر مسلمان چاہے وہ تعلیم یافتہ ہو یا نہیں وہ دل سے چاہتا ہے کہ قوم محفوظ رہے اور خوب ترقی کرے مگر کونسا راستہ اختیار کرے وہ اسے معلوم نہیں۔ اس لئے وہ الگ الگ رائے پیش کر تے ہیں اور کسی بھی نتیجہ پر پہنچ نہیں پاتے۔ہر کوئی اس بات سے پریشان ہے کہ حکومت وقت الگ الگ طریقہ سے اسے پریشان کر رہی ہے ۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ وہ کرے تو کیا کرے اور کس کے کندھے پر سر رکھ کر اپنی پریشانی دور کرے۔ ایسے میں میرا مشورہ ہے کہ جماعت اسلامی اور جمیت العلمائے ہند دونوں کو ملا کر ایک مرکزی ادارہ بنائیں اور دوسرا کام چند اہل دانش کی لیڈر شپ قائم کریں جیسا کہ آر یس یس نے بی جے پی کے نام سے لیڈر شپ قائم کر دی ہے۔ تجربہ کے طور پر ہم پانچ یا سات رکنی لیڈر شپ قائم کر سکتے ہیں اور وقت کے گزرتے اْس میں تبدیلی بھی لا سکتے ہیں۔ اب جو اہم سوال پیدا ہو تا ہے وہ ہے اس کام کو کون کریں گے ۔ "Who will bell the cat” ۔ قوم کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ایسے کام کرنے کے لئے قوم میں ہی کچھ افراد موجود ہیں۔ بس ان کی ہمت افزائی کر نا چاہیے۔قوم کو ہر محاذ پر کھڑا کر نے کا ایک راستہ یہ بھی ہے کہ قوم میں اخبار بینی اور سیریس کتابیں پڑھنے کی عادت ڈال دیجیے۔یہ کام ہم جمعہ کے خطبوں کے ذریعہ کر سکتے ہیں۔ ( knowledge is Power) ۔ مسٹر امبیڈکر کی کہاوت ہے "پڑھو یا مر جاو "۔ اس میں اسکولی تعلیم بھی ہے اور لائبرری جا کر پڑھنے اور معلومات میں اضافہ کر نے کی بھی بات ہے۔ زیادہ معلومات رکھنے والی قوم دوسری تمام قوموں کی سردار بن جاتی ہے۔سب سے زیادہ انٹرنیشنل مسلوں پر جو کتابین لکھی جا رہی ہیں وہ انگریزی میں ہیں اور ایسی کتابیں ہندوستان میں آسانی سے دستیاب نہیں ہیں۔ ایسے میں بہتر یہی ہے کہ اْن کالم نگاروں کے لکھے ہوے مضامین اخباروں میں پڑھ لیں جو بیرونی ممالک میں جا کر ایسی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں اور ان کا نچوڑ پیش کر تے ہیں۔ یاد رکھیں کہ ہم نے جو کچھ اسکولون، کالجوں اور مدرسوں میں پڑھ لیا وہ سب ا ب پ ت ٹ ث ہے جبکہ فارغ ہونے کے بعد جو مطالعہ ہو تا ہے وہ اصل ہے۔ قوم میں مطالعہ کی عادت اگر پڑھ گئی تو سمجھ لیجیے کہ ہمارا آدھہ کام پورا ہو گیا۔ یہ بھی یاد رکھیے کہ جس قوم کے لیڈر نہیں اس کا کوئی وزن نہیں ۔ یہ ایسی بات ہے کہ جانوروں کاریوڑ ہے مگر اس کا کوئی چرواہا نہیں ہے۔ آج دنیا بھر میں ہمارا کو ئی وزن نہیں کیونکہ ہمارا کوئی قائد نہیں ہے۔ہماری غلطی یہ ہے کہ ہم نہ کسی کو قائد مانتے ہیں اور نہ ہی خود آگے بڑھ کر اپنے آپ کو قائد کے طور پر پیش کر تے ہیں ۔ اب اگر اللہ کسی فرشتہ کو بھی ہمارا قائد کے طور پر بھیج دے تو ہم اْس میں بھی عیب تلاش کر لیں گے اور اسے دھتکار دیں گے۔ اب حالات ہمیں مجبور کر رہے ہیں کہ ہم اس رویے کو بدلیں ورنہ ہر کوئی ہم کو کچل کر رکھ دے گا۔ ہماری کاہلی کی وجہ سے طلاق ثلاثہ کا مسلہ عدالت چلا گیا اور قانون بن گیا ۔ اب دوسرے مسلے جیسے اذان اور خطبوں کا مائک پر دینا یا نہیں ، راستوں پر جمعہ کی نماز پڑھنا یا نہیں ، کثرت ازواج ،مسجدوں اور مدرسوں کی بڑھتی تعداد پر کنٹرول اور فیصلہ کر نے کے لئے ایک کمیٹی کا قیام، مدرسوں کے نصاب پر نظر ثانی، مدرسہ بورڈ کا قیام ، دار القضاوں کی ضرورت اور اہمیت وغیرہ مسلے عدالت جائیں گے اور قانون بنائے جائیں گے۔ اس سے پہلے کہ ایسا ہو اور بعد میں ہم چیخ و پکار کریں ہمیں چاہیے کہ ہم خود فیصلے کریں اور حکومت کو آگاہ کر دیں۔ ان مسلوں کے حل نکالنے کے لئے ہمیں اْسی طریقہ کو اپنا نا ہو گا جو پارلیمنٹ کر تی ہے۔ ہر اسمبلی اور پارلیمنٹ میں دو سے پانچ سو اراکین ہو تے ہیں اور یہ سب مل کر کسی بھی مسلے کا حل نہیں نکال سکتے ۔ اس لئے وہ مسلہ کو سیلکٹ کمیٹی کے سپرد کر دیتے ہیں جس کے صرف پندرہ یا گیارہ ماہر اراکین ہو تے ہیں ۔ یہ کمیٹی مسلہ کے ہر پہلو پر غور و فکر کر تی ہے اور اس کا حل تلاش کر تی ہے اور اسے پارلیمنٹ کے سامنے رکھتی ہے ۔ وہاں کچھ بحث مباحثے کے بعد اور کچھ ترمیموں کے ساتھ اسے منظوری دی جا تی ہے اور وہ قانون بن جاتا ہے۔ ہمیں بھی اْسی طرح 9 یا گیارہ ماہرین کی کمیٹی بنانی چاہیے اور ہمارے مسلے اس کے سپرد کر دینا چاہیے ۔ پھر جو حل وہ پیش کر تے ہیں اسے تمام اداروں کے سامنے رکھے جائیں اور ترمیمات کے ساتھ منظور کر کے انہیں حکومت اور مسلمانوں کے سامنے رکھ دینا چاہیے تا کہ اس پر عمل ہو۔ ایسا کام کرناٹکا میں شروع ہو چکا ہے۔ شہر بنگلور میں گیارہ ماہرین کی ایک ٹیم بنائی گئی ہے جو مندرجہ بالا مسائل پر غور و خوص کرے گی اور نتیجہ مسلم اداروں کے سامنے رکھے گی۔اسے اگر ہر ریاست میں کیا جائے تو اس کے اچھے نتائج نکلیں گے۔ ایسی سوچ اور کوشش میں سب سے زیادہ رول جناب ضیا کرناٹکی ، اڈوکیٹ کا تھا جو آج اس دنیا میں نہیں ہیں۔ایک اور بات جو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہم کو ورغلانے کے لئے اور ہمیں احتجاج کر نے کے لئے سڑکوں پر اتارنے کے لئے ہمارے مخالف کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑ دیتے ہیں اور وہ اس طرح کہ انہیں کے ایک ممبر سے مسلم مخالف بیان دلوادیتے ہیں اور ہنگامہ کھڑا کر دیتے ہیں اور کچھ دیر بعد کوئی دوسرے اسے غلط کہہ دیتے ہیں۔ اس طرح ان کا مقصد پورا ہو جاتا ہے اور ہم رد عمل میں لگ جاتے ہیں ۔ جہاں تک ہو سکے ہمیں رد عمل کی سیاست سے بچنا ہوگا ورنہ ہم ان کے جال میں پھنس جائیں گے جیسے اب ہو رہا ہے۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا