ہمارا سماج اور قانون
غلام علی اخضر
غیر ثقہ رسم و رواج، مذہبی اندھ بھکتی اور فلمی اطوار و اسباق نے مردوں کے ذہن کو عورتوں کے تئیں زہریلا بنادیے ہیں۔ ایک زمانے تک ہندوستان کے ایک بڑے علاقے میں مرد کے مرجانے پر عورت کو اس کے چتاکے ساتھ زندہ جلادیا جاتا تھا۔ کچھ عورتیں کھوکھلی مذہبی تعلیم اور توہم پرستی کی بنیاد پر خود اس آگ کے حوالے رضا برضا ہوجاتی تھیں کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ وہ مردکے ساتھ ’سورگ‘میں عیش وعشرت کی زندگی گزاریںگے۔سوسائٹی نے عورتوں کی شخصی آزادی پر اس طرح قبضہ کر رکھا تھا کہ اگر کوئی عورت ’ستی‘سے بھاگتی تو اسے لوگ زبر دستی مردہ کے ساتھ زندہ جلادیتے تھے۔ اس حوالے سے تاریخ میں کئی واقعات بکھڑے پڑے ہیں ۔ مہاراجا رنجیت سنگھ کے بیٹے کھرک سنگھ کی موت ہوئی تو اس کی بیوی نے’ستی‘ہونے سے انکار کردیا مگر انھیں زبردستی کھرک سنگھ کی چتا کے ساتھ جلاکرراکھ کردیا گیا۔ ہمارے معاشرے میں مردوں کی ایک بڑی جماعت عورتوں کو صرف اپنی عیش پرستی کا ذریعہ اور نفسانی ضرورت پوری کرنے کا آلہ سمجھتی ہے۔ ایک زمانے تک عورتیں بادشاہوں، راجائوںاور جاگیر داروں کی حرم خانے اور ان کی محافل کی زینت بنی رہیںاورآج بھی انھیں اس کام کے لیے استعمال کی جارہی ہیں ۔ بس صورت کی تبدیلی ہے کہ ترقی نے انھیں حرم اور محافل سے نکال کر بازاروں ، دکانوں اور کال سینٹروں کے دفتروں کی زینت بنادی ہے۔ فلم نے لوگوں میں یہ تصور پیدا کرنے میں اہم رول ادا کیا، کہ لڑکیاں انٹرٹین مینٹ کے حسین گلدستے ہیں۔ پھر یہ کہ حالات کے مواقع کے پجاری اور سیاسی گیڈروں نے شرم ناک انجام کو روح بخشنے اور عروج کی منزل تک پہنچانے میں ہوس، ڈنڈ، بھید ہر طرح سے اپنی ذاتی فائدے کے لیے اس بازار کو گرم رکھا ہے۔ پردھان منتری ہندوستان کو سپر پاور اور نئے ہندوستان بنانے کی بات کرتے ہیں۔کیا یہی نیا ہندوستان ہے کہ جہاں مجرم کے گناہ کو مذہب اور دھرم کے نام پر تولا جائے ؟،جہاں ہر مہینے ہزاروں کسان خود کشی کریں؟ جہاں بے روزگاری شباب پر ہو اور نوکریاں دن بدن ختم ہوتی جائیں؟ جہاں ہر روز معصوم بچیوں کی عصمت دری کی جائے ؟ جہاں عدالتوں سے انصاف کا جنازہ نکالا جائے اور جہاں عصمت دری کرنے والے نیتا مزے میں رہ رہے ہوںاور مظلوم بیٹی در بدر کی ٹھوکر کھاتی رہے اور آخر میں دم توڑ دے۔ تو ہمیں اس نئے ہندوستان پر کوئی تعجب نہیں ہے۔ کیوں کہ جس ہندوستان میں آتنک واد کو راشٹرواد،دہشت گرد،گنڈے موالی اور ریپیسٹ کوایم،پی اور لیڈر چنے جائیںتو ایسے ہندوستان میں انصاف کا سرے عام قتل ہونا عقل کو بالکل عاجز نہیں کرتاہے۔ نربھیا سے پہلے اور پرینکا ریڈی کے بعدتک کتنے دل دہلانے والے واقعات رونما ہوئے، ان سب معاملوں میں لیڈران نے سیاسی رنگ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جس کا اکثر خمیازہ یہ ہوتا ہے کہ انصاف پردے کے پیچھے چلا جاتا ہے اور لوگ بنائے ہوئے ایک ماحول میں مست ہوجاتے ہیں۔ مظفر پور گرلس شیلٹرہوم معاملے کا مجرم کیوںآج تک چین کی نیند سورہا ہے؟ بکسراور سمستی پورمیں لڑکیوںکی لاشیں پٹرول سے کیوں جلیںاور ویران کھیت میں ملیں ؟دھروارگائوں اٹاوہ میں ۹؍سالہ لڑکی کا ۲۵؍سالہ نوجوان ریپ کیوں کرتا ہے؟اکتوبر میں راگنی گلو کارہ سشما کا گولی مار کر قتل کردیا جاتا ہے جب کہ پہلے بھی ان پر حملہ ہوچکا تھا مگر پولیس نے شکایت کے بعد بھی کیوں سخت قدم نہیں اٹھایا کہ یہ حادثہ پیش آیا؟ہندوستان کی راجدھانی کیوں ریپ کی بھی راجدھانی ہے؟ نومبر میں ۱۲؍سالہ لڑکی کے ساتھ پڑوسی نے اپنے دوستوں کے ساتھ منھ کالا کیا۔کیا لڑکیوں کی اہمیت یا کوئی مقام نہیں ہے کہ اسے جوے میں بھی دائو پر لگا دیا جائے۔ نومبر میں بانکا ضلع کے ایک ظالم مرد نے اپنی بیوی چندہ دیوی کو جوے میں ہار گیا اور جیتے شخص کے ساتھ جانے کو کہا مگر جب وہ انکار کردی تو انھیں بری طرح سے زخم کردیا۔ چنمیانند کا معاملہ اور متاثرہ کے ساتھ ہورہے ڈرامے کسی سے پوشید ہ نہیں۔ ایک لیڈر ریپ کے ملزم کو اس کے جنم دن پر مبارک باد پیش کرتا ہے اور ہم تماشائی بنے رہتے ہیں۔ مذہبی افیون اور چینل سے بنائی ہوئی ایک دنیا نے ہمارے ذہن کو صحیح اور غلط کے فرق پیدا کرنے کی قوت کو اپاہج کردیا ہے۔
27نومبر کو پرینکار یڈی کے ساتھ جو ہوا اس پر پورا ہندوستان بلاتفریق مذہب وملت غم و غصے میں ڈوبا ہوا تھا۔ پورے ملک میں گناہ گاروں کو پھانسی دینی کی بات کہی جانے لگی۔ کسی نے اس ماحول میں لنچنگ کرنے کی بات کی تو کسی نے کچھ۔ کئی باتیں قانون کے دائرے میں تو کئی باتیں قانون کو برطرف رکھ کر کہی گئیں، مگر اس گرم ماحول میں 6؍دسمبر کی صبح کوجو خبر ملی وہ کچھ لوگوںکے دلوں میں خوشیوں کے بہاریں لائی تواس کی وجہ سے کتنے کے دلوں میں شبہات کے بادل منڈلانے لگے۔صبح 5:45سے6:15کے دران چاروں ملزم کا انکائونٹر کردیا گیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمین پولیس پر پتھروں اور ان کے ہتھیار چھین کر فائرنگ کرنے لگے جس پر پولیس کو مجبوراً یہ اقدام اٹھاناپڑھا۔ یہ کس حد تک صحیح ہے اور کس حدتک افسانہ ،وہ صحیح تحقیق کے بعد ہی معلوم ہوگا۔ ان حالات میں کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں : ٭کیا ریپ کے ملزم/مجرم کا انکائونٹر کردینا مسلے کا حل ہے؟
٭کہیں ایسا تو نہیں کہ پولیس نے دبائو میں کسی بڑے مجرم کو بچانے کے لیے یہ کام انجام دی ہے؟
٭کیا پولیس نے عدالت کو بالائے طاق رکھ کر یہ واردات انجام دی ہے۔
٭کیا عدالت پر سے لوگوںکا بھروسہ اٹھ چکا ہے کہ خود وہ فیصلہ کرنے کی بات کرنے لگے ہیں؟
٭کیا انکائونٹر ہمیشہ صحیح ثابت ہواہے کہ ہندوستان کی اکثریت تحقیق سے پہلے اسے صحیح ٹھہرا رہی ہے ،کہیں ہم اس کو صحیح ٹھہرا کر اپنی بربادی کو تو دعوت نہیں دے رہے ہیں اور پولیس کو خود سے فیصلہ کرنے کی ہمت افزائی ؟
٭کہیں پولیس نے عدالتوں کے انصاف کی رسی ڈھیل اور اس کے رویے صاف نہ ہونے کی وجہ سے خود شخصی طور پر یہ فیصلہ تو نہیں کرلیا کہ ہماری بھی بہن بٹیاں ہیں کہیں کل وہ ان وحشیوں کے چنگل میں نہ پھنس جائیں؟
اگر ان حالات کے تناظر میں انکائونٹر ہے تو ہمارے سسٹم پر سوال اٹھتا ہے کہ وہ کس قدر کمزور اور لاچار ہوچکا ہے۔
انائو بی جے پی رکن اسمبلی کلدیپ سینگر کی ناپاک حرکتوں کی شکارمتاثرہ کے ساتھ لگی ہوئی آگ ابھی بجھ ہی نہ پائی تھی کہ پھر انائو، اخبارات اور چینلز کی سرخیوں میں نظرآنے لگی۔بتایا جارہا ہے کہ گزشتہ سال شیوم ترویدی نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ لڑکی کوہوس کاشکار بنایا۔شیوم کچھ دن پہلے ہی ضمانت پر رہا ہواتھا ۔ متاثرہ جب رائے بریلی اپنے وکیل سے ملنے جارہی تھی اسی دران درندوں نے انھیں زندہ آگ کے حوالے کردیا۔ مثائرہ کو نازک حالات میں صفدر جنگ دہلی اسپتال میں زیر علاج رکھا گیا مگر سوئے قسمت کہ وہ بھی لقمۂ اجل ہوگئی۔ ان حالات میں ہمیں جہاں متاثرہ کے اہل خانہ کے ساتھ کھڑے ہوکر انصاف کی لڑائی لڑنی چاہیے وہیں کچھ چینل اور نیتا ہندومسلم رنگ دینے اور اپنی سیاسی روٹی سینکنے میں لگ جاتے ہیں۔ ڈاکٹر پرینکا ریڈی کے دل سوز واقعے کو مہرہ بناکرجس طرح الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیاپر مسلمانوں کے خلاف زہر افشانیاں ہوئیں۔ بی جے پی اور ’’سدرشن نیوز‘‘کے مالک سریس چواہانکے جو رنگ دینے کی کوشش کی ایک قانون اورجمہوریت پسند ملک کے لیے شرم ناک بات ہے۔ اس کے باوجودان جیسے معاملات میں ہمارے پردھان منتری اور عدالتیں خاموش رہتی ہیں جس سے پتا چلتا ہے کہ اب گنگا جمنی ہندوستان کس سمت کو جارہا ہے۔
ہندوستان میں رونما ہونے والے ریپ کی صورت کیا ہے ۔ این،سی آر،بی ڈیٹا کے تحت جان سکتے ہیں:
In over 90% of cases, rapists were known to victims‘‘
While 43% of rapes were committed by friends or family friends, 16.25% of rapes were committed by neighbors. In 12.04% of the cases, relatives were responsible, while 2.89% of rapes were committed by co-workers. Meanwhile, other known people accounted ’’for 22.86% of rape cases.
اس تفصیل کے تحت سب سے زیادہ عصمت دری ہونے کے واقعات ایسے ہیں جو متاثرہ کوپہلے سے جانتا ہے۔ اس کے باوجود اس کے روک تھام سے عدالتیںکوسوں دورپیچھے ہیں اورافسوس ہم نے سماجی بیداری کو کس قدرسست رکھا ہے،سماج میں تعلیم روز بروز بڑھتی جارہی ہے مگر تربیت خال خال ہے۔ضرورت ہے کہ مذہب،دھرم،سیاسی پک ڈنڈیوں سے دور ہوکر ، ذاتی مفاد سے اٹھ کر مجرم کو صرف مجرم جانیں۔ متائرہ کو جلد انصاف ملے کیوں کہ اس طرح کی دیری اور حالات مجرموں کی ہمت افزائی کرتے ہیں، جس کا نتیجہ ہمیشہ سے مایوس کن رہا ہے۔