کینسر،آلودگی اور ہم

0
0

دھیرے دھیرے دل کو کھاجاتا ہے حنیفؔ
یوں فکری سرطان کا رشتہ ہوتا ہے
آدمی خود اپنا دشمن بن رہاہے، تبھی تواس نے اپنے دشمنوں پرفتح یابی کے لیے ایسے ایسے خطرناک ہتھیار بنائے ہیں کہ آج پوری دنیا بارود کے ایک نہایت خطرناک ڈھیر پر بیٹھی ہے۔ جس دن کسی پاگل سپرپاور نے اس کو چنگاری دکھادی، ساری دنیا بھُک سے اُڑجائے گی اورسیکڑوں سال تک فضا میںایٹامک مشروم اڑتے رہیں گے۔دوسری جانب آج دنیا بھرمیں آلودگی کی ماربھی ہماری یعنی انسانوں کی پیداکی ہوئی ہے، جس میںہم ہندوستانی سب سے آگے ہیں۔ملک کی قومی راجدھانی اور شمالی ہندوستان کے قلب یعنی شہر دہلی کی حالت کسی سے پوشیدہ نہیں، جو اس وقت ’گیس چیمبر‘میں بدل کر رہ گیاہے۔یہاں کے باشندے زہریلی بھٹی میں سانس لے رہے ہیں۔ ایک نومولود بچے سے لے کر 80سال کے بزرگ شخص کے جسم کے اندرسانسوں کے ذریعے اس قدر دھواںداخل ہورہا ہے،جتنادھواں 44سگریٹ سے خارج ہوتا ہے۔
این سی ڈی کینسرکلینک کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق کینسر ہندوستان میں بے حد تیزی سے پھیل رہا ہے۔ یہ مرض پچھلے ایک سال میں 300فیصد زیادہ ہوگیاہے جس میں سب سے زیادہ عام منہ کا کینسر ، عورتوں مردوں میں پیشاب کے اعضا(مثانہ، اندامِ نہانی کا کینسر) ، بریسٹ کینسر سرفہرست ہے۔ 2018میں 6.5لوگوں نے نیشنل ہیلتھ پروفائل کے زیرنگرانی کلینک پرجانچ کرائی تھی جس میں 1.6لاکھ لوگ کینسر کے مریض پائے گئے ، جب کہ 2017میں یہاں اس مرض کے شکارلوگ صرف39635 تھے ۔صرف کینسر ہی نہیں پھیپھڑوں کی بیماری اور ذیابیطس کابھی یہی حال ہے۔اس کی وجوہات آج کی ترقی یافتہ اورتیزرفتاربھاگتی دوڑتی زندگی میںرونماںہونے والی وہ تبدیلیاں بھی ہیںجن سے ہرایک دوچار ہے۔ بہت زیادہ ذہنی دباؤ، بدلی ہوئی کھانے پینے اور آرام کرنے کی عادتیں، تمباکو اور گٹکے کا بڑھتااستعمال، شراب اوراس کے علاوہ کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ،نیز سبزیوں ، ترکاریوں کو تروتازہ دکھانے کیلئے زیراستعمال لائے جانے والے کیمیکل وغیرہ سے انسانی زندگی متاثر ہورہی ہے اور کینسر، پھیپھڑوںکی بیماریاں نیزذیابیطس کے مریضوں کی تعداد میں خوفناک حد تک اضافہ ہورہاہے۔
سب سے زیادہ جوچیز آج ہماری زندگی پراثرانداز ہورہی ہے ،وہ ہے ہوا میں پھیل رہی آلودگی۔ دیوالی سے پہلے اوراس کے 10دن بعد تک پورا شمالی ہندوستان ایک’ گیس چیمبر‘ میں بدل گیا تھا۔ ٹی وی، اخبارات، ریڈیو ہرجگہ بس ایک ہی ذکرتھاآلودگی، آلودگی اور آلودگی۔ دہلی گورنمنٹ نے توایمرجنسی لگا کر اسکول بند کردیے تھے۔ سپریم کوٹ نے اس پر کنٹرول کرنے کے آرڈرجاری کیے اور جب بہت شور مچاتب جاکر حکومت کے بندکان کھلے۔ وجہ تھی پنجاب اورہریانہ میں پرالی کا جلایاجانا اور اس کے دھوئیں کادہلی اوراین سی آر کو پوری طرح سے ڈھک لینا۔ سپریم کورٹ کے آرڈر کے باوجود دہلی اوراین سی آر میں ہرسال بڑھتی آتش بازی اوراس سے ہونے والے اثرات خاص طور پردمہ اوردل، کینسر اوردوسرے امراض کو بڑھاتے ہیں۔ اگرہم ابھی کوئی پٹاخہ چھوڑیں تواس سے جوزہریلی گیس نکلے گی اس کا اثر 100 گھنٹے تک رہے گا۔ اس آتش بازی میں بہت تیز روشنی دینے والے پٹاخے جس میں سے ہری روشنی نکلتی ہے۔ اس میںبیریم استعمال ہوتی ہے۔اسی طرح ان پٹاخوں میں نیلی روشنی پیدا کرنے کے لیے جو کیمیکل اور کمپاؤنڈ استعمال ہوتے ہیں۔ ان سے زہریلی شعاعیں نکلتی ہیں اور ان سے انسانی جسم میں کینسر ہونے کابہت بڑاخطرہ ہوتا ہے۔ اس پرریسرچ جاری ہے۔ اس کے علاوہ پیلی روشنی گندھک سے پیداہوتی ہے جو پھیپھڑوں کے لیے زہر کی طرح ہے۔
اس کے علاوہ آلودگی پھیلانے میں موٹر گاڑیاںبھی کم ذمہ دار نہیں، جو پورے سال شہروںکی فضا کو کثافت زدہ بناتی ہیں۔دراصل ڈیزل، سی این جی اورپیٹرول سے چلنے والی موٹر گاڑیوں سے نکلنے والا کاربن، سلفر ڈائی آکسائڈ، نٹرروجن گیس اور کاربن مونو آکسائڈ گیسزانسانی جسم کے لیے نہایت نقصان دہ ہے،اس کے باوجودان گاڑیوں کا پھیلاؤ دن نہ بدن بڑھتا ہی جارہاہے۔ اوپر سے فصلوں کا بقایا (پرالی) کادھواںماحول کو آلودہ بنانے میں اہم کردار اداکررہاہے۔ ہیلتھ ایفکٹ انسٹی ٹیوٹ فارہیلتھ میٹرکس ایویلویشن نے تازہ ہوا کے معیار سے متعلق اعدادوشمار پرتفصیلی رپورٹ اسٹیٹ آف گلوبل ایئر 2019جاری کی ہے۔ اس کے مطابق دنیا میں فضائی آلودگی سے ہونے والی 5ملین اموات میں سے 50فیصد اموات صرف ہندوستان اور چین میں ہوتی ہیں، جو دنیا کے مقابلے بہت ہی زیادہ ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہاگیاہے کہ ہندوستان میں فضائی آلودگی اب صحت کے لیے سب سے بڑا اور سب سے مہلک تیسرا خطرہ ہے اور اموات کی تیسری بڑی وجہ بھی۔ رپورٹ میں یہ بھی کہاگیا ہے کہ 2017میںغیرمحفوظ کثیف ہواباہری پی ایم 2.5کے رابطے میں آنے کی وجہ سے 6.73لاکھ لوگ مرے تھے۔ حکومت ہند کی وزارت سائنس اورماحولیات کی پورٹ کے مطابق ہندوستان میں ہونے والی اموات میں 12.5فیصد فضائی آلودگی کی وجہ سے ہوئی ۔گویاقومی اور عالمی رپورٹس سے اس بات کی پوری طرح تصدیق ہوجاتی ہے کہ فضائی آلودگی کی سطح دن بدن بڑھتی جارہی ہے اور یوں انسان اپنی اختراعات و ایجادات اور سہولت پسند زندی گزارنے کی عادت کی وجہ سے اپنی پریشانیاںخود بڑھاتا چلاجارہاہے۔شورمچتاہے اورپھر ’نربھیا کیس‘کی طرح خاموشی چھاجاتی ہے ۔حکمراں سیاست کرتے رہتے ہیں اور اپنی جنتا کو رام نام کے سپرد کردیاجاتاہے۔
ہمارامستقبل کیا ہے؟ آلودگی یوں تو پچھلے 30سال سے ہے اور سی این جی اسی کی دین تھی مگر یہ آلودگی دوبارہ اس وقت روشنی میں آئی جب 2015میںامریکی صدر اوباما ہندوستان آئے تھے اورامریکی سفارت خانہ نے آلودگی پرواویلا مچایاتھابلکہ آگرہ جانے کا اوباما کا پروگرام صرف اور صرف آلودگی کی وجہ سے پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ سکاتھا۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیاحکومت ہمیں صاف ہوابھی نہیں دے سکتی؟ کیا ہم ہندوستانی اپنے اتنے دشمن ہوگئے ہیں کہ ہم صاف ہوا اور صاف پانی اپنی صحت کو ٹھیک رکھنے کیلئے حاصل نہیں کرسکتے۔ کیا ہم مندر-مسجد، مسلمان-ہندوکے سیاسی مسائل میں الجھے رہیں گے کہ ہم صحت جیسی سب سے زیادہ ضروری چیز تک کاخیال نہ ہو۔ آئیے ہم سب مل کر یہ عہد کریں کہ ہم حکومت پرزور ڈالیں گے کہ وہ ہمیں خدا کی دوبڑی نعمتیں صاف ہوا اور صاف پانی دینے کے لیے ہر وہ کوشش کرے جو ممکن ہے۔ ورنہ ’وشوگرو‘تو کیاہم کینسر اوردوسری خطرناک بیماریوںکی افزائش کیلئے جانے اور پہچانے جائیںگے ،جو پریشانی و عذاب آلودگی کی وجہ سے اپنے جبڑے کھولے آہستہ آہستہ ہماری طرف بڑھ رہا ہے، ہمیں چبانے کیلئے بے قرار ہے،وقت رہتے اس سے بچنے کی صورت پیدا کی جائے۔ تقریریں، تحریریں، وعدے،قسمیں نہیں ، ہمیں عمل چائیے!!!
ہے اک دروازہ دروازے کے آگے
سفر در پیش رہتا ہے سفر میں
¡¡
Dr. Hanif Tarin
صدر’مرکزعالمی اردومجلس‘بٹلہ ہاؤس،جامعہ نگر،نئی دہلی25-
# : 9971730422, tarinhanif@gmail.com

 

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا