اقلیتوں پر ظلم ہندوستان کی پہچان ختم!
ممتاز احمد چودھری
بکوری جموں و کشمیر۔ (6006171443)
تاریخ گواہ ہے کہ ہندوستان کو دنیا کے چند امن پسند ملکوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ اور اس ملک کو دنیا کا سب سے بڑا جمہوری نظام والا ملک کرار دیا گیا ہے۔ اور ابھی بھی یہ کہنے میں کوئی ہچکاک نہیں کہ یہ ملک ابھی بھی اسی نام سے پکارا جاتا ہے۔ لیکن اب صرف یہ ایک نام ہے اور پکارا ہے۔ ہندوستان میں فرقہ پرستی عروج پر ہونا کی وجہ سے۔، مذہب کے نام پر سیاست ہونے سے، فرقہ پرست جماعتوں کے اقتدار میں آنے کی وجہ سے ملک کی اصلی پہچان اور تصور بالکل ختم ہوگئی ہے۔ اور یہاں اب اقلیتوں پر ظلم اور تشدد عام ہو گیا ہے۔ خاص کر بی جے پی۔ کے اقتدار میں آنے کے بعد ملک میں مسلمانوں سکھوں اور دیلتوں پر ظلم شروع ہونے لگا ہے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی۔ ویشوا ہندو پریشت۔ اور بہت ساری فرقہ پرست جماعتوں کی وجہ سے ملک میں امن چین اور سکونتی کا دن با دن نام و نشاں ختم ہوتا جا رہا ہے۔ جس طرح سے کشمیر کے اندر ظلم اور تشدد جاری ہے۔ اسی طرح سے دلی میں سکھوں پر ظلم اور ان مغربی ہندوستان میں مسلمانوں پر ظلم اور تشدد شروع ہو چکا ہے۔ ویسے تو یہ سلسلہ صدیوں سے شروع ہے لیکن پہلے ہندوستان میں امن چین بھرپور نظر آتا تھا۔ موجودہ وقت کی بات کریں تو کچھ دن پہلے دہلی کی سڑکوں پر ایک سکھ ڈرائیور اور اس کے بیٹے کو کھل عام مار پیٹ کی گئی۔اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ ان لوگوں کو پعلیےکی طرح سے تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ اور اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی موجودگی کے باوجود بھی پولیس نے انہیں گسھیٹ کر مارا اور کوئی ان کی درفیات کرنے بھی نہیں آیا۔ اور اسی طرح سے کچھ دن پہلے ایک مسلمان جوڑے کو مار پیٹ اور تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ جنہیں پیڑ کے ساتھ باندھ کر مارا گیا۔اور ان سے زور پر۔ جے شری رام کہنے کو کہا گیا۔ اگر اس طرح سے ملک میں یہ حالات چل رہے ہیں تو ظاہر سی بات ہے کہ ملک میں اقلیتوں یہی مسلمانوں سکھوں اور دیلتوں کا امن چین سے جینا بہت مشکل ہے۔ انسان کو اس کی دھرم کے بارے میں یہ کہا جائے کہ اپ سے کو چھوڑ دیں تو کیا وہ مانتے ہیں جی بلکل نہیں۔ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کی وجہ سے ملک میں اقلیتوں کے لئے خطرے کی گھنٹی بج چکی تھی لیکن اب بس یہ باقی تھا کہ کس طرح سے ان لوگوں پر ظلم اور تشدد ہوتا ہے۔ انسانیت کو اس دن بہت زیادہ نقصان اور ٹھنیس پہونچی جب ایک مسلمان نوجوان کو زبردستی جے شری رام بولنے کے لیئے کہا گیا۔: تبریز انصاری جو جی شری رام زور سے کہلانا صرف ایک انسانی شرمندگی ہی نہیں تھی لیکن ایک وہ افسوس ناک واقع تھا جس سے ہندوستان کے آئن کو بھی بہت بڑا نقصان پہنچا کیونکہ ہندوستان کے آعیئن میں یہ لکھا گیا ہے کہ کسی بھی شہری کو آپ زور لگا کر کچھ بھی نہیں کہلا سکتے یعنی ہر ایک کو برابر کا حق ہے وہ اپنی مرضی کی زندگی جی سکتا ہے۔ اور بھارت ماتا کی جی اور جے شری رام "یہ دونوں نعرے ہندوستان کے کانون میں کسی بھی جگہ نہیں لکھے گے اور نہ ہی انہیں قومی نعرہ کہا گیا ہے۔
اب تبریز انصاری کو ان نعروں کو پکارنے کے لئے مجبور کرنا ایک ظاہر سی بات ہے کہ ہندوستان کے قانون کے خلاف ہے لیکن ان لوگوں کے سامنے قانون کی کوئی عزت ہی نہیں۔ یہ سب کچھ اس بچارے تبریز انصاری نے سہہ کر۔ ان لوگوں سے مار کھا کر ظلم اور تشدد کا نشانہ بن کر بھی آخر موت کا منہ دیکھنا پڑا۔اس بچارے کو اتنا زور سے مارا گیا کہ۔ زخموں سے نجات نہ پانے کے بعد وہ اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ ان دریندون نے ملک کی نہ صرف پہچان کو بھی خراب کیا۔ اسی بات کا زکر گانگرس کے سئنیر لیڈر جناب غلام نبی آزاد نے بھی کیا ہندوستان کی پارلیمنٹ میں اور کہا کہ ہمیں کوئی ضرورت نہیں اس نئے ہندوستان کی ہمیں وہی اپنا پہلا قدم ہندوستان ہی چاہیے جس میں اگر ہندو کو کانٹا چبتا تھا اور درد مسلمانوں کو ہوتا تھا۔ اگر سکھ کا کوئی۔ مسلہ ہوتا تھا تو سب برابر کے شریک ہوتے تھے۔ اور یہ بات بھی ہے کہ اس طرح کے ڈیجیٹل بھارت کو بھلے ہی کیا کرنا جس میں آپسی بھائی چارہ نہ ہو انسان انسان کا دشمن ہو ایک دوسرے کو ظلم اور تشدد کا شکار کریں۔ اسی وجہ سے ہم دن با دن پیچھے بھی جا رہیے ہیں۔ رام کے نام پر ظلم کرنا اور مندر مسجد پر سیاست کرنا یقینی طور پر ناقابل برداشت ہے اور اس وجہ سے ینی گندی سیاست کی وجہ سے لوگوں کے بیچ ایک خطرہ پیدا ہے انسان انسان سے ڈرتا ہے اور سیاست کرنے والوں نے اس مقام پر چھوڑ دیا ہے کہ جہاں انسان کے اندر جانور کا ڈر کم اور انسان کا ڈر زیادہ ہے۔ اب یہ بات بھی ظاہر ہے کہ اس ملک میں جتنا کردار اور مقام ہندو لوگوں کا ہے اتنا ہی مسلمانوں کا ایک سکھوں کا بھی ہے۔ کیونکہ اسی دھرتی سے کلام،ابل کلام آزاد اور بہت سارے محبوب رہنما پیدا ہوئے ہیں۔جن نے ملک کا نام الگ الگ شعبہ میں روشن کیا ہے۔ اور اس لیے اس طرح کی باتیں کرنے والوں کو لاکھ بار سوچ لینا چاہیے۔ جو ہندوستان میں مسلمانوں سکھوں اور دیلتوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ کہ اس ملک میں ہر ایک کا برابر کا خق ہے۔ اور اگر اس بات پر پابندی عائد نہیں ہوتی یعنی اقلیتوں پر ظلم پر تو یقیناً اس ملک میں اقلیتوں کا مستقبل اندھیرے میں لگتا ہے۔ جس طرح سے آر ایس ایس اور بی جے پی کی کوشش جاری ہیں۔ اس طرح سے ہندوستان اسرائیل اور برما۔ جرمنی سے ظلم تشدد میں آگے نکل جائے اس بات میں کوئی شک نہیں۔بٹوارے کے دوران اس ملک میں رہنے والے مسلمانوں نے محمد علی جناح کی مسلم اسلامیہ اسٹیٹ کو نہیں اپنایا اور ہندوستان کو بہتر ملک سمجھا پاکستان سے اور بھائی چارے والے ملک میں رہنا پسند کیا۔ اور اس بات کو لے کر ڈاکٹر راحت اندورنی فرماتے ہیں:-
جو آج صاحب ِمسند ہیں وہ کل نہیں ہوں گے۔
کرائے دار ہیں زاتی مکان تھوڑی ہے۔
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں۔
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے۔