یادوں کے ستم

0
0

غلام علی اخضرانڈیا
gaobaidi@gmail.com
گزرے ہوئے دن میں کیا ہواتھا ؛اسے میں نے بالکل بھلادیاتھا کہ پھر آج ایک دوست کے سوال نے مجھے رلادیا۔”آپ نے لکھنا کیسے سیکھا؟“میں نے جواب دیا:ابھی سیکھانہیں ہے، سیکھ رہا ہوںہاں! میں نے خود حالات سے لکھنا سیکھاہےزیادہ تر زندگی کا حصہ میں نے ماما کے پاس گزارا۔۔کیوں کہ وہ مجھے پچپن سے ہی بہت چاہتے تھے اور مجھے بھی ان سے بہت لگاﺅتھا۔ شاید میری عمر 6سال کی ہوگی تب سے میں ماما کے پاس ہی رہتا تھا ۔گھر کبھی دو سال تین میں ایک دو روز کے لیے یازیادہ سے زیادہ پانچ روز کے لیے آجایا کرتا تھاجب میںعمرکے 17برس کو پہنچاممی کی طبیعت خراب ہوگئی اور یہ طبیعت کاخراب ہو نا،ان کا ہم سب سے جدائیگی کا سبب بن گیا گھر میں چھوٹا ہونے کی وجہ سے بھائی کی محبت۔ بہنوں کی مستی بھری شرارت،زبر دستی بٹھا کے بالوں کو دیکھنا۔جب کہتا کہ میرے سر میں جوں نہیں ہے تو کہتی اچھا سر دکھاﺅ ؛ابھی دکھاتی ہوں….. وہ اپنے سر سے نکال کر خود میرے سر پر رکھ کر پھر ہاتھوں میں دے کر کہتی دیکھو چھوٹے میاں!بڑی صفائی دے رہے تھےمیں ہار جاتا،مگر ان دنون کی ہار میں مجھے معلوم نہیں تھا کہ بہنوں کے لیے بے پناہ مسرت و شادمانی چھپی ہےجب عقل مند ہوا اوربہنیں دور ہوگئیں ،تب جانا کی بہنوں کی محبت میں کیا جادو ہے،ان کی شوخی میں کیسی محبت چھپی ہوتی تھی۔اے کاش! وہ دن پھر لوٹ آتے پھر بہن پکڑکے اپنے بانہوں میں دباکر ، زبردستی بٹھاتی اور میرے منھ سے :ہوںہوںہوں! کی آواز نکلتی رہتی ۔ اوربہنوں کے موتی کے مانند چمکنے والے دات پردئے خفاسے عریاں ہوجاتےمیں اٹھ کے بھاگتا ۔وہ دوڑکے پکڑتییوں ہی زندگی گزرتیایسی داستاں بنتیاے کاش کہ ایسی زندگی ہوتی۔
ممی نے جس دن اس دار فانی کو الوداع کہا ،اس دن میرے سر پر ہی سب کی ذے داری آگئی، کیوں کہ بڑے بھائی گھر پر نہیں تھےابو جان ممی کی جدائی کے صدمے سے ناگفتہ بہ حالات میں مبتلا تھےبڑی بہن کا رو رو کر بے حال ہونا،اس سے چھوٹی بہن کا بار بار غش کھا کر بے ہوش ہونا پھر بار بار ان کے چہرے پر پانی مار کر ہوش میں لانا میرے لیے ایک عجیب لمحہ تھا کبھی بڑی بہن کو گردن پر سہارا دے کر ان کے بکھرے بالوں کو سنبھالتے ہوئے ؛ان کو سمجھاتا،تو کبھی دوڑکر دوسری بہن کے ہاتھوں کو تھام کر چہرے پر بکھرے بالوں کو سنبھالتے ہوئے ان کے آنکھوں سے بہتے آنسوو¿ں کو روکنے کی کوشش کرنانانی کابار بارشکوہ کلام کرنا”اے خدا!میں بوڑھی ہوچکی ہوں ،تومجھے اٹھالیتا“چھوٹی خالہ کی حالت بے قابوہوجانا،رونے کی آواز اور سینے پر ہاتھ مارنے کی وجہ سے بار بار چوڑیوں کے ٹوٹنے کی آواز کانوں میں آکر دل کے ہرہر وادی کو غم والم کی زخم سے لہولہوکردیناآہ یہ قیامت سوزلمحہمگر کسے معلوم تھا کہ تھوڑی تھوڑی بات پر رودینے والالڑکا آج ایک سنگ دل نکلے گا شاید اس دن بہنوں کی شرارت بھری محبت کا قرض ادا کرنے کے لیے رب نے ٹوٹے دل کے پیر کو پھسلنے نہ دیامگر میرے اندرکا حال میں ہی جانتا تھا
بالٹی میںپانی بھررہا تھا کہ چچا نے آوازدی۔گلفام!کفن کہاں ہے۔ جلدلاﺅ! اب کیا تھا کہ میرے پاﺅں میں ایک عجیب سی تھرتھراہٹ کی کیفیت پیدا ہوگئی اور لب ہلتے ہوےکیا اب امی جدا ہوجائیں گی؟کیا وہ اب کبھی لوٹ کر نہیں آئیں گی؟نہیں ،نہیں! امی ہم سے جدا نہیں ہوںگی،ابھی تو چھوٹی بہن کے ہاتھوں میں مہندی لگتے انھیں دیکھنا ہےابھی تو انھیں اپنی پیاری دلاری بیٹی کو آسمانی، زعفرانی،گلابی،رنگ برنگ چوریوں کی کھنک ،پایلوں کی جھنکاراور لال موتی سے بنی بنارسی ساڑی میں گھر سے دلہن بناکر وداعی کرنا ہے نہیں،نہیں، ممی کہیں نہیں جائیں گیاتنے میں پھر،گلفام! کفن کہاںہےآنکھوں سے آنسوﺅں کو پوچھ کر کفن ہاتھوں میں لاکر ،ہاں!چچا لایاماں بہن کو کو کیا دلہن بناتی آج خود سفیدکفن میں دلہن بن کر ایک بڑی جماعت کے کانڈھوں پر خاموش اب لوٹ کے گھر نہ آنے کی تیاری میں تھیوہ ماں جو خود بھوکے رہ کر بچوں کو کھلاتی پلاتی رہی ،جو ذراسی بھی بچوں کے رونے پر بے چین ہوجاتی تھی آج نہ جانے وہ اس آہ وفغاںکے ماحول میں،جس میںسنگ سے سنگ دل تڑپ اٹھے بالکل کیسے خاموش تھی
جب آنگن سے دلیچہ اٹھنے لگاآہ!بہنوں کو سنبھالنا مشکل ہوگیاوہ دوڑ دوڑ کے بھیڑ میں آجاتیں اور کہتیں امی کہیں نہیں جائیں گی،کہاں امی کو آپ لوگ لے کے جارہے ہیںتبھی دوڑی چچیاں آئیں اور بہنوں کو سنبھالا۔
جنازہ پڑھنے کے وقت والد سے اجازت نہ لے کرمجھ سے لی گئیقبر میں اتارتے وقت بھی مجھ سے ہی اجازت لی گئی مٹی مکمل ہونے کے بعد قرآن کی تلاوت اور دعائے مغفرت ہوئیسب گھر لوٹےمیں امی کے قبرکے قریب ادب سے جاکر کھڑا ہوا ور کہا :
آپ تو بہت ساری داستانیں سنانے والی تھیں،مگر آپ ہار گئیںہم تو سننے کے لیے بے قرار ہیںآپ ہی سوگئی داستاں کہتے کہتےاس کے بعد گھر واپس آیا
ممی کے انتقال کے ۲مہینے بعد چھوٹی بہن کی بھی شادی ہوگئی ،اب گھر سونا ،سونا ہوگیاابو جان ہر وقت کھوئے کھوئے سے، آنکھوں میں ٹوٹے خوابوں کے آنسوں لیے مایوس بیٹھے رہتے۔ میں ان کو سمجھاتا کہ بس ممی کو اتنی ہی زندگی ملی تھی اس میں ان کا کیا قصور ہے اور پھر ایک روز تو سبھی کو یہ دنیا چھوڑ دینا ہےاب سبھی کے درد کی دوا میں ہی تھااور میرے لیے کوئی گھر میں ایسا نہیں تھا جن کو میں اپنا درد سنا تاکہ اندر کا بوجھ کچھ ہلکا ہوتا۔ہر بار اپنے درد کے گلے کو گھونٹ کر بہنوں کی اور باباجان کے درد کا سہارا بنتا اب میرے لیے قلم ہی رہ گیا تھاجس کے سہارے میں اپنے دل کو مناتا؛ان حالات نے ہی ہمیں قلم پکڑنے کو سکھایااے کاش!ساری حدیں توڑ کے تو لوٹ آتی، تیری آنچل کی پھرٹھنڈی ہواہوتی اور میں چین کی نیندسوتا۔ماں تیری یادیں تیری باتیں بہت ستاتی ہیں۔۔۔

 

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا