غلام نبی کمار
معاون مدیر ادب نامہ لازوال
7053562468
ڈاکٹر صالحہ رشید کی کتاب” پروفیسر اسلم جمشیدپوری اردو افسانے کی ایک منفرد آواز“ آج کل ادبی حلقوں میں خاصی موضوعِ بحث بن رہی ہے۔اسلم جمشیدپوری موجودہ عہد میں یقینا اردو افسانے کی ایک معتبر اور منفرد آوازکہے جا سکتے ہیں اورہمیں یہ ماننے یا کہنے میں کوئی تامل بھی نہیں ہے کہ اسلم جمشیدپوری کا شمار عہدِ حاضر کے چند اہم فکشن نگاروں میں ہوتا ہے۔اسلم جمشیدپوری کی پچھلی چار دہائیوں سے افسانوی تخلیقات شائع ہوتی آرہی ہیں۔اس عرصے میں انھوں نے اردو افسانے کا دامن کبھی نہیں چھوڑا،موصوف گاہے بگاہے افسانے تخلیق کرتے رہے ہیں۔معاصر افسانہ کی افزائش میں اسلم جمشیدپوری کے کردار کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ان کے اب تک چارافسانوی مجموعے شائع ہوچکے ہیں ۔جن میں ”افق کی مسکراہٹ“(1997)،”لینڈرا“(2009)، ”کہانی محل“(2012) اور”عید گاہ سے واپسی“ (2015) قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی ہندی کہانیوں کا ایک مجموعہ”جاگتی آنکھوں کا خواب“بھی شائع ہوچکا ہے۔مزید برآں بچوں کے حوالے سے بھی ان کی کہانیوں کے دو مجموعے”ممتا کی آواز“ اور ”عقلمند لڑکا“ منظرعام پر آچکے ہیں۔اس سے اسلم جمشیدپوی کی پوری افسانوی کائنات ا ور تخلیقی جہات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔چار سال قبل اسلم جمشید پوری کا آخری مجموعہ شائع ہوا تھا، تب سے آج تک موصوف مسلسل اردو کی افسانوی فصل کی نہ صرف نشو و نما کر رہے ہیں بلکہ اس کی سینچائی اپنے خونِ جگر سے کر رہے ہیں۔اس لیے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اسلم جمشیدپوری اردو کے نمائندہ افسانہ نگاروں میں ایک معتبر نام ہے جن کا ذکر کیے بغیر اردو افسانے کی تاریخ نامکمل ہوگی۔
ڈاکٹر صالحہ رشید کی کتاب ڈاکٹر اسلم جمشیدپوری کی شخصیت اور فن پر یہ پہلی مو¿قر تصنیف ہے جو بے حد تزک و اہتمام کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔صالحہ رشید الہ آباد یونی ورسٹی کے شعبہ عربی و فارسی کی صدر ہیں۔اس کے علاوہ موصوفہ ایک بہت سنجیدہ قلم کار،افسانہ نگار، ناقداوراستاذ ہیں۔ہم عصر خواتین قلم کاروں میں انھوں نے اپنی قابلیت اور صلاحیت کے دم پر اپنی ایک منفرد شناخت قائم کی ہے۔تدریسی شعبے سے وابستگی کے باوجود قلم وقرطاس سے ان کی محبت ازلی و خاندانی ہے۔ان کی کئی اہم تصانیف بھی شائع ہوچکی ہیں۔عربی و فارسی میں مہارت رکھنے کے علاوہ اردو زبان کے ساتھ بھی بہت شغف رکھتی ہیں۔ ڈاکٹر صالحہ رشید عربی و فارسی اور اردو شعرا و افسانہ نگاروں کے تقابلی مطالعہ میںخاص دلچسپی رکھتی ہیں۔”اسلم جمشیدپوری اردو افسانے کی ایک منفرد آواز“اس کی ایک اہم مثال ہے۔ ایک سوپچھہتر صفحات پر مشتمل اس کتاب کومختلف عنوانات کے تحت تکمیل تک پہنچایا گیا ہے۔
ڈاکٹر صالحہ رشید نے اس کتاب کے پیش لفظ میںپروفیسر اسلم جمشیدپوری کی شہرت و مقبولیت، ان کی تخلیقی ہنرمندی،موصوف سے شناسائی،کتاب کے وجود کا محرک،افسانوی موضوعات اور اس سے متعلق چند اہم معلوماتی باتیں کرنے کے علاوہ”لینڈرا“ کے بھید اور اس کے ذریعے پیدا ہونے والے تجسس کا ذکر کیا ہے۔اس کتاب کے وجود کا مرکزی محور بھی”لینڈرا“ہی ہے۔”لینڈرا“کا بھید جاننے کے لیے صالحہ رشید کو جو جستجو کرنی پڑی،اس کتاب میں اس کا تفصیلی ذکر ملتا ہے۔دراصل اسلم جمشیدپوری کے ایک افسانوی مجموعے کا نام ہی”لینڈرا“ہے ۔اس میں شامل ایک افسا نے کا عنوان بھی یہی ہے۔مجموعے کے سرنامے پر”لینڈرا‘کے عنوان نے صالحہ رشید کو اُکسایا۔ ”لینڈرا“ لفظ کے معنی و مفہوم کی جستجو نے انھیں افسانہ پڑھنے پر مجبور کیا۔”لینڈرا“ کابھید جاننے کے بعدان کے دماغ نے ایک موضوع کو جنم دیا۔جو اس کتاب کی شکل میں ہم سب کے سامنے موجود ہے۔پیش لفظ کے بعد”وہ پانچ دن“کے عنوان سے موصوفہ نے چودھری چرن سنگھ یونی ورسٹی کے شعبہ¿ اردو کے زیر اہتمام منعقدہ پانچ روزہ ورکشاپ میں شرکت کی پوری روداد لکھی ہے۔جو24 اپریل تا 28 اپریل2015 کو منعقد کیا گیا تھا۔اس میں اسلم جمشیدپوری کی انتظامی صلاحیتوں کو سراہا گیا ہے۔تمہیدی گفتگو کے بعد ”اسلم جمشیدپوری کے افسانوں کے فکری و فنی امتیازات“نو صفحات میں بیان کیے گئے ہیں۔اپنی تحریر میں صالحہ رشید نے اسلم جمشیدپوری کے افسانوں میں پوشیدہ مختلف النوع خوبیوں کی نشاندہی کی ہے۔انھوں نے لکھا ہے کہ موصوف کے افسانوں کا سحر قاری کے ذہن پر اس قدر اپنی سحر انگیزی کا جلوہ بکھیرتا ہے کہ وہ پورا افسانہ پڑھے بغیر اس کے سحر سے نکل نہیں پاتا۔
اسلم جمشیدپوری کے افسانوں کا ایک خاص وصف جو ہر فکشن کے قاری کے لیے جاننا ضروری ہوجاتا ہے ، وہ یہ ہے کہ اسلم جمشیدپوری پریم چند کی افسانوی روایت کے پاسدار نظر آتے ہیں۔یا یوںکہیں کہ ایک طرح سے انھوں نے پریم چند کی روایت کو تسلسل بخشا ہے اور اسے ایک نئی توانائی اور نئی جدید خوبیوں سے ہم آہنگ کرکے قاری تک پہنچایا ہے۔صالحہ رشید کے مطابق” اسلم جمشیدپوری کا افسانہ”عید گاہ سے واپسی“ قدیم روایت کا تسلسل ہے جو معنی خیز ہے اور ایک نئے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔یہ ان کی تاریخی حِس، ادبی ذوق اور تجربہ پسند مزاج کا عکاس ہے۔“صالحہ رشید نے جہاں اسلم جمشیدپوری کی کہانیوں کے حیرت زدہ و متجسس عنوانات کی طرف اشار ہ کیا ہے، تو وہیں ان کے افسانوں میں برتے گئے دیہی موضوعات اور مثالی کرداروں کا بھی حوالہ دیا ہے۔اس ضمن میں انھوں نے افسانہ ”لمبا آدمی“، ”عید گاہ سے واپسی“، ”شبراتی“، ”لینڈرا“، ”بدلتا ہے رنگ آسماں “، ”پانی اور پیاس“وغیرہ افسانوں کے فنی و فکری وصف کو نمایاں کرنے کی سعی ہے۔موصوفہ نے اس حصے میںاسلم جمشیدپوری کے بیانیہ، اچھوتے موضوعات، تکنیک اور اہم کردارں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
وہ کون سی بات تھی جو ڈاکٹر صالحہ رشید کی اس تصنیف کی توجہ کا مرکز بنی، جی ہاں! وہ اسلم جمشیدپوری کا مقبولِ عام افسانہ”لینڈرا“ ہے۔جس نے موصوفہ کے تجسس کو کتاب میں ڈھالنے کا کام کیا۔افسانہ” لینڈرا“ کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد موصوفہ نے اسے اپنی یونی ورسٹی کے فارسی نصاب میں شامل جلال آل احمد کے افسانہ” بچہ مردم“ سے تقابل کر کے دیکھا تو پا یا کہ دونوں کے موضوع میں کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی سطح پر ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔انہی دو افسانوں کے تقابلی مطالعہ سے یہ کتاب تصنیف کرنے کی وجہ بنی ہے۔موصوفہ نے اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے کہ ڈاکٹر اسلم جمشیدپوری کے اس خصوصی وصف نے انھیں ان کی دیگر تخلیقات کی طرف بھی متوجہ کیا ، بالآخر مجموعی مطالعے اور موصوف افسانہ نگار کی تمام تخلیقات اور کتابوں کا بالاستیعاب جائزہ لینے کے بعد حاصل شدہ معلومات سے ”اسلم جمشیدپوری: اردو افسانے کی ایک منفرد آواز“کا نیتجہ سامنے آیا۔”لینڈرا۔۔یعنی چہ“ میں صالحہ رشید نے لکھا ہے کہ کیسے وہ اس افسانے کی مرکزی مفہوم سے آشنا ہوئی اور اس کا خصوصی وصف کیا ہے۔پھر انھوں نے ”لینڈرا اور بچہ مردم: اصطلاحی اور موضوعاتی نقطہ نظر“ کے عنوان سے اپنی تحریر میں دونوں افسانوں کا تقابلی مطالعہ کیا ہے۔یہ حصہ اس کتاب کا بنیادی اور مرکزی محور قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس حصے میں صالحہ رشید نے سب سے پہلے ان دونوں افسانوں کے خالق اسلم جمشیدپوری اور جلال آل احمد کا سوانحی تعارف پیش کیا ہے۔پہلے جلال آل احمد کا تعارف،سوانح اوران کی تخلیق کردہ کتابوں پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ پھر اسلم جمشیدپوری کی سوانح، شخصیت اور فن کا جائزہ لیا گیا ہے۔اس حصے میں موصوفہ نے ڈاکٹر آصف علی اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو چودھری چرن سنگھ یونی ورسٹی کا اسلم جمشیدپوری کے تعلق سے تیرہ صفحات کا لکھا گیا پورا سوانحی مضمون حوالے کے ساتھ شامل کر لیا ہے۔ترتیب سے تو واقف ہوں ،چنانچہ تصنیف میں اس طرح کسی کا مضمون شامل کیا جا سکتا ہے یا نہیں، اس اصول سے راقم ابھی نابلد ہے۔ آصف علی کا مضمون پروفیسر اسلم جمشیدپوری کی پوری ادبی جہات،تخلیقی خدمات اور سرگرمیوں کا پتہ دیتا ہے۔ ڈاکٹر صالحہ رشید نے کتاب کے اس باب میں جلال آل احمد کے افسانہ”بچہ مردم“ اور اسلم جمشیدپوری کے افسانہ”لینڈرا“ کا بڑے عمیق انداز میں تجزیہ کیا ہے۔ انھوں نے ان دونوں قابلِ ذکر افسانوں کے موضوع اور کرداروں کا جس خوبی سے محاکمہ کیا ہے وہ قابل تحسین ہے۔ایک طرف اردو کا افسانہ اور وہیں دوسری طرف فارسی کے مشہور افسانہ نگار کا افسانہ۔یقینا دونوں کے تجزیے میں موصوفہ کی تنقیدی بصیرت کی داد دینی پڑتی ہے۔ڈاکٹر صالحہ ررشید نے دونوں افسانہ نگاروں کی سن پیدائش اور تخلیق کی سن اشاعت کی زمانی و مکانی وضاحت بھی عمدہ انداز میں کر دی ہے جس سے قاری کے ذہن میںچربے یا سرقے کا شک و شبہ دور ہوجاتا ہے۔
قارئین یہ سوچتے ہوں گے کہ یہ ”لینڈرا“آخر کار چیز کیا ہے۔آئیے اب یہاں پر ہم بھی اس عنوان سے پردہ اُٹھاتے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس تصنیف سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ لینڈرا کوئی عجیب شئے نہیں ہے، کوئی عجوبہ نہیں ہے، کوئی نامانوس چیز نہیں ہے اور نہ ہی کو ئی جانور ہے۔ بلکہ لینڈرا ہماری ہی طرح ایک جیتا جاگتا انسان ہے جس کی دو آنکھیں ہیں، دو کان ہیں، ایک ناک ہے، جو سینے میں ایک دل رکھتا ہے، جو ہماری طرح دھڑکتا ہے، ہاتھ پیر کابھلا چنگا، شریف النفس، سادہ لوح، ایک ماں کا شہزادہ،لیکن باپ کی شفقت سے محروم ۔چونکہ اس کا باپ اس وقت مر گیا تھا جب اس کی عمر محض پانچ سال تھی۔ اس کا اصل نام فقیر محمد تھا جو لینڈرا نام سے مشہور ہوگیا تھا۔یہاں پر اس بات پردہ اٹھ جاتا ہے کہ دراصل لینڈرا اس بچے کو کہتے ہیں جس کا باپ مرچکا ہوتا ہے اور جو اپنی ماں کی دوسری شادی کرنے پر اس کے ساتھ سسرال چلا جاتا ہے۔فقیر محمد کو گاو¿ں والوں نے لینڈرا نام دیا تھا۔دس سال کی عمر سے پچاس سال کی عمر تک وہ اسی نام کے ساتھ جیتا ہے۔لوگ اس کو احمق سمجھتے ہیں اور حقیر نظر سے دیکھتے ہیں۔فقیرمحمد سب کچھ سمجھتاتھامگر بے چاراکیا کرتا،وہ مجبور و لاغر تھا، لوگ اس سے اپنے مطلب کے کام کراتے، عورتیں اس کو ہم جنس سمجھتیں،لیکن افسانے کے آخر میں جو تجسس قائم کیا گیا ہے وہ اسے کامیابی سے ہمکنار کراتا ہے۔لینڈرا کا مرکزی کرار”لینڈرا“ہی ہے،پوری کہانی اسی کے ارد گردگھومتی ہے۔
اسی طرح جلال آل احمد کا افسانہ”بچہ مردم“ بھی بہت اہم ہے۔اس افسانے میں عورت کو موضوع بنایا گیا ہے۔جلال آل احمد نے بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں افسانے لکھنے شروع کیے۔ عورت ان کے بیشتر افسانوں کی مرکزی کردار رہی ہے۔اسلم جمشیدپوری کے افسانے میں عورت کی دوسری شادی ہوتی ہے لیکن اس کے دوسرے شوہرکو پہلے شوہر سے پیدابچہ قبول ہوتا ہے۔لیکن یہاں اس کے بالکل برعکس ہے۔” بچہ مردم“ میں ایک ایسی عورت کی زندگی کی داستان بیان کی گئی ہے جس کی دوسری شادی ہوتی ہے اور جو پہلے شوہر سے اس کا پیدا بچہ قبول نہیں کرتا۔اس افسانے کی عورت دوسری شادی کے لیے اس بچے کو بھیڑ میں چھوڑ آتی ہے۔یہاں پر عورت خوشحال زندگی کے لیے اپنی ممتا کا گھلا گھونٹ دیتی ہے۔بقول صالحہ رشید”وہ ایک ایسے سماج میں زندہ ہے جہاں یہ باور کرایا جاتا ہے کہ بچہ پالنے کے لیے عورت کو ایک مرد کی ضرورت ہوتی ہے۔اضافے کے طور پر وہ خود کو ناقص العقل بھی تسلیم کرتی ہے۔“ان دونوں افسانوں کا پلاٹ اب قاری کی سمجھ میں آیا ہوگا۔
اس کتاب میں ڈاکٹر صالحہ رشید نے اسلم جمشیدپوری کا افسانہ”لینڈرا“اورجلال آل احمد کا افسانہ”بچہ مردم“بھی شائع کیا ہے۔”بچہ مردم“جو فارسی زبان میں ہے،کا فارسی متن کے ساتھ الگ سے اردو زبان میں ترجمہ بھی کیا گیا ہے۔جو اس کتاب کی خوبی بڑھاتا ہے۔اس طرح قاری بیک وقت دونوں افسانوں کا مطالعہ کرسکتا ہے اور پھر تجزیاتی خوبی کے بل بوتے پر نتیجہ بھی نکال سکتا ہے۔اس کتاب کا اگلا حصہ”منٹو کے ہمعصرچند فارسی افسانہ نگار“پر مشتمل ہے جو کتاب کے موضوع سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا۔اس لیے اس موضوع کو شامل کرنے کی وجہ سمجھ نہیں آئی۔اس کے بعد اسلم جمشیدپوری کا افسانہ ”نادان“ اور اس کا تجزیہ بعنوان”عورت کے لطیف جذبات کا فنکارانہ بیان:نادان“ شامل کیا گیا ہے۔اس کتاب میں”منیمال:اردو افسانچہ کا ہمزاد“کے موضوع کے تحت فارسی زبان کے مختلف افسانچہ نگاروںکے افسانچے فارسی اور اردو زبان کے ترجمے کے ساتھ شائع کیے گئے ہیں۔کتاب کا آخری حصہ یعنی آخری با ب”اردو فکشن کے پانچ رنگ:ایک عمومی جائزہ“ پر مشتمل ہے۔”اردو فکشن کے پانچ رنگ“پروفیسر اسلم جمشیدپوری کی تازہ تصنیف ہے جس کا صالحہ رشید نے اچھا جائزہ لیا ہے۔
ڈاکٹر صالحہ رشید کی کتاب”اسلم جمشیدپوری:اردو افسانے کی ایک منفرد آواز“مجموعی طور پر اسلم جمشیدپوری کی افسانہ نگاری کی خوبیوں کو نمایاں کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ظاہر ہے صالحہ رشید نے ایک مقصد اور موضوع کو مدِ نظر رکھ کر یہ کتاب لکھی ہے ۔اس لیے اس میں اسلم جمشیدپوری کے تمام افسانوی مجموعوں یا کہانیوں کا جائزہ لینا ممکن نہ تھا۔جس موضوع کو تحت موصوفہ نے یہ کتاب لکھی ہے اس میں وہ کامیاب بھی ہوئی ہے۔