انڈین سیاست میں بالی وڈ کا بڑھتا ہوا کردار

0
0

عسکریت پسندوں کی طرف سے کی جانے والی گولیوں کی بوچھاڑ کی زد میں آنے سے پہلے جھنڈا لہراتا ہوا طاقت ور آدمی کشمیر کے برفانی علاقے میں سپاہیوں اور دیگر لوگوں کی قیادت کرتا ہو آگے بڑھ رہا ہوتا ہے اور کہتا ہے ‘انڈیا دہشت سے خوفزدہ نہیں ہو گا۔ دہشت انڈیا سے خوفزدہ ہو گی۔’

یہ آدمی وزیراعظم نریندر سنگھ مودی کا کردار نبھا رہا ہے اور یہ ڈھائی منٹ کے فلم ٹریلر کا سب سے یادگار سین ہے جس نے آئندہ آنے والے انتخابات سے پہلے ملک میں سیاسی طوفان برپا کر دیا ہے۔

پی ایم نریندر مودی کہلانے والی یہ بایوپک انڈیا کے ہفتوں چلنے والے انتخابات سے چند دن پہلے یعنی پانچ اپریل کو ریلیز ہو گا۔ اس ٹریلر پر حزب اختلاف کانگریس کی طرف سے شدید ردِ عمل دیکھنے میں آیا ہے جو اسے حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے منسلک سیاسی اقدام کے طور پر دیکھتی ہے۔

پارٹی اس میں ملوث نہیں ہے لیکن فلم کے مرکزی اداکار وویک اوبرائے مودی کے جانے مانے حامی ہیں۔ مارچ کے شروع میں ٹریلر جاری کرنے کی تقریب کے دوران ایک سوال کے جواب میں وویک بی جے پی کا انتخاباتی نعرہ ‘مودی ہے تو ممکن ہے’ دہراتے نظر آئے۔

بی جے پی کے سنیئر سیاستدانوں نے بھی فلم کی پروموشن کے تقاریب میں شمولیت کی لیکن پی ایم نریندر مودی فلم کے پروڈیوسرز نے انڈیا کے الیکشن کمیشن کو بتایا کہ فلم بنانے کے لیے صرف ذاتی فنڈز استعمال کیے گئے۔ الیکشن کمیشن تحقیقات کر رہا ہے آیا کہ کسی قانون کی خلاف ورزی کی گئی یا نہیں۔

فلم کے پروڈیوسر اور مصنف سندیپ سنگھ نے ایک انٹرویو میں کہا کہ وہ انڈیا کے عوام کو متاثر کرنے کے لیے ایک عظیم انسان کی کہانی بتانا چاہتے تھے۔

انھوں نے بی بی سی کو مزید بتایا ‘میرا سیاست یا سیاستدانوں یا کسی پارٹی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اگر (حزب اختلاف جماعتیں) فلم سے اتنی ڈری ہوئی ہیں تو کیا انھیں اپنے کام پر اعتماد پر نہیں ہے جو انھوں نے اپنے ملک اور اپنی متعلقہ ریاستوں میں کیا ہے؟’

حالانکہ ابھی تک صرف ٹریلر جاری کیا گیا ہے مگر کچھ ناقدین پہلے سے ہی اس فلم کو واضع پروپیگنڈا کے طور پر لے رہے ہیں۔

ہندوستان ٹائمز اخبار کے فلم ناقد راجا سین کہتے ہیں ‘ٹائمنگ کافی مشکوک ہے۔ جنوری میں شوٹنگ شروع ہوئی اور اپریل میں فلم ریلیز ہو رہی ہے۔۔۔ ایسا لگتا ہے کہ انتخابات سے پہلے فلم کو ریلیز کر کے (مودی) کے امیج اور جو بھی امیج یہ فلم دکھا رہی ہے، پر پیسے بنانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔’

فلم پی ایم نریندر مودی انڈین وزیراعظم کی لڑکپن میں مقامی ریل گاڑیوں میں چائے بیچنے سے لے کر دائیں بازو کی جماعت ہندو آر ایس ایس آرگنائزیشن میں ان کے گزارے ہوئے وقت اور مغربی ریاست گجرات میں 13 سال بطور چیف منسٹر، ان کی کہانی بیان کرتی ہے۔

بی جے پی کی مقبولیت میں زیادہ کردار مودی کی شخصیت اور ان کے مضبوط ہندو قوم پرست رہنما ہونے کی وجہ سے ہے۔

کئی ناقدین کے لیے ٹریلر میں مودی کا سنہ 2002 میں گجرات میں ہونے والے فسادات پر پریشان دکھائی دینا سب سے زیادہ خفگی کا باعث بننے والا لمحہ تھا۔ ان فسادات میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی، پر ۔

فسادات مودی کی حکومت میں ہوئے اور ان پر فسادات روکنے کی زیادہ کوشش نہ کرنے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔ ایک وقت تھا جب وہ مغرب میں اتنے مقبول نہیں تھے اور گجرات میں رونما ہونے والے واقعات کی وجہ سے انھیں امریکہ کا ویزا نہ مل سکا۔

68 سالہ انڈین وزیراعظم نے ہمیشہ ظلم و ستم کے الزامات کو مسترد کیا ہے۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا