2019ءکا الیکشن فلو

0
0

” دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا۔“
صارم اقبال رائیار دودھ پتھری بڈگام
ہندوستان میں ۹۲ ریاستوں اور وفاق کے زیر اہتمام سات علاقوں پر مشتمل وفاق ہے۔ان تمام ریاستوں میں اگرچہ پچھلے ۴۱۰۲ ئ کے لوک سبھا انتخاب میں سیاسی جماعت بی جے پی نے ۳۴۵ نشتوں میں سے ۲۸۲ نشستیں حاصل کر کے بھاری جیت درج کی تھی۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی اگر بات کریں تو اس ملک کے بڑے دیش میں کبھی مذہب،کبھی اچھے دن،کبھی وکاس کے نام پر سیاسی حربے استمعال کر کے نریندر مودی نے اپنے تمام سابقہ سیاسی چال و چلن کو بروئے کار لا کر سیاست میں اپنا دبدبہ کافی حد تک قائم رکھا۔ ملک میں مذہبی انتہا پسندی پھیلانے کا نعرہ دے کر لڑا گیا۔ ملک ہندوستان میں جس وقت کا بے صبری سے انتظار تھا وہ وہ وقت تھا وہ اب ہندوستانی عوام کے سامنے ہے۔حالیہ دنوں میں جب الیکشن کمیشن نے ملک میں مرحلہ وار لوک سبھا انتخابات کا اعلان ہوتے ہی سیاسی جماعتوں نے اپنا قیمتی وقت عوام کو اپنے اور جماعت کی طرف راغب کر رہیے ہیں۔ملک میں الیکشن میں کودینے والی جماعتوں میں سب کی نظریں اب بے جے پی اور کانگریس جماعتوں کی طرف جڑی ہوئی ہیں جو دونوں جماعتیں اپنی انتخابی مہم عواموی حلقوں کے سامنے آنے کا سلسلہ قائم رکھا کہ اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ ملک میں عوام سکیو لر سوچ کے حامل ہے یا عوام پھر وہی چاہتے ہیں جو سابقہ الیکشن میں بی جے پی کے کھاتے میں ووٹ دیے تھے۔بی جے اور گانگریس جیسی بڑی ملک میں سیاسی پارٹیاں انتخابات کے حوالے سے اپنی پارٹی کے منشور کو عوام کے سامنے لانے کی تیاری میں مصروف عمل دکھائی دے رہیے ہیں۔ملک میں کوئی چوکیدار کا کردار ادا کرنے کی بات کرتا وے تو کوئی چوکیدار پر تبصرے کر کے عوام کو حقایق سے روشناس کرانے کی بات کرتا ہے۔
ہندوستان میںاگرچہ مسلمان مختلف اوقات میں ایک فیصلہ کن مقامات پر کھڑے ہو کر حالاتوں کو بدلنے کا مظاہرہ کیا۔ تاہم ۹۱۰۲ء کے لوک سبھا انتخاب کی بات کریں تو اس وقت مسلمانوں کے خلاف ہر روز نئی سازش کا جال بچھایا جا رہا ہے۔ اگرچہ ملک میں ۴۱۰۲ءکے لوک سبھا انتخابات میں ایک طرف مسلمانوں کو ترقی کی راہ سے بے دخل کرنے کی سازش کی گئی تو دوسری طرف ملک میں مذہبی انہا پسندی کر فروغ دیا گیا۔ ملک میں وندے ماترم،سوریہ نمسکار کے جیسے موضوعات کو ہوا دے کر اپنی سیاست چمکانے کی نا کام سعی کی گئی۔مسلمانوں کو کبھی اورنگ زیب،کبھی ٹیپو سلطان،کبھی علاو الدین خلجی ،کبھی تاج محل کبھی بابری مسجد کا سانحات جیسے موضات کوہوا دے کر مسلمانوں کے صبر کا امتحان لیا گیا۔بے جے پی نے اپنی نیام میں تمام تلواروں کے وار کئے تا کہ بی جے پی ایک طویل عرصے تک ملک میں حکمرانی کر سکے۔ فیض آباد کا نام ایودھیا اور آلہ آباد کا نام پریا گھاٹ رکھنا جیسے قیصلے صادر کرنا، ایودھیا کی متنازع زمین پر مندر تعمیر کرنے کے نعرے لگانا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ آینندہ الیکشن میں مسلمانوں نے ایک جھٹ ہو کر ان تمام سیاسی افکار و نظریات مسلم مخالف کے خلاف ووٹ دینا ہے۔ موجودہ دور میں مسلمان ملک میں خوف و حراس میں مبتلا ہیں ان سب عوامل کے خلاف متحد ہو کر آیندہ لایہ عمل طے کرنا ہے تاکہ مسلم قوم اپنے عزت و وقار قائم رہ سکے۔ گزشتہ حکومت کے دور میں مسلمانوں کو ذہنوں کو ایسے غیر ضروری کاموں میں الجھایا گیا کہ ان کے لئے آنے والا کل کے بارے میں خدشات پیدا ہونے لگے۔متلمانوں کے خلاف ان کے آنے والے کل کے خلاف ایک نا کام سازش کی گئی ۔ سابقہ حکومت کے دور میں ایسے موضوعات زیر بحث رہیے جو حقیقت میں ایک سیاسی چال تھی۔سابقہ حکومت میں گویا بیرونی ملک کے دورے اور ایسے موضوعات اخباروں کی سرخیاں بنی رہی۔مسلمانوں کو اپنی سیاست چمکانے اور اپنے سیاسی مفاد حاصل کرنے کے لئے اپنی سیا سی ناﺅ کو کنارے لگانے کے لئے مسلمانوں کے جذبات کے ساتھ کھیل کر مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دیا۔مسلمانوں کے خلاف لو جہاد،،گائے کا تحفظ،راشتر واد ،رتھ یاترا جیسی چیزوں کو تسلسل کے ساتھ زندہ کر کے انہیں مسلمانوں کے خلاف نفرت کے اآ لہ کار جان کر اپنا سیاسی ایجنڈا آگے پھیلایا۔ ملک میں سیو کیلر ازم کی تواریخ رقم کرنے والی قوم کو ہندو راشتر واڈ میں بدلنے کی تیاری گئی۔متلم مخالف مہم احکام شریعت کو بدلنے کی نا کام کوشش کو بھی ہوا دیا گیا۔جب بے جے پی بر سر اقتدار آئی تو اس وقت ملک میں بے جے پی چھ ریاستوں میں حکمرانی تھی لیکن جماعت نے ہندی بولنے والے علاقوں میں مذہبی انتہا پسندی کا آلہ کار آزما کر اس وقت اٹھارہ ریاستوں میں حکمرانی کر رہیے ہیں اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مہاراشتڑ ،بہار وغیرہ ریاستوں میں بی جے کی مخلوط حکومت ہے مگر اتر پردیش کی ریاست میں بی جے پی کے پاس دو تہائی اکثریت حاصل ہے جو آیندہ لوک سبھا کے لئے کافی اہمیت کے حامل ہو سکتی ہے۔سیاسی نقطہ نظر سے اتر پردیش میں ایک دلچسپ مقا بلہ ہونے جا رہا ہے جہاں مسلمانوں کے دور اندیشی کا بھی امتحان لیا جائگا تا کہ آیندہ یہ الیکشن ان کی عزت و وقار کا بھی مسلہ بنا ہوا ہے۔

2019ءکے لوک سبھا کے انتخابات کی طرف اگر نظر دوڈایں تو یہ حقیقت کھل کر تامنے آتی ہے کہ ملک میں مسلمانوں کو عزت وقار کے ساتھ رہنے کا تزکرہ نہیں ملتا ہے۔ ملک میں مسلم اقلیتی فرقے کے ساتھ کھلینے کی جو سازش کر کے متلم قوم کے خلاف ان کے خلاف نفرت انگیز مہم چلا کر مسلمانوں کو استمعال میں لاکر اپنا سیاسی مفاد حاصل کرنے میں کامیاب نظر آ رہیے ہیں۔ملک کی سیکو لر نظام کو با لائے طاق رکھکر ملک میں دور قدیم کے خیا لات نقطہ نظر کو بروئے کار لا کر مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دے کر اقتدار میں آنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ملک میں اقلیتی فرقے کی ہر آواز کو دبانا چاہتے ہیں۔گنگا جمنی تہذیب کی سند ملی ہوئی قوم کو ہندو راشتر واد قائم کی جانے والی سر گرمیوں میں اپنے شب و روز لگائے بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس صورت میں ملک میں مسلمانوں کی سیاست میں حالت دن بھر خراب ہوتی جا رہی ہے۔مسلم قوم میں سیاسی اثر رسوخ دن بہ دن کم ہوتا جا رہا ہے۔ گزشتہ سالوں میں مسلمان اس سیاست کی جھونٹ میں اس طرح پھنس گئے تھے کہ مسلم قوم اپنے مستقبل کے بارے میں پوری طرح تذبب کا شکار تھا۔یہی صورتحال ۹۱۰۲ءکے الیکشن میں ہونے جا رہی ہے جو سابقہ منشور کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے کوشاں ہے۔اس صورت میں ملک میں رہ رہیے مسلمانوں کو کافی ہوش مندی کا مظاہرو کرنا ہوگا کس کہیں وہ دشمن کی چلائی گئی سیاست میں تو وہ اپنا وقار نہیں کھو رہیے ہیں۔اگر مسلمانوں نے دور اندیشی اور دانش مندی سے 2019ءکے پار لیمانی الکیشن میں مظاہرہ نہ کیا تو اللہ نہ کرے ملک کو تقسیم کرنے والوں کی سیاسی بھید بھاو کا شکار ہو کر رہینگے۔اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ملک میں بہت سارے ایسے مسلم رہنما ہے اپنے مفاد کے خاطر کسی بھی سیاسی جماعت کا حصہ بنتے ہے جو جماعت ملک میں اقلیتی مسلم فرقے کی خیر خواہی کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ان کا اس طرح سے ان سیاسی جماعتوں کا حصہ بنا خالص اپنا ذاتی مفاد کے خاطر ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کی تعداد روز بروز کافی بڑھ رہی ہے۔ایسے اشخاص اگرچہ صاحب مال و ذر ، صاحب تعلیم یافتہ،صاحب قلم صاحب اشخاص نظر آتے ہیں مگرقوم ایسے اشخاص سے باخبر رہ کر قوم و ملت کی کشتی کو کنارے لگانے کا سوچسے تاکہ ملک میں غریب اقلیت کے خلاف کل ان کی روزی روٹی کے خلاف کوئی ڈاکہ نہ ڈایس ۔عوام کو چاہیے کہ وہ ایسے اشخاص کے خلاف عوام میں بیداری کی طرف مہم چلائیے تاکہ عوام صبح وقت کوئی حتمی صبح فیصلہ لے سکیں ۔ہمارے ارد گرد ایسے بہت سے اشخاص ہے جن کا کام صرف دن بھر اپنی روزی روٹی کی تلاش میں گردش کر رہیے ہوتے ہیے جن کی تعداد بہت ذیادہ ہے ۔اس گروہ کے لوگوں کو ملک و قوم کی مفاد کے خاطر دیش مسائل اور ان کے حل کے لیے کافی کم وقت ہوتا ہے ۔ہمارے ارد گرد ایسے اشخاص ہے جو با حوش با ضمیر انسان ہے ان پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اس گروہ کے لوگوں کو جمہوریت میں اپنا من پسند نمایندئے چننے کی بھر پور رہنمائی کریں تاکہ وہ ایسے شخص کا انتخاب عمل میں لائیں جو ملک و قوم کا حقیقی مدگار ہو ۔یہ وہ شخص ہونا چاہیے جو دبی ہوئی قوم کی گرج دار شیر ہو جو صیح و مشکل وقت میں قوم کا ضامن بنے کے لیے تیار ہو جائے کیونکہ قوم کے لیے اس سے بڑی امتحان کی گھڑی کیا ہوگی جہاں گندی سیاست نے انسانیت میں فرق کرنے کا جو پرو پگنڈے کی صورت اختیار کیا ہے ۔ہر با ضمیر شخص اگر موجودہ صورتحال میں جب قسمتوں کا فیصلہ ہو رہا ہو ،جب ملک و قوم کی مستقبل کا فیصلہ کیا جارہا ہ ایسے وقت میں آنکھیں بند کر اپنے روز مرہ کے کاموں میں لگ جائیں تو آگے وہ خود اللہ نہ کرے تباہی اور ہلاکت کی زنجیر میںجکڑا میں نہ پھنس جایں۔مسلمانوں کو یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ کوئی بھی نظریہ ،سیاست اور حکومت جو ملک میں اقلیتی فرقوں کو برابری کی نظر سے نہ دیکھتی ہو وہ کسی بھی صورت میں قابل قبول نہ ہونی چاہیں ۔اگرچہ ہندوستان میں اقلیتی فرقے کے خلاف رکھنے والے سوچ کے گرہوں کے لوگوں کو منافقت پھیلانے والے لوگ خیر خواہ دکھ رہیے ہیں لیکن ان کے غرائم اس بڑے دیش میں کھبی پایہ تکمیل نہیں پہنچنے گے اگر مسلم قوم متحد ہو کر بلا کسی تفریق کے ایک ہو جائیں۔مسلم اقلیتی فرقے کے لوگوں کے ساتھ ان کے جذبات کے ساتھ کھیلنے کا تماشہ یہ لوگ اپنا سیاسی بازار چمکانے کے لیے کر رہیے ہیے۔اس نازک صورتحال میں مسلم اتحاد کی ضرورت ہے تاکہ ان کوانیٹ کا جواب پتھر سے ملے ۔مسلم اقلیتی فرقہ اپنے ملک کے خاطر جس ملک کی آزادی کے خاطر اپنی جانیںنچھا ور ہو کر ایک سیو کیلرملک وجود میں آیا تھا اپنی عزت وقار کے خاطر متحد ہو کر اس جماعت کا حصہ بنیںجو مسلم اقلیتی فرقے کے لوگوں کے توقعات پر کام کریں ۔مسلمان جس کسی بھی سیاسی جماعت کو ووٹ دیں وہ اس پارٹی کے قامنے اپنے شرائط رکھیں۔اگرچہ مسلمان جماعت کانگرس کے ساتھ اپنا ناطہ جوڑنے میں ماہر ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ بابری مسجد اور ممبی 1993،ءمسلم کش مفسادات اور سچر کمیشن کی رپورٹ کو پست یشت ڈالکر ان کے پیچھے دوڈیں۔ملک ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی قائدین و اکابرین جو اس وقت مختلف سیاسی جماعتوں کے اینجنڈے لے کر اپنے ذاتی مفاد کے خاطر مسلمانوں کو ایک بار پھر دھوکہ دینے کی سازش کر کے پھر مسلمانوں کے سامنے کسی دوسری سیاسی جماعت کا سیاسی ایجنڈے لے کر ایک بار پھر اپنا لوہا گرما رہیے ہیں۔ایسے سیاسی قائدین و اکابرین اپنے ایمان کا سودا نہ کرتے تو آج اسد ین اویسی صاحب پارلیمنٹ میں خود کو اکیلا محسوس نہ کرتا۔اگرچہ مسلمان ملک میں حکمران جماعت نہ بنتے لیکن مسلم قوم کے پاس ایک مظبوط حزب مخالف ہوتا۔ایسے ایمان فروشوں کا ٹولہ اس بار مسلمانوں کی جمعیت اکثریت کو تتر بتر کرنے کی سازشیں کر رہیے ہیں تا کہ مسلمان اس مشکل گڑی میں منتشر ہو کر ان پر فرقہ واریت اور آر ایس ایس نظریات مسطلط کریں۔اس صورت میں اگر ملک میں ان نظریات کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار کوئی کھڑا کر سکتی ہے تو وہ خالص ہماری ملی جلی مذہبی تنظمیں اور ہمارے نوجوان ہیں۔ملک میں نوجوان ان تمام سیاسی نظریات کے خلاف کھڑا رہیں جو انسانیت کے تفریق کا ایجنڈہ لے کر ملک میں رہ رہیے اقلیتی فرقے کے خلاف ساز و باز کر رہیے ہیں۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا