13برس بیت گئے مگرآنسوئوں کادریاآج بھی آبادہے

0
26

تباہ کن زلزلے سے حفیظہ بیگم کی اُجڑچکی دنیا،سرکارگئی ہار،اب کسی رضاکارتنظیم کی نگاہِ کرم کاانتظار

زبیر احمد

کرناہ؍؍ آٹھ اکتوبر 2005 کا زلزلہ اب ایک خوفناک یاد بن چکا ہے ایسی یاد جسے کوئی بھی یاد نہ کرنا چاہے گا مگر چاہنے یا نہ چاہنے سے کلینڈر سے آٹھ اکتوبر کا ہندسہ تو نہیں چھپ سکتا۔۔؟13 برس ہونے کے باوجود صبح کے وقت زمین کی لی گئی کروٹ کی تباہ کاریاں آج بھی حفیظہ بیگم کی آنکھوں میں نمی لے آتی ہیں۔ آٹھ اکتوبر 2005 کے قیامت خیز اور تباہ کن زلزلے کا نام سن کر آج بھی سرحد کے آر پار لوگ دہشت کے مارے سہم کر رہ جاتے ہیں۔ اس حوفناک زلزلے نے ہزاروں لوگوں کو نہ صرف سواگوار بنا دیا اور اپاہجوں اور محتاجوں کی بھرمار پیدا کر دی جنہوں نے اس قدرتی آفات میں اپنا سب کچھ گنوا دیا۔سرحدی تحصیل کرناہ کے کنڈی علاقے کی حفیظہ بیگم ان ہی بد نصیبوں میں سے ایک ہے جس کی جواں سال بیٹی مسرت بانو، دیور ساجد قریشی اور ساس حفیظہ بیگم 2005 کے قیامت خیز اور خوفناک زلزلے کی زد میں آکر لقمہ اجل بن گئے اور خود حفیظہ بیگم کی مکان کے پتھر گرنے سے ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی اور عمر بھر کے لئے اپاہچ ہو گئی یادوں کا دریچہ کھولا تو حفیظہ بیگم کی آنکھوں سے وہ منظر یاد کر کے آنسو ٹپکنے لگے۔حفیظہ بیگم کے خاوند فاروق احمد قریشی کے بقول حفیظہ بیگم کے زخمی ہونے پر سرکار کی طرف سے 25 ہزار روپئے بطور معاوضہ ملا جو ناکافی تھا جو پیسہ اس دوران اسے ماں، بھائی اور بیٹی کی موت کی وجہ سے ملا وہ بھی حفیظہ بیگم کے علاج پر خرچ ہوا مگر پھر بھی اس کا علاج نہ ہو سکا اور باقی سرکاری یا غیر سرکاری امداد کے لئے انتظار ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا