مطالعہ حصول علم‌کا‌ذریعہ ہے

0
147

ذوالقرنین احمد ( مہاراشٹر)
9096331543
اللہ تعالیٰ نے معلم انسانیت آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو پہلی وحی (اقرأ) پڑھ فرما کر مطالعہ کی اہمیت کو بڑھا دیا ہے مطالعہ انسان کی شخصیت کو سنوارتا ہے اسکے اندر اخلاقی قدریں پروان چڑھتی ہے کتابوں سے حاصل ہونے والا علم کبھی ضائع نہیں جاتا انسان کی زندگی میں مختلف موڑ آتے ہیں ان موڑ پر کیسے ان مسایٔل کو حل کرنا ان چیزوں کا‌علم انسان کتابوں کے مطالعہ کے زریعے سے گزشتہ لوگوں کے تجربات سے سیکھتا ہے، مطالعہ شوق و ذوق کا محتاج ہوتاہے جس کسی کو یہ میثر ہوجائے تو پڑھنے والے کی پیاس کبھی نہیں بجھتی یہاں تک کے‌ اسکی سانسیں دم توڑ دیں، اسی شوق نے شیکسپیئر کو اس قابل بنایا کہ انگریزی زبان کے ماہرین اسکے حاصل مطالعہ سے استفادہ کرتے ہیں،اس نے ایم اے انگلش، تو نہیں کیا لیکن آج اسکے بغیر ایم اے انگلش نہیں ہوتا، اچھی کتابیں تنہائی کی بہترین ساتھی ہوتی ہیں وہ کبھی بے وفائی نہیں کرتی مطالعہ انسان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتا ہیں گزشتہ کچھ دن قبل ایک مضمون نگار کے بچپن کے بارے میں پڑھا کے وہ جب بچہ تھا اس دور میں انکے والد عصری تعلیم کے خلاف تھے وہ تمام بچوں کو مدرسے میں تعلیم حاصل کرانا چاہتے تھے اس بچے نے راستے سے گزرتے ہوئے ایک کاغذ کا ٹکڑا اٹھایا اور اسپر لکھے حروف کو ہجے کر کے پڑھنے لگا اور اس پرانے کاغذ کے ٹکڑے پر لکھی ادھوری کہانی کو پڑھنے کا شوق اسکے دل میں پیدا ہوا وہ روزانہ اس جگہ سے پرانے اخبار اٹھا کر پڑھتا اور رفتہ رفتہ وہ اردو پڑھنا سیکھ گیا اسنے لائیبریری کا روخ کرنا شروع کیا مختلف مصنف کی جاسوسی ناول وغیرہ پڑھنے لگا یہی پڑھنے کا شوق و ذوق نے اسے آج ایک اچھا کالم نگار بنا دیا، اسی لئے میں نے کہاں کے مطالعہ شوق و ذوق کا محتاج ہے، کتاب پھولوں کا وہ باغ ہے جسے ساتھ لیۓ پھروں اور جب چاہے جہاں چاہیں اسکی خوشبوں سے خود کو اور اپنے ماحول کو معطر کردو کتابیں ہمیں اسلاف اور ان لوگوں کے حالات بڑی آسانی مہیا کردیتی ہے ہم جن تک نہیں پہنچ سکتے یا پہنچنے سے قاصر ہیں، مورخین کی لکھی ہوئی کتابوں کا مطالعہ کرتے وقت ایسے محسوس ہوتا ہیں جیسے ہم حال میں رہتے ہوئے ماضی کے چھرونکوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔
سادگی و انکساری کے پیکر سابق صدر جمہوریہ ہند مرحوم ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کی یاد میں انکی پیدائش کے دن کو یوم ترغیب مطالعہ کے طور پر ۱۵ اکتوبر کو منایا جاتا ہیں، جس کا مقصد طلباء میں پڑھنے کا شوق پیدا کرنا ہے، تاکہ طلباء اور خصوصاً اساتذہ میں کتب رسائل جرائد اور اخبارات کے مطالعہ کا رجحان پیدا ہو، کتابوں کو خرید کر پڑھنے کا جزبہ طلباء میں پیدا کیا جائے، مطالعہ کا شوق طلباء کے اندر پیدا کرنا ہے حد ضروری ہیں یہی عادت طلباء کے علم میں ذخیرہ الفاظ کا سبب بنتی ہے شخصیت کا ارتقاء اور اخلاقی قدریں عروج پاتی ہے، موجودہ دور میں حالات حاضرہ سے واقفیت ہونا ضروری ہے ، بچوں کو دینی تعلیم نا ملنے کی وجہ سے آج ہمارا معاشرہ اخلاقی تعلیم سے کوسوں دور ہیں ہماری تہذیب مغربی آندھی میں دفن ہوتی دیکھأی دے رہی گزشتہ کچھ دنوں سے ہمارے معاشرے سے متعلق خبریں سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے کس طرح سے مسلم لڑکیاں کھولیں عام غیروں کے ساتھ بے حیائ کے کام انجام دے رہی ہے، گھروں میں دینی تعلیم پر توجہ نہ دینے کی وجہ انکی تربیت میں کمی پائی جارہی ہے ایک طرف انگریزی اداروں میں تعلیم دلانے کی وجہ سے مغربی تہذیب ان ننھے بچوں کے خالی ذہنوں میں داخل کی جارہی ہیں، ہمارے معاشرے سے مطالعہ کا شوق بلکل ختم ہوتا جارہا ہے پہلے بچے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے یا دادا سے حاصل کرکے آگے کی تعلیم مدرسوں میں حاصل کرتے تھے گھروں میں کتابوں کیلے مخصوص الماری ہوا کرتی ہیں ہمارے مسلم گھرانوں کے حال یہ ہے کہ قرآن پڑھنے ٹائم نہیں ہیں باقی کتابوں کی تو بات ہی دور ہے ہیں، ایک سروے کے‌ مطابق یہودی قوم کے مطالعے کا اوسط فی یوم 6یا7 گھنٹے ہیں اور ہماری قوم‌کا اوسط فی یوم 6 منٹ ہے افسوس ہے اس قوم پر کے جس کا آغاز اقرأ سے ہوا تھا آج وہ قوم تعلم میں پیچے ہیں، ہمیں ضرورت ہے کے ہم اپنے گھروں میں مطالعہ کا ماحول بنائے خود بھی روزانہ کم‌سے کم ۲۰ صفحات کا مطالعہ کریں دینی کتابیں پڑھیں اپنے بچوں کے اندر بچپن سے مطالعہ کا شوق پیدا کریں گھر کی خواتین کو دینی ، اخلاقی، ادبی ،اخبار، رسالے فراہم کرے تبھی بچوں کی اخلاقی قدرین پروان چڑھے گی بچوں کو دینی کتابوں کے تحفہ پیش کریں، ہر مہینے کم سے کم ایک کتاب ضرور گھر میں‌لیکر آیے اس سے بچوں میں پڑھنے کا جزبہ پیدا ہوگا۔ آج انٹرنیٹ، سوشل میڈیا، نے ہماری نئی نسل کو اسی‌ میں لگا کر رکھ دیا ہے, مطالعہ کتابوں کے زریعے سے ہی ممکن ہیں موبائل پر پڑھنے سے وہ باتیں زیادہ دیر انسان یاد نہیں رکھ سکتا جو کچھ وہ‌پڑھتا ہیں اور پھر اسمیں نوٹیفیکیشن کے مسیجز کی بھرمار، اس سوشل میڈیا کے استعمال کی وجہ سے بھی مطالعہ کا شوق کم ہوتا جارہا ہے اسلیے اپنے بچوں کو انٹرنیٹ،سوشل میڈیا، وغیرہ کا مثبت استعمال کرنے کی ترغیب دے۔ تب جاکر اس نسل نوکی اخلاقی قدریں پامال ہونے سے بچ سکتی ہے۔

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا