یہودیوں کے عقائد اور نظریات یہودیت کی تاریخ سب سے قدیم

0
0

۰۰۰
محمد توقیر رضااحسنی
۰۰۰
اگر آپ غور کریں تومعلوم ہوگاکہ یہودیت کی تاریخ سب سے قدیم تاریخ ہے اس دنیا میں اکثر ادیان کا نام ان کے بانیوں کے نام پر ہے جیسے جین مت مہابیرجین کے نام پر اور بدھ مت گوتم بدھ پر لیکن یہودی اپنے دین کا بانی یہودا(حضرت یعقوب علیہ السلام کے چوتھے بیٹے)کو نہیں تسلیم کرتیاور کہتے ہیں کہ اگرچہ اس دین کے اکثر پیروکار یہودا کی نسل سے تھے بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بانی مانتے ہیں اور قرآن مجید میں یہودیوں کا براہ راست 68 مرتبہ ذکر ہیجیسے بنی اسرائیل(حضرت یعقوب علیہ السلام کا وہ نام جو عبرانی زبان میں ہے)(42)مرتبہ اور ھادو(10)اور ھوداً(3)اور الیھود(8)مرتبہ ذکر ہے ان کو شمار پر 68 آتا ہیاور اگر ان کو شمار کیا جائے جو قوم موسی،اھل کتاب کے نام ہے تو وہ ہزار سے بھی زیادہ ہیلیکن افسوس اس بات کا ہے کہ قرآن کریم میں جیسے یہودیوں کا ذکر وہ ویسا ہی کررہے ہیں لیکن مسلمان اس طریقے سے ہٹے ہوئے ہیں۔
یہودی فرقوں کے عقائد بے انتہا متضاد اور متنوع ہے۔ بعض وہ ہیں جو خدا کی وحدانیت کا اقرار کرتے ہیں اور توریت کو خدا کی کتاب مانتے ہیں اور اس کے ہر لفظ کو کلام خدا مانتے ہیں، لیکن کچھ وہ ہیں جو سرے سے ہی خدا کے منکر ہیں،اور یہودیوں میں ایک اہم بات یہ ہے کہ وہ عقیدے سے زیادہ عمل پر توجہ دیتے ہیں۔
اسی طرح وہ کہتے ہیں کہ خدا کیا ہے یہ بیان کرنا ناممکن ہیاور خداکوسمجھنا محال ہے اور خدا کی تصویر سازی کرنا ناجائز ہے۔
اور کہتے ہیں کہ خدا کے تین اہم کام ہے۔اول: خلق یعنی خدا ہر لمحہ دنیا کو پیدا کرتا ہے اور وہی اس کا ضامن ہے۔دوم: توریت کا نزول۔کہتے ہیں کہ توریت کے نزول کے بعد بھی نزول وحی کا سلسلہ جاری رہا لیکن جو موجودہ حال میں توریت ہے اس کے بارے میں مختلف الرای ہیں۔ایک یہودی جس کانام آرتھوڈاکس ہے وہ کہتا ہے کہ موجودہ توریت بعینہ ویسے ہے جیسے خدا نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا کی تھی۔اور بعض وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ ماحول کے مطابق لوگوں نے اپنے الفاظ میں لکھ دیا۔ سوم: لوگوں کو سزا و جزا دینا۔ یعنی خدا کے حکم عدولی پر سزا ملیگی جس میں جلا وطنی بھی شامل ہے اور اپنی اصلاح کر لینے پر معافی اور جزا ملے گی۔
اور توریت کے بارے میں ان کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ مقدس کتاب کی پہلی پانچ کتابیں ہیں(کیوں کہ یہودیوں کے بقول کتاب مقدس میں کل 39 کتابیں ہیں)اور وہ پنج کتب یہ ہیں۔ 1 سفر تکوین،2 سفر خروج،3 سفرلاویان،4 سفرعدد،5 سفر تثنیہ ہے۔اور اب آسانی کے لیے 54 حصوں میں منقسم کیا ہے اور ان میں سے ہر حصے کو پاراشہ یا سدرا کہا جاتا ہے۔
یہودیوں کی کتاب مقدس وہی ہے جس کو عیسائی "عہد نامہ عتیق” کے نام سے یاد کرتے ہیں،لیکن یہودی اسے اس بنا پر نہیں مانتے کہ کہیں ان لوگوں اپنی کتاب کو عہد نامہ جدید نہ کہنا پڑے،اور یہ بھی کہ وہ حضرت عیسی علیہ السلام کی نبوت کا انکار کرتے ہیں اسی وجہ وہ کتاب مقدس یہود یا پھر عبرانی کتاب یا تنخ کے نام موسوم کرتے ہیں۔
دنیا میں جتنے انبیاء تشریف لائے ان کے متعلق لوگوں نے یہی کہا ہے نبی وہ ہے جو غیب کی خبر دے۔لیکن یہودیوں کا نظریہ ذرا مختلف ہے۔وہ کہتے ہیں کہ نبی خدا کا ایسا نمائندہ ہے جو برائی کو ختم کرے اور نیکی کی دعوت دے اور عدل وانصاف قائم کرے اور وہ یہ بھی کہتے تھے کہ انبیاء کا کام مصیبتوں اور پریشانیوں میں ان کا ساتھ دیناہے۔
یہودیوں کے عقیدے کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام(فرعون کے چنگل سے بنی اسرائیلیوں کو آزاد کرانے کی وجہ سے)تمام انبیاء کے سردار ہیں۔اور وہ مرد کے ساتھ ساتھ عورتوں کی نبوت کے بھی قائل ہیں۔اور یہ لوگ انبیاء کرام علیہم السلام کو معصوم عن الخطا نہیں مانتے۔
یہودی فرقے کے لوگ پہلے زمانے میں حیات بعد الموت کے قائل تھے اور کہتے تھے کہ انسان مرنے کے بعد شیول (ایک جگہ کانام ہے)میں جائیں گے پھر جب ان کے علم میں اضافہ ہوا تو جنت و دوزخ کے قائل ہوئے لیکن یہ شاذ و نادر ہے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ دنیا ہی ان کے لیے جنت و دوزخ ہے۔اور یہ روح کو لافانی مانتے ہیں لیکن مرنے کے بعد روح کے متعلق خاموشی اختیار کرتے ہیں مختصر یہ کہ ان کے نزدیک جنت و دوزخ کچھ نہیں ہے اسی وجہ سے وہ دنیا ہی کو اہمیت دیتے ہیں۔
اور شیطان کے متعلق ان کا یہ قول ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے کچھ دور پہلے شیطان کا وجود تھا جو لوگوں کو راہ حق سے گمراہی کی طرف لے جاتا تھالیکن یہ ان کے درمیان زیادہ زور نہ پکڑا کیوں کہ وہ خدا کے وحدانیت کے قائل تھے اور کہتے تھے اگر شیطان بھی انسان پر غلبہ حاصل کرسکتا ہے تو یہ تو خدا کی وحدانیت کا انکار ہے۔
پھر یہ سوال اٹھا کہ اگر شیطان نام کی کوئی چیز نہیں تو وہ کون سی شء ہے جو لوگوں کو برائی کرنے پر ابھارتی ہیکیوں کہ خدا تو صرف منبع خیر ہے؟ اس مسئلے کے بعد ان لوگوں نے یہ کہہ دیا کہ خدا خیر و شر دونوں کا خالق ہے۔ بہر کیف وہ شیطان کی حقیقت کا انکار کرتے ہیں۔
یہودیوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کی نسل سے ایک شخص کی پیدائش ہوگی اور وہ دنیا پر حکومت کریگا جسے یہودی مسیحا کہتے ہیں،اس کی یہ خصوصیت بیان کی ہے کہ اس میں قیادت کی صلاحیت ہوگی اور کثیر علم و حکمت والا ہوگا اور جس کے اردگرد چین و سکون ہوگا اور اس مسیحا کو یہودی ایک انسان مانتے ہیں(جو لوگوں خیرخواہی کریگا عدل و انصاف سے کام لیگا) نہ کہ خدا۔ پہلے یہودیوں میں مسیحا کا جھوٹا دعویٰ بہت لوگوں نے کیا تھا جس کی وجہ سے اس کا عقیدہ لوگوں کے درمیان سے ختم ہونیلگاتھا اور اپنے علماء کی بات ر بھی یقین پر محمول کرنا چھوڑ دئیتھے۔ لیکن ایک لمبے مدت کے پھر سے عقیدپ مسیحا کو ماننے لگے۔
لفظ چھن جائیں مگر تحریر ہو روشن جہاں
ہونٹ ہوں خاموش لیکن گفتگو باقی رہے

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا