فلسطین ہزاروں سال سے جنگ کا مرکز!

0
0

افتخار ساقی
اسلام اسکالر،البرکات

فلسطین یہ دنیا کا سب سے قدیم شہر ہے۔ ماہرینِ آثارِ قدیمہ کا کہنا ہے کہ سات ہزار یا پانچ ہزار سال قبل مسیح یہاں انسانوں کی آبادی موجود تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ فلسطین دنیا کا سب سے پرانے شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ شہر ہزاروں سال سے جنگ کا مرکز رہا ہے۔ اس شہر پر بڑے بڑے طاقتور لوگ قبضہ کرتے رہے اور حکومت کرتے رہے۔ داؤد علیہ السلام سے پہلے موسی علیہ السلام بنی اسرائیل کی بڑی فوج لے کر فلسطین کو فتح کرنے نکلے تھے لیکن بنی اسرائیل نے موسی علیہ السلام سے کہا "تو آپ اور ا?پ کا رب دونوں جاو? اور لڑو ،ہم تویہیں بیٹھے ہوئے ہیں” [المائدۃ: 24]۔ موسی علیہ السلام بہت غمگین ہو گئے کہ یہ قوم کتنی ناشکرا اور احسان فراموش ہے، ابھی تو اللہ تعالیٰ نے فرعون کے ظلم و ستم سے آزاد کیا اور فوراً ہی اپنے رب کے حکم کے منکر ہو بیٹھی، اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو سزا دی جس کی وجہ سے وہ قوم چالیس سال تک ریگستان میں بھٹکتی رہی۔ تقریباً 1000 قبل مسیح میں حضرت داؤد علیہ السلام نے فلسطین کو فتح کر لیے۔ جب سلیمان بن داؤد علیہما السلام تخت شاہی پر بیٹھے تو آپ علیہ السلام نے 960 قبل مسیح میں یروشلم میں جنوں کے ذریعے ایک معبد کی تعمیر کروائی، جو ہیکل سلیمانی کے نام سے مشہور و معروف ہے۔ حضرت عزیر علیہ السلام کے دور میں بابل کا ظالم و جابر بادشاہ بخت نصر 589 قبل مسیح میں فلسطین شہر پر حملہ کر کے شہر کو تاراج کر دیتے ہیں۔ یہودیوں کو فلسطین سے جلاوطن کر دیتے ہیں اور تقریباً ایک ہزار یہودیوں کو غلام بنا کر بابل ساتھ لے آتے ہیں۔

ایک دن اللہ کے نبی حضرت عزیر علیہ السلام کا گزر وہاں سے ہوا، یہ حالت دیکھ کر آپ علیہ السلام نے فرمایا "اللہ تعالیٰ انہیں ان کی موت کے بعد کیسے زندہ فرمائے گا” ( البقر?:259) تو اللہ تعالٰی نے حضرت عزیز علیہ السلام کو سو سال موت کی حالت میں رکھا۔ اس کے درمیان 539 قبل مسیح میں فارس کا بادشاہ روش کبیر (سائرس اعظم) نے بابل فتح کر کے یہودیوں کو فلسطین میں واپس بھیج دیتے ہیں، فلسطین پھر سے آباد ہو گیا۔ اللہ تعالٰی نے سو سال بعد حضرت عزیز علیہ السلام کو زندہ فرمایا۔ حضرت عزیر علیہ السلام یہ دیکھ کر بولے "اللہ ہر چیز پر قادر ہے”۔70 عیسوی میں ایک رومی جرنیل ٹائٹس ( وَیس پَڑِیَن ) اپنی پوری طاقت کے ساتھ فلسطین پر حملہ آور ہوتے ہیں اور ہیکل سلیمانی کو تباہ و برباد کر دیتے ہیں۔ 137 عیسوی میں ایک رومی شہنشاہ ہیڈرین فلسطین پر اپنا قبضہ جماتے ہیں، اور پھر سے سارے یہودیوں کو فلسطین سے نکال پھینکتے ہیں۔ اب ایک چمتکار یہ ہوتا ہے کہ چوتھی صدی عیسوی میں سارے رومی عیسائی مذہب اپنا لیتے ہیں۔ اس کے بعد بیت المقدس میں گرجے گھر وغیرہ تعمیر کرتے ہیں۔ اب مکمل طور پر عیسائیوں کی حکمرانی رہتی ہے۔ لیکن 638 عیسوی میں اسلام کے دوسرے خلیفہ امیرالمومنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ جنگ کیے بغیر بیت المقدس فتح کر لیتے ہیں، اب یہاں مکمل طور پر مسلمانوں کی حکومت رہتی ہے۔ بنو امیہ کے پانچویں سلطان عبد الملک بن مروان کے دور میں "مسجد اقصٰی” اور "قب الصخرہ”( جس جگہ محسن انسانیت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی سواری براق کو باندھا گیا تھا اور اسی جگہ امیرالمومنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ فتحِ بیت المقدس کے بعد نمازِ جمعہ قائم فرمائی تھی ) کی تعمیر عمل میں آئی۔ اب سارے فلسطینی خوشحال زندگی گزار رہے تھے کہ 1099 عیسوی میں پہلی صلیبی جنگ ہوئی، ستر ہزار مسلمانوں کو شہید کر کے یورپی صلیبی فتح حاصل کرتے ہیں اور بیت المقدس پر قبضہ جما لیتے ہیں۔ پورے اٹھاسی سال حکومت کرتے ہیں لیکن 1187 عیسوی میں اللہ کا ایک بے خوف بندہ، ایک نڈر کمانڈر، ایک شیر دل جنگجو 12 ہزار کا لشکر لے کر 4 لاکھ صلیبیوں کو شکست سے دو چار کر کے بیت المقدس پر اسلامی پرچم لہراتے ہیں اور سارے صلیبیوں کو شہر سے نکال دیتے ہیں۔
1229 عیسوی میں فریڈرک دوم بغیر لڑے فلسطین فتح کر لیتے ہیں۔ ابھی چودہ پندرہ سال گزرے ہی تھے کہ 1244 عیسوی میں پھر ایک اور بار فلسطین مسلمانوں کے قبضے میں آ گیا اور 1517 عیسوی میں عثمانی خلیفہ سلطان سلیم اول فلسطین کو عثمانی سلطنت میں شامل کر لیتے ہیں اور سلطان عبدالحمید ثانی کے دور تک عثمانی سلطنت کے قبضے میں رہتا ہے۔[
یہاں تک کہ 1917 عیسوی میں پہلی جنگ عظیم کے دوران انگریزوں نے فلسطین پر قبضہ کر لیا اور یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کی عام اجازت مل جاتی ہے۔ 1947 عیسوی میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو عربوں اور یہودیوں کے درمیان تقسیم کر دیا۔ اب یہاں اور یہودی آ کر بسنے لگے۔ 14/مئی 1948 عیسوی میں یہودیوں نے اپنا ایک الگ ملک اسرائیل کے قیام کا کھلے عام اعلان کر دیا۔ تو اس کے نتیجے میں پہلی عرب اور اسرائیل جنگ کا آغاز ہوا۔
اسرائیل فلسطین کی 75 فیصد زمین پر قبضہ کر لیے۔ 1956 عیسوی میں دوسری عرب اور اسرائیل جنگ ہوئی۔ اس کے بعد 1967 عیسوی میں تیسری عرب اور اسرائیل جنگ ہوئی، اس جنگ میں اسرائیل بہت دور یہاں تک کہ مصر کے کچھ حصوں پر بھی قابض ہو گئے۔ 1973 عیسوی میں ایک اور جنگ ہوئی اس جنگ میں اسرائیل بری طرح تباہ و برباد ہو گئے۔ مصر کے جتنے حصوں پر قابض ہوئے تھے ان حصوں کو چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہو گئے۔ آخر فلسطین کے 75 فیصد زمین پر قابض ہو گئے جس میں بیت المقدس بھی شامل ہے۔
اسرائیل تب سے لیکر اب تک فلسطینیوں پر ظلم و تشدد کرتے چلا آ رہا ہے۔ لیکن ابھی 7/اکتوبر 2023 عیسوی میں فلسطینیوں نے اسرائیل پر ایک بڑا خوفناک حملہ کیا اور یہ جنگ 52 دنوں تک چلتی رہی۔ اس جنگ میں 15 ہزار سے زائد فلسطینی مرد و عورت اور بچے بوڑھے مارے گئے، لیکن پھر بھی حماس ڈگمگایا نہیں۔ ان کے پیر متزلزل نہیں ہوئے۔ وہ ثابت قدم رہے اور اسرائیل کے سیکڑوں ٹینکوں کو تباہ و برباد کر دیا۔ فلسطینیوں نے اسرائیل کو خوف کی دنیا میں بھیج دیا۔
آخر کار اسرائیل جنگ موقوف کرنے کا مطالبہ کیا تب جا کر ابھی جنگ بند ہوئی۔ فلسطین برسوں سے جنگ کا مرکز تھا، آج بھی ہے۔ لیکن فلسطینیوں کی ہمت و جرا?ت کو سلام انہوں نے بتا دیا کہ اے دشمن خدا ہماری تعداد پر مت جاؤ کیوں کہ ہم تعداد کے بل بوتے پر نہیں بلکہ توکل کے بل بوتے پر لڑتے ہیں۔ اور یہ کہ ہمارا اس قوم سے رشتہ ہے جو قوم اپنے سے تین گنا زیادہ لوگوں سے لڑ چکی ہیں۔ ہم مال و دولت کے بجائے شوق شہادت کا جذبہ رکھ کر لڑتے ہیں کیوں کہ:

شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا