خامۂ بکف: منصور احمد حقانی ، نامۂ نگار روزنامہ اردو اخبارات
Mob: 7862861000
____________________________
ہمیشہ سے ہی یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جوں جوں لوک سبھا عام انتخابات قریب ہوتا جاتا ہے، اس سے قبل ملک میں قومی پیمانے پر کچھ نہ کچھ ایسا شوشہ چھوڑ دیا جاتا ہے، جس سے عام لوگوں کے ذہن و دماغ منتشر ہو جائیں؛ تاکہ لوگ اصل مسائل کو بھول کر موجودہ عنوان جو فرقہ پرست سیاسی جماعتوں کا خود ساختہ پروپیگنڈا ہوتا ہے، اس پر بے جا بحث میں لگ جائیں، اور اس سلسلہ کا رواج 2011ء کے بعد سے کچھ زیادہ ہی ہوا ہے۔ شاید آپ کو یاد ہوگا کہ 2014ء کے عام انتخابات سے قبل پورے ملک میں عوامی لوک پال بل کی منظوری اور ٹو جی گھوٹالہ سے لے کر آج تک یہی سب ہوتا آرہا ہے، کبھی پٹھان کوٹ حملہ، پلوامہ اٹیک، نوٹ بندی، ماب لنچنگ، آرٹیکل 37، تین طلاق، لاؤد اسپیکر پر اذان اور ہنومان چالیسہ وغیرہ۔ جب کچھ نہیں ملتا ہے تو پھر مسلمان تو ہے ہی ہر مرض کی دوا، اسی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے فی الوقت یکساں سول کوڈ کا مسئلہ اتنا طول پکڑا ہواہے کہ ہر خاص و عام کے دل و دماغ میں بس یکساں سول کوڈ ہی بسا ہوا ہے، ہر آدمی یہی جاننے کا خواہاں ہے کہ آخر یونیفارم سول کوڈ کیا ہے؟ جب کہ آۓ دن ملک میں درجنوں لوگ سرکاری اداروں کی لاپرواہی کے سبب جاں بحق ہورہے ہیں، بے روزگاری کی شرح میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہاہے اور آسمان چھوتی مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے؛ مگر کسی کو بھی اس کی ذرہ برابر کوئی فکر نہیں ہے، اور فرقہ پرست جماعت تو چاہتی ہی ہے کہ عوام ان ملکی مسائل پر کوئی سوال نہ پوچھے؛ اسی لئے اصل مسائل سے عوام کی توجہ ہٹاکر جذباتی مسائل کی طرف مبذول کرادی جاتی ہے؛ مگر یاد رکھو کہ فرقہ پرستوں کا کھیل ایک دن ختم ہوگا اور حقیقت سامنے آکر رہے گی؛ اس لئے ملک کے اصل مسائل سے غافل نہ ہوں، اور رہی بات یونیفارم یکساں سول کوڈ کی، تو یہ ایک خاص مذہب کے فرقہ سے وابستہ ہے؛ مگر المیہ یہ ہے کہ فرقہ پرست سیاسی جماعتوں کی جانب سے یونیفارم سول کوڈ کے تحت بھارتی مسلمانوں کے پیشِ نظر ایک قانون کی تشکیل کا مطالبہ کرنا نہایت ہی تشویشناک ہے؛ کیوں کہ یہ قانون شادی و بیاہ، طلاق وخلع، وراثت اور گود لینے جیسے معاملات میں تمام مذہبی برادریوں پر یکساں لاگو ہوگا۔ دراصل یہ مسئلہ ایک صدی سے بھی زائد عرصے سے سیاسی بیانیہ اور بحث کا مرکز رہا ہے، اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے ایک ترجیحی ایجنڈا ہے، جو پارلیمنٹ میں قانون سازی کے لیے زور دے رہی ہے، واضح رہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی وہ واحد پارٹی ہے، جس نے اقتدار میں آنے پر سب سے پہلے یو سی سی کے نفاذ کا وعدہ کیا تھا اور یہ مسئلہ اس کے 2019ء کے عام انتخابی منشور کا حصہ تھا۔ دراصل یونیفارم سول کوڈ بی جے پی کا ہندوؤں سے کیے گئے چار انتخابی وعدوں میں سے ایک ہے؛ حالاں کہ اس کے نفاذ سے ہندو اور دیگر فرقے بھی متاثر ہوں گے؛ لیکن بھارتی مسلمان اسے اپنے لئے سب سے بڑا دردسر سمجھتے ہیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ الیکشن کے موقع پر ہندو قوم پرست جماعت (بی جے پی) نے ہندو ووٹروں کو لبھانے کے لیے اپنے انتخابی منشور میں چار اہم وعدے کیے تھے، اقتدار میں آنے کے بعد ان میں سے تین وعدے جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کرنا، اجودھیا میں رام مندر تعمیر کرنا، اور شہریت ترمیمی قانون کا وعدہ تو پورا کردیا، یہاں تک کہ اس نے طلاق ثلاثہ کو بھی غیر قانونی اور قابل سزا جرم قرار دے دیا ہے؛ مگر اب ملک بھر میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کا آخری اور اہم وعدہ پورا کرنا رہ گیا ہے؛ لہٰذا تمام باتوں کا لب لباب یہ نکلا کہ یونیفارم سول کوڈ "نیا جال لایا پرانا شکاری” کے مصداق ہے۔
ملک بھر میں ایک طرف جہاں بیشتر مسلم جماعتوں اور تنظیموں کا کہنا یہ ہے کہ یہ بے وقت کی آواز ہے، اس سے ملک کو فائدہ کے بجائے نقصان زیادہ ہوگا، تو وہیں دوسری جانب مسلمانوں کی کئی بڑی تنظیمات و تحریکات اور اشخاص نے غیر ضروری بیانات دینے سے گریز بھی کرنے کا مشورہ دیا ہے، حقیقت تو یہی ہے کہ یونیفارم سول کوڈ ملک کے لئے غیر ضروری، ناقابل عمل اور انتہائی نقصان دہ ہے، حکومت ہند کو چاہئے کہ وہ اس طرح کے غیر ضروری کاموں میں ملک کے وسائل کو ضائع کرکے سماج میں انتشار پیدا نہ کرے۔ اور حکومت ہند کو خوب سمجھ لینا چاہئے کہ مسلمانوں کا پرسنل لا قرآن و سنت سے ماخوذ ہے، جس میں مسلمان کسی بھی طرح کی تبدیلی کو ہرگز برداشت نہیں کرے گا۔ اس کے علاوہ بھارت میں صرف مسلمان ہی اپنے پرسنل لا پر عمل پیرا نہیں ہے؛ بلکہ دیگر مذہبی جماعتوں کے بھی اپنے اپنے پرسنل لا ہیں؛ حتیٰ کہ خود ہندو بھی مختلف علاقوں میں یکسر مخالف پرسنل لا پر عمل کرتے ہیں۔ جنوبی بھارت میں ہندوؤں میں ماموں کی اپنی بھانجی کے ساتھ شادی انتہائی متبرک سمجھی جاتی ہے، جس کا تصور بھی شمالی بھارت کے ہندوؤں کے لئے محال ہے، اب اگر یکساں سول کوڈ نافذ ہوتا ہے تو پھر سب کو ایک ہی دائرہ میں آنا ہوگا ، ایسے میں جمہوریت کا مطلب کیا ہوگا ؟ یہ ملک کسی خاص فرقہ کی خاندانی ملکیت نہیں ہے؛ بلکہ یہ ملک جمہوری ہے، یہاں کا ہر باشندہ آزاد ہے، وہ اپنی مرضی سے کچھ بھی کھا، پی اور پہن سکتا ہے، حتیٰ کہ کسی بھی مذہب کے مطابق اپنی زندگی بسر کر سکتا ہے، کسی کو کوئی پابند نہیں کرسکتا، اگر یکساں سول کوڈ نافذ ہوتا ہے تو یہ ساری آزادی چھن جائے گی، یا یوں کہئے کہ یو سی سی کے نفاذ سے جمہوریت ختم ہوجائے گى؛ اس لئے اگر جمہوریت کو برقرار رکھنا ہے تو بلا تفریق مذہب وملت تمام باشندگان ہند کو متحرک ہونا پڑے گا اور اس سیاہ قانون کی پرزور مخالفت کرنی ہوگی؛ کیوں کہ یکساں سول کوڈ بھارت کے کسی ایک مذہب کا مسئلہ نہیں ہے؛ بلکہ اس کا تعلق تمام مذاہب سمیت قومی یکجہتی، ہند و مسلم اتحاد اور ملک کی سالمیت کا مسئلہ ہے۔ دراصل حکومت یکساں سول کوڈ جیسے حساس مسئلے پر کسی خاص فرقہ کو مشتعل کرا کے اپنی سیاسی روٹیاں سیکنا چاہتی ہیں۔ کیا حکومت یکساں سول کوڈ سے ہندوؤں کے پرسنل لا کو چیلنج کرسکتی ہے؟
مجھے چڑھتے سورج کی طرح یقین ہے کہ حکومت ہندوؤں کے پرسنل لا میں کسی بھی قسم کا چھیڑ چھاڑ کرنے کی جرأت تو بہت دور کی بات ہے؛ بلکہ تصور بھی نہیں کرسکتی ہے۔ اگر یہ صحیح ہے تو: کیا مذہبی عقیدے کی بنیاد پر ننگے رہنے والے جین مت کے ماننے والے سادھوؤں اور ہندو ناگا باباؤں پر یہ قانون نافذ ہو سکے گا؟ کیا سکھ مت کے ماننے والوں کو بال رکھنے کے حق سے محروم کردیا جائے گا؟ کیا غیر منقسم ہندو خاندان کو حاصل ٹیکس چھوٹ بند کردی جائے گی؟ کیا مودی حکومت کے پاس ان سوالات کے جوابات ہیں؟ اگر نہیں تو پھر کیا ان فضول باتوں سے صرف کسی خاص مذہبی فرقہ سے نفرت ظاہر کرنا مقصد ہے؟ بیشتر مبصرین کا کہنا ہے کہ ملک کی موجودہ سیاسی اور دیگر حالات کے مد نظر مودی حکومت خود بھی یونیفارم سول کوڈ کو فوری طور پر نافذ کرنا نہیں چاہے گی؛ بلکہ حکومت نے مستقبل میں ہونے والے اثر کا اندازہ لگانے کے لیے پانی میں پتھر پھینکا ہے؛ کیوں کہ آنے والا ستمبر کے مہینے میں جی ٹوئنٹی گروپ کے سربراہان مملکت کا اجلاس ہو گا، اس سے پہلے بھی کئی مشاورتی اجلاس منعقد ہوں گے، ایسے میں بی جے پی یہ کبھی نہیں چاہے گا کہ کوئی متنازع مسئلہ پیدا ہو اور حکومت مخالف مظاہروں کی وجہ سے بھارت اور مودی کا وقار مجروح ہو۔ اس کے علاوہ مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں اسمبلی انتخابات بھی ہونے والے ہیں اور بی جے پی یہ چاہتی ہے کہ عوام کو کسی نہ کسی مسئلہ پر الجھا کر رکھیں؛ تاکہ ملک کی ترقی سے متعلق کوئی سوال نہ پوچھ سکے، خلاصۂ کلام یہ ہے کہ یہ سارے ہتھکنڈے مودی سرکار اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لئے اپنا رہی ہے ، مگر عوام خوب سمجھ رہی ہے کہ صحیح اور غلط کیا ہے؛ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ مودی حکومت نے ہندوستانی عوام کو بیوقوف سمجھ رکھا ہے اور حکومت کی یہ غلط فہمی اسی وقت دور ہوگی، جب ای وی ایم مشینوں پر پوری طرح پابندی عائد ہوگی۔