ڈاکٹر عاشق حسین
یوم آزادی ایک اہم موقع ہے جو ہندوستان کی تاریخ میں گہری اہمیت رکھتا ہے اس طرح یہ دن کسی بھی قوم کے ہر شہری کے دل میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ یہ فخر، عکاسی اور اتحاد کا دن ہے جہاں ایک ملک اپنی آزادی کا جشن مناتا ہے۔ ہر سال 15 اگست کو یوم آزادی کے موقع پر ہندوستان کا ترنگا جھنڈا پورے ملک میں لہراتا ہے۔ یہ اہم دن اس سخت جدوجہد آزادی کی یاد دلاتا ہے جس کی وجہ سے ہندوستان کو نوآبادیاتی حکمرانی سے آزادی ملی۔ اس لئے یہ دن فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے اور قومی یکجہتی کے بندھن کو مضبوط کرنے کے ایک منفرد موقع فراہم کرتا ہے۔ ایک کثیر الثقافتی معاشرے میں، یہ افہام و تفہیم پیدا کرنے اور مشترکہ شناخت اور تعلق کے احساس کو فروغ دینے کے لیے یہ دن ایک اہم پلیٹ فارم پیش کرتا ہے۔ لیکن جیسے جیسے ہندوستان 21 ویں صدی میں آگے بڑھ رہا ہے، یوم آزادی کی اہمیت نے حب الوطنی کے جذبے اور تاریخی تناظر سے ہٹ کر نئی منزلیں اختیار کرنا شروع کر دی ہیں
اس سال ہندوستان کو آزاد ہوئے 76 سال مکمل ہوۓ اور 77 ویں یوم آزادی کا جشن منایا جا رہا ہے۔ ہندوستان ان تمام رہنماؤں کو سلام کرتا ہے جنہوں نے ماضی میں ہندوستان کی آزادی کی جنگ لڑی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان کے لیے برطانوی حکمرانی سے آزادی حاصل کرنا آسان نہیں تھا۔ لیکن ہمارے رہنماؤں،آزادی پسندوں، اورعام لوگوں نے مل کر آزادی کی جدوجہد میں حصہ لیا۔ اس جدوجہد میں ہر کسی نے اپنا تعاون پیش کیا اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد میں شامل افراد کا تعلق مختلف مذاہب ، ذات، برادری اور ثقافت سے تھا- انگریزوں کا پہلا قافلہ 1601 ءمیں دور جہانگیری میں ہی ہندوستان آیاتھا،اس حساب سے ہندوستان سے انگریزوں کا انخلاء 1947 ءمیں 346 سال بعد ہوا۔ اس دوران ظلم وبربریت کی ایک طویل داستان لکھی گئی تھی، جس کا ہرصفحہ ہندوستانیوں کے خون سے لالہ زار ہے۔
پیار کا جھنڈا اٹھاؤجشن آزادی ہے آج
دیپ نفرت کا بجھاؤ جشنِ آزادی ہے آج
خون دیکر ہم نے بھی سینچا ہے ہندوستان کو
بات یہ سب کو بتاؤ جشنِ آزادی ہے آج
اگر ہم تحریک آزادی کی پوری جدوجہد کا خلاصہ کریں تو یہ تین الفاظ کے گرد گھومتی ہیں جو آزادی کا بنیادی تصور بھی ہیں۔ یہ تین الفاظ؛ قانون کی حکمرانی (Rule of Law)، جمہوریت (Democracy) اور مذہبی آزادی ہیں۔ آزادی کے بعد ہندوستان ایک آزاد، سماج وادی، جمہوری ملک کی حیثیت سے وجود میں لایا گیا ہے جس میں تمام شہریوں کے لیے سماجی، معاشی، سیاسی، انصاف، آزادئ خیال،آزادئ اظہار رائے، آزادئ عقیدہ مذہب وعبادات، انفرادی تشخص اوراحترام کو یقینی بنایا گیا ہے اور ملک کی سالمیت و یکجہتی کو قائم ودائم رکهنے کا عزم کیا گیا ہے۔ مگر ملک اس سال 77 واں یوم آزادی منا رہا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ 76 سالوں میں ہر قوم و ہر فرد کو اُس کی حقیقی آزادی میسر آئی بھی یا نہیں، یا پھر 76 سال پہلے جہاں تھے اب بھی و ہیں ہیں۔
چاہیے کچھ بھی ہو وہ آج سب کے سامنے عیاں ہے پر پھر بھی اس وقت یہ ملک عالمی پیمانے پر ایک مظبوط طاقت بن کے ابھررہاہے اور یہ ملک دیگر میدان میں بھی خاصی ترقی کررہاہے لیکن آج ہمیں وہیں اس بات پر بھی غور کرنا نہایت ہی ضروری ہو گیا ہکہ ہندو مسلم اتحاد اور گنگا جمنی تہذیب جو ہمارے ملک کی روح اور جان ہے جس پر ہمارے ملک کی بقا کا انحصار ہے، ہمارے بزرگوں نے جس نئے ہندوستان کا خواب دیکھا تھا ، اتحاد کا وہ درس جو ہمیں بہادر شاہ ظفر نے دیا تھا ،جس ہندو مسلم اتحادکا مظاہرہ ہمارے آباء و اجداد نے 1857 سے 1947 کے بیچ کیاتھا اور جس ہندو مسلم اتحاد کی طاقت کے سہارے ہمارے بزرگوں نے اس ملک کو انگریزوں سے آزاد کرایا تھا،جوگنگا جمنی تہذیب ہمیں وراثت میں ملی تھی ہم اس ہندو مسلم اتحاد اور اس گنگا جمنی تہذیب کو بچاپانے میں کہاں تک کامیاب ہو پائے ہیں۔ اس لئے ہمارے لئے پندرہ اگست کادن صرف جشن منانے کا ہی دن نہیں ہے بلکہ حقیقی معنوں میں پندرہ اگست کا دن ہمارے لئے محاسبہ کرنے کا دن ہے، ایک ایسا محاسبہ جس میں یہ دیکھا جاسکے کہ وطن عزیز کو تمام طرح کی فرقہ پرستی سے پاک کرنے، گنگا جمنی تہذیب اورہندو مسلم ایکتا کی جڑوں کو مظبوط سے مظبوط ترین بنانے میں ہمارا کیا کردار ہے۔
آج کے دن میں اپنی اس گفتگو کے آخر میں، مَیں بصد رنج و ملال یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ وطن عزیز اس وقت اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ کچھ ہماری اپنی نادانیاں ہیں اور کچھ دشمنوں کی ریشہ دوانیاں ۔ ہر طرف بھوک، افلاس کے ڈیرے ہیں۔ گھمبیر اندھیرے ہیں۔ بڑی دور سویرے ہیں۔ صنعت و حرفت، معیشت، تجارت۔ ہر شعبہ خسارے میں ہے۔ بھائی بھائی کا گلا کاٹ رہا ہے۔ سیاسی، لسانی اور مذہبی اختلافات نے شدت پسندی کو فروغ دینا شروع کر دیا ہے۔ لیکن میرے عزیزو! ہمیں پھر ابھرنا ہے۔ اپنی آن بان کی خاطر۔ پھر اپنی پہچان کی خاطر۔ پیارے ہندوستان کی خاطر۔ یاد رکھیے! ہم کو یہ شعلے نہیں، چاہت کی شبنم چاہئے۔ ہم کو یہ خنجر نہیں، زخموں کا مرہم چاہئے۔ مستقل نفرت کے بدلے، عشقِ پیہم چاہئے۔ متحد ہوکر جئیں، تو ایک طاقت ہم بھی ہیں اور گر سلامت یہ وطن ہے، تو سلامت ہم بھی ہیں۔ اس لۓ کہنا ہکہ۔
خوف آفت سے کہاں دل میں ریا آئے گی
بات سچی ہے جو وہ لب پہ سدا آئے گی
دل سے نکلے گی نہ مر کر بھی وطن کی الفت
میری مٹی سے بھی خوشبوئے وفا آئے گی
ڈاکٹر عاشق حسین گورنمنٹ ڈگری کالج چھاترو میں ایسوسیٹ پروفسر ہیں اور ان سے joinchemistry@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔