محمد ریاض ملک منڈی پونچھ جموں وکشمیر
9858641906
ہر فرد بشر اس بات سے واقف ہےکہ 15اگست 1947کو ہماراملک انگریز سامراج سے آزاد ہوا۔ جو ایک صدی سے زیادہ انگریزوں کے تسلط میں رہا۔ انگریز نے یہاں کو چاہا وہ کیا۔جیسے چاہاایسے ہی اس ملک کو تباہ وبرباد کیا۔ یہاں کے انمول خزانوں کو لوٹ کر اپنے ملک میں لے گیا۔ اس سونے کی چڑیاکو بھوسابناکر اپنے ناپاک عزائیم کو پوراکیا۔ لیکن ہندوستان کے جانثاروں نے آزادی کی خاطر روز اول سے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ کبھی تحریک ریشمی رومال،کبھی تحریک تو کبھی دیگر تحریکیں عروج زوال دیکھتی ہوئیں اپنے منزل کی طرف رواں دواں رہی۔جیلوں کے قیدوبند کی صحبتیں برداشت کرلیں۔کالاپانی جیسی بدنام زمانہ جیلوں میں انسانیت سوز تکلیفیں برداشت کیں۔ جان مال وجائیداد کی تباہی برداشت کی۔ جلیاں والا باغ جیسے قتل عام پر بھی صبروتحمل سے کام لیا۔ہمت نہیں ہارے ۔سب کا ایک ہی مشن تھا۔ایک آواز تھی کہ اپنے ملک سے قابض سامراج انگریز کو نکال کر ہی دم لیں گے۔ ہم رہیں نہ رہیں ہماری نسلیں تو ازادی سے سرشار ہونگی۔غرض کوئی ایسا حربہ اور پروپگنڈہ نہیں تھاجو انگریز نے اس ملک کی تاریخ ازادی کو روکنے کے لئے نہ کیاہو۔ وہ ہر کوشش میں مصروف تھا۔لیکن یہاں ہمارے اسلاف سپاہ سالار مجاہدین ازادی کے متوالے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح اپنے مشن میں ڈٹے رہے۔ 1857سے 1947 تک اس جدوجہد میں بلالحاظ مذہب وملت رنگ ونسل ذات پات ہر ایک نے شرکت کی۔
بلاآخر ایک طویل جدوجہد کے بعد یہ ملک ان خونخوار انگریزوں سے 15اگست 1947کو آزاد ہوا۔ اور ہندوستانی قوم نے راحت کی سانس لی۔ اس جدوجہد کے دوران اقتدار کرسی اور عہدہ منشاء ومقصد نہیں تھا۔بلکہ مشترکہ طور پر ایک ہی مقصد تھاکہ ہمارا ملک ایک آزاد مملکت بنے۔اور دشمن کو کسی نہ کسی طرح سات سمندر پار کیاجاے۔آج جو ہم اس ملک میں آزاد سانس لے رہے ہیں۔یہ ان مجاہدین آزادی کی قربانیوں کا صلاح ہے۔ جنہوں نے وطن کی مٹی کو محبوب سمجھ کر انگریز سامراج کے عہدے منصب مال ودولت جاوجلال عزت اور شہرت کو حاصل نہیں کیا۔بلکہ سب کچھ وطن کی آزادی پر قربان کردیا۔ اسی ملک میں اج عظیم مجاہدین ازادی کی تاریخ کو مسخ کیاجارہاہے۔ ان کے اثار کو مٹایاجارہاہے۔ان جیالوں کے اولاد کو ملک دشمن کہاجارہاہے۔ ہندوستان کو تاریخ کا شہکار بنانے والے اج نفرت اور شک کی نظروں سے دیکھے جارہے ہیں۔اور چھہتر سال گزرجانے کے بعد اقتدار اور کرسی کے نشے میں یہ ترقی ہوئی کہ جس قوم نے ملک کی ازادی کے لئے سب سے پہلے آؤاز بلند کیاتھی۔جس قوم کے جیالوں نے جیل میں اپنے وطن کی محبت میں ترانے لکھے۔جس قوم کے جانثاروں نے ملک میں انگریزوِں کے خلاف جہاد کے فتوے دیے تھے۔ جس قوم کے شھیدوں نے سولیوں پھندوں اور گولی بندوقوں کی پرواہ نہیں کی تھی۔ جس قوم کے علماء صلحاء دانشور سیاسی ،سماجی ہستیوں نے اس ملک کی ازادی میں اپناخون جگر پیش کیا۔ وہی اج دوسرے درجے کے شہری بناے جارہے ہیں۔ان سے سند مانگی جارہی ہے۔ ان کے مذہب پر انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں۔ان کو زندہ جلاکر گولیوں کا نشانہ بناکر مسجدوں کو جلاکر گھروں کو مسمار کیاجارہاہے۔پھر بھی ہم ۔ہندوستانی تھے۔ہم ہندوستانی ہیں اور ہم ہمدوستانی رہیں گے۔ اس وقت دشمن اپنے اعزائیم میں کامیاب ہوا۔ خود تو چلاگیاپر کچھ اپنے اثرات چھوڑ گیا۔ بعین ہی اج ان کی پیروی ہورہی ہے۔ ہندوستان میں ازادی کی تقریبات میں مجاہدین ازادی کے کارنامے بیان نہیں ہوتے۔ان کے دشمن پر حملہ اور ترکیبیں بیان نہیں ہورہی ہیں۔ان کی زندگیوں کے کارنامے بیان نہیں ہورہے ہیں۔ان کے ہمت بہادری استقامت اور جرت کو بیان نہیں کیاجارہاہے۔ ان کے ساتھ انگریز کی جانب سے کی گئی زیادتیوں کا زکر نہیں ہوتاہے۔ بس ناچ ،گانے رقص،ظاہری نمائیش ،دیکھاوا اور شور غل میں ازادی کے مقصد کو فوت کردیاجاتاہے۔ترنگاکی عظمت کو نہیں سمجھے اس لئے اس کو گندے مندے ہاتھوں میں بھی تھمادیا۔ جس کو ہمارے اکابر وضوکرکے ہاتھ لگاتے تھے۔غرض ہر طرح سے اب مجاہدین ازادی کے کارناموں کو نظر انداز کرکے اپنی شہرت کا ڈھنکابجاکر مجاہدین ازادی ہند کی قربانیاں اور کارنامے بھلادیے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ یہاں ہر طبقہ کے مردوزن نے اپنے وطن کی ازادی کے حصول کے لئے قربانیاں دی ہیں۔ جن میں نمایا باباے قوم مہتاماگاندھی،پنڈت جواہر لال نہرو،سردار پٹیل ،مولاناآزاد ، علامہ اقبال ،کے علاوہ سینکڑوں مجاہدین ازادی کی قربانیوں سے یہ ازادی نصیب ہوئی ہے۔مگر اس تحریک ازادی میں نمایاکردار مسلم مجاہدین اور رہنماوں نے اداکیاہے۔ان مجاہدین آزادی پر ایک سرسری سی نظر ڈالیں تو ہمیں بے اختیار ٹیپوسلطان، حیدر علی خاں، عظیم اللہ خاں، بدرالدین طیب جی، رحمت اللہ ایم سیانی، پیر علی، شیخ بھکاری ، شیخ محمد گلاب، بی اماں، شوکت علی، محمد علی، محمد علی جوہر، شیر علی، مولانا منصور انصاری، محمد اشفاق اللہ خاں، پروفیسر عبدالباری، سیف الدین کچلو، مولانا حفظ الرحمن، محمد سلیمان انصاری، خالد سیف اللہ انصاری، شفیق الرحمن قدوائی، حکیم اجمل خاں، حضرت محل، قاضی محمد حسین، مظہر الحق،مختار احمد انصاری، آصف علی،حاجی بیگم، مولانا عبد الرحیم صادقپوری، مولانا احمد اللہ صادقپوری، دلاور خاں، سر سید سلطان احمد، محمد یونس،ڈاکٹر سید محمود، ابو محمد ابراہیم آروی، شاہ محمد زبیر، مغفور احمد اعجازی، سر سید محمد فخرالدین، سر علی امام، کرنل محبوب احمد، پیر محمد یونس،وارث علی، مولانا ابولکلام آزاد، رفیع احمد قدوائی،مولوی محمدجعفر،مولانا برکت اللہ بھوپالی، مولانا یحییٰ،عبیداللہ سندھی، عطااللہ شاہ بخاری،مولوی عبدالغنی ڈاروغیرہ جیسے سیکڑوں، ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں ایسے مسلم مجاہدین آزادی کے نام ہیں، جنہوں نے نہ صرف 1857 کی بغاوت میں بلکہ نمک ستیہ گرہ تحریک، ہندوستان چھوڑو تحریک، کاکوری کیس، قصہ خوانی بازار میں، جلیان والا باغ کے خونیں واقعے،ناگپور جھنڈا تحریک وغیرہ میں اپنے ایثار و قربانی سے حب الوطنی کی ایسی مثالیں پیش کی ہیں ۔کہ حقیقت پسند اور سیکولرانگریز تاریخ داں بھی مسلمانان ہند کی قربانیوںکا اعتراف کر چکے ہیں۔ تاریخ کے اوراق ان خونیں سانحات کے گواہ ہیں کہ تقریباً 65 فیصد مسلم مجاہدین آزادی نے ملک کو انگریزوں کی غلامی کی طوق سے نجات دلانے میں اہم اور نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک کے مسلم مجاہدین آزادی کی تفصیلات اس قدر زیادہ ہےکہ اس کا احاطہ بھی ناممکن ہے۔ ضرورت اس بات کی ہےکہ اس وقت ہم اپنے اکابر کی تاریخ کا مطالعہ کریں۔ ملک کی خاطر قربانیوں کو یاد کریں۔اور یہی پیغام یوم ازادی کے موقع پر پوری ہندوستانی قوم کو دیں ۔ چند ایک مجاہدین ازادی کے کارناموں پر انحصار کرکے 99فیصدی مجاہدین کو بھول جانا انصاف نہیں بہت زیادہ ستم ہوگا۔ضرورت اس بات کی ہےکہ تاریخ کے پس منظر میں تمام مجاہدین ازادی کو بلالحاظ مذہب وملت تاریخ میں مقام دیاجاے۔اور اج گر ہم میری مٹی میرادیش کا نعرہ لگارہے ہیں یہ انہیں مجاہدین کے لہو کا صلاح ہے۔ کہ ہم آزاد ہیں۔ اور ازادی کاجشن مناکر خود کو خوش قسمت تسلیم کرلیتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یوم ازادی کے دن اس رب کو بھی سجدہ شکر اداکرناچاہے۔جس نے یہ ازادی کی نعمت عطاکی ۔اور اج ہم بڑے شوق سے ازادی کا جشن منارہے ہیں۔!!!!