ہندوستان دوراہے پر،پاکستان چوراہے پر

0
0

پروفیسر قدوس جاوید۔
سابق صدر ۔شعبئہ اردو کشمیر یونیورسیٹی ۔

برِ صغیر ہندوستان پاکستان میں’ آزادی ‘ آبرو باختہ ہو کر لہو لہان آئی تھی ، لیکن ۷۵ سال گزر جانے کے باوجود دونوں طرف کے حکمران اس آزادی کی صحت مندی اور تندرستی کے معاملے میں کوتاہی ہی برتتے رہے ہیں ۔ اور آزادی کی صبح کو آج بھی غلط یا صحیح ’’شب گزیدہ سحر ‘‘ ہی گرداناجاتا ہے ۔ پاکستان کو ’اسلامی جمہوریہ کا نام دیا گیاتھا لیکن پاکستان میں میں وہ سب غیر اسلامی حرکتیں دھڑلے سے ہو رہی ہیں جس کی اجازت ’اسلام ‘ قطعی نہیں دیتا ۔ ہندوستان کی پیشانی پر’’ سیکولر جمہوریہ ‘ کا تمغہ سجایا گیا تھا ،لیکن اب کھلے عام ’ جمہوری قدروں کی دھجیاں اُڑائی جا رہی ہیں۔ اشتعال انگیز نفرتی نعرے بلند ہو رہے ہیں ۔ ہندوستان کی تاریخ ہزاروں برسوں پر محیط ہے ۔ جس کے کئی روشن باب ہیں لیکن اب ایک مخصوص زاوئے سے ایک نئی تاریخ لکھنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔پاکستان کی ۴۷ ۱۹ئ۔سے پہلے کی کوئی تاریخ ہی نہیں ۔ اور
پاکستانی قوم ، کرکٹ کے سوا کسی اور شعبے میں کوئی تاریخ بنا بھی نہیں پا رہی ہے ۔ قیام پاکستان کے بارے میں وہاں کے مورخین نے جو تاریخ گھڑی ہے ا س کی بنیادہندوستان کے تئیں نفرت پر رکھی گئی ہے ۔ لیکن آج کے حالات میں پاکستان کی من گڑھت تاریخ خود اس کے پاوئں کی زنجیر ثابت ہو رہی ہے ۔ اگر پاکستان نے ہندوستان کے ساتھ دوستی اور بھائی چارگی کا رشتہ رکھا تو آج کی مُصیبت کی
گھڑی میں ہندوستان اپنے پڑوسی ملک پاکستان کی جو کبھی ہندوستان کے ہی جسم کا حصہ تھا ، اس کی مدد کرنے میں پیچھے نہیں رہتا ۔اسی لئے
چند روز قبل ہی ہندوستان کے ایک سابق فوجی افسر میجر گورو آریہؔ نے اپنے ایک ’یو ٹیوب پروگرام میں ،پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عا صم منیر کو مشورہ دیاتھا کہ اگر اپنے ملک کو بچانا ہے تو سب سے پہلے ’’بھارت دُشمنی ‘ پر مبنی تاریخ پڑھانا بند کرو ‘‘۔ دوسری بات یہ کہ ہندوستان اور پاکستان کے بیچ دوری،دشمنی کی ایک بڑی وجہ مسئلہ کشمیر بھی ہے ،جسے بھارت بجا طور پر اپنا’’ اٹوٹ انگ‘‘ مانتا ہے اور پاکستان اسے اپنی ’شہہ رگ‘ قرار دیتا ہے ۔ لیکن پاکستانی عوام کو بھی پتہ ہے کہ یہ ایک فریب پیہم میں مبتلا رکھنے کے سوا اور کچھ نہیں ۔ پاکستان کے موجودہ حُکمراں مُحبِ وطن کتنے ہیں،اس سے ہم ہندوستانیوں کا کوئی تعلق نہیں لیکن بقول عمران خاں سب کے سب محض مفاد پرست ہیں،اور ا ان کے کروڑوں ڈالر غیر ممالک کے بینکوں میں محفوظ ہیں۔ حکمرانوں اور نام نہاد سیاست دانوں کے برعکس پاکستان کے عام ہوش مند شہری
دونوں ملکوں کے بیچ خوشگوار تعلقات چاہتے ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ ہندوستان کے ساتھ خوشگوار برادرانہ تعلقات قائم رکھ کر ہی،پاکستان اپنے وجود کو برقرار رکھ سکے گا ۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان ہندوستان کے خلاف دہشت گردی، در اندازی،گُھس پیٹھ اور نفرت کا بازار گرم کرنے کے بجائے محبت کا ماحول قائم کرنے پر توجہ دے ۔ایک سامنے کی سچائی یہ بھی ہے کہ تقسیم ملک کے دنوں میں پاکستان سے ہندوستان آنے والے ’ رِفیوجی ‘ ہندوستانی ماحول معاشرے میں ضم ہو کر زندگی کے ہر شعبے میں اپنا مقام پیدا کر رہے ہیں، لیکن
روشن مستقبل کے خواب سجاکر پاکستان ہجر ت کرنے والے ’’مہاجرین‘‘ آج بھی’ مہاجر‘ ہی ہیں ۔پنجابی اور پٹھان پاکستانی ، ان مہاجرین کو جنہیں عُرفِ عام میں ’بہاری‘ ‘کہا جاتا ہے عام حالات میں اپنے ماحو ل معا شرے میں قبول کرنے سے پرہیز ہی کرتے ہیں۔
ہندوستانی اور پاکستانی عوام کی نفسیات ایک جیسی رہی ہے۔ جینے مرنے ،شادی بیاہ کے رسم و رواج اور روز مرہ کے مسائل بھی عام طور پر ملتے جُلتے ہیں ۔فرق صرف یہ ہے کہ پاکستانی ، تقسیم ملک کی ’ہمالیائی غلطی ‘کو دُرست ثابت کرنے کے لئے ’ پاکستانیت‘ کا دکھاوا زیادہ
کرتے ہیں جبکہ ان کے خمیر کی گہرائیوں میں ہندوستانیت ہی ہے ۔ ویسے یہ دوسری بات ہے کہ ہم بھارتی کئی اسباب کی بنا پر ہندوستانی سے زیادہ ’ہندو یا مسلمان کے خانوں میں بٹتے چلے جا رہے ہیں اور یہ بات ہماری آنے والی کئی نسلوں کے لئے ہلاکت خیز ہے ۔آج پاکستان بھوک اور بھیک کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے پاکستانی وزیر اعظم کٹورا لے کر پوری دنیا سے بھیک مانگ رہے ہیں لیکن چین، قطراورسعودی عرب جیسے دوست ممالک بھی ان کے کشکول میں وعدوں کے سوا کوئی اور کچھ نہیں ڈالتا ،اور پاکستان کی حالت ’’پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں ‘ ‘جیسی ہو چکی ہے ۔پاکستان کا خزانہ خالی ہو چکا ہے ۔ بار بار ہاتھ جوڑنے اور پاوئں پڑنے کے باوجود I.M.F. پاکستان کو گھاس ڈالنے پر تیار نہیں۔ مالی اعتبار سے بنگلہ دیش ،پاکستان سے بہت آگے نکل چکا ہے ۔ ہندوستان میں ٖForeign Reserve چھ سو( ۶۰۰)ارب ڈالر سے زیادہ ہے ، جبکہ پاکستان میں، محفوظ،چین اور سعودی عرب کی سابقہ سرمایہ کاری کے بچے کُھچے ڈالرس کے باوجود I.M.F. کی تسلی کے لئے دو چار ارب ڈالر بھی اپنے Reserve Fund میں دکھانے سے قاصر ہے ۔ عمران خان کا الزام ہے کہ ملک کا سارا خزانہ حکمراں ’شریفین ‘ لوٹ کر لندن لے گئے ہیں ۔ہندوستان بھی غریبی، مہنگائی اور بیروزگاری کے سبب معاشی بدحالی کے کگار پر پہنچ چکا ہے، پھر بھی ہندوستان معاشی اور صنعتی خود مختاری کی طرف بڑھ رہا ہے ۔لیکن پاکستان میں پیٹ کی آگ بجھانا عام آدمی کے لئے مشکل ترین ہو چکا ہے ۔ لمبی لمبی قطاروں میں لگ کر آٹے کی بوری کی چھینا جھپٹی میں کتنے لوگوں کی ہلاکت ہو چکی ہے کوئی نہیں بتاتا ،لیکن پاکستان کی پبلک سب کچھ جانتی ہے ۔بھوکے بچوں ، بیمار بوڑھوں اور پردہ دار عور توں کو خودکشی پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے
سیاسی جماعتوں کی آپسی رسہ کشی کے سبب عام عوام میں خوف و دہشت اور عدم تحفظ کا احساس گہرا گیا ہے ۔چھاپہ، گرفتاری ، آتش زنی روزمرہ کا معمول بن چکا ہے ۔ ۹۔مئی کے سانحے کا الزام عمران خان کی پارٹی P.T.I’ پر دھرا گیا ہے ،دہشت گردی کے الزام میں دس ہزار
سے ز یادہ افراد جیلوں میں بند ہیں ۔ ان میں عورتیں بھی شال ہیں اور اپوزیشن لیڈروں کا الزام ہے کہ بعض عورتوں کے ساتھ مبینہ طور پر جسمانی کے علاوہ ’’ جنسی ‘‘زیادتیاں بھی کی جا رہی ہیں ۔حد تو یہ ہے کہ شر پسند وں نے بانئی پاکستان محمد علی جناح کی یادگار اور حکیم الاُمت علامہ اقبال کی بہو کے گھر تک کو نہیں بخشا ۔وہی علامہ اقبال جن کے بارے میں ہر پاکستانی یہ دعوی کرتے نہیں تھکتا کہ ، ’ پاکستان کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا جسے محمد علی جناح نے اپنے دوقومی نظریہ کی سیاست کے زریعے شرمندہِتعبیر کیا ۔ (حالانکہ اب یہ تھیوری غلط ثابت
ہو رہی ہے ) ۔ پاکستان کی حکومت ۔ ۹۔مئی کے واقعے کی بنیاد پر عمران خان کو ، ذوالفقار علی بُھٹو کی طرح ’پھانسی پر چڑھانے کے درپئے ہے ۔ لیکن عمران خان اور کئی دیگر صحافی ۹۔مئی ۔کے واقعات کو نواز شریف کے لندن پلان کے تحت ایک منصوبہ بند سازش قرار دے رہے ہیں ۔
پاکستان کے ایک صحافی فائق صدیقی نے اپنے یو ٹیوب چینل پر ،کھلے لفظوں میں اسے وزیرداخلہ رانا ثنائ۔اللہ کی کارستانی قرار دیا ہے ۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی بھی بری طرح ناکام ہوچکی ہے ،جبکہ ہندوستان کی خارجہ پالیسی کی تعریف خود پاکستانی سیاست داں بھی کرتے ہیں
۔ پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خاں نے اقوام متحدہ میں ’’ اسلامو فوبیا‘‘ کا سوال کھڑا کرکے ’’مسلم ممالک میں اپنی توقیر بڑھالی تھی
لیکن یہ بھی سچ ہے کہ مسلم ممالک میں پاکستان کے موجودہ حکمرانوںکے مقابلے میں وزیر اعظم مودی کی زیادہ قدر افزائی ہوتی ہے ۔یہاں تک کہ ہندوستانی وزیر اعظم شری مودی ایک مسلم ملک میں ’مندر‘ بنوانے میں بھی کامیاب ہوچکے ہیں ۔مسلم ممالک ،پاکستان کے مقابلے میں ہندوستان کو زیادہ معتبر سمجھتے ہیں ۔ عرب ممالک کے حکمراں جس گرم جوشی سے ہمارے وزیر آعظم کو گلے لگاتے ہیں اتنی گرم جوشی شائد ،عید بقرعید میں کوئی مقتدی اپنے امام صاحب کے گلے لگنے میں بھی نہیں دکھاتا ۔ آج کی تاریخ میں اندرون خانہ پاکستان ہر سطح پر انتشار اور بحران سے دوچار ہے اور کسی بھی وقت پاکستان میں ’سری لنکا ‘جیسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں ۔یہ دوسری بات ہے کہ اپنے وطن ہندوستان میں بھی راوی چین سکون نہیں لکھتا ۔کسانوں سے لے کر پہلوانوں تک کو حکومت سے شکایت ہے ۔ محنت کش مزدور اور نچلے طبقہ کی معاشی بدحالی دھماکہ خیز ہو چکی ہے ۔ حکومت کو نُکتہ چینیوں کا سامنا ہے ،پھر بھی حالات قابو میںہیں۔پاکستان کی طرح ہندوستان میں بھی حکومت پر سرمایہ داروںکی سرپرستی اور بدعنوان ہونے کے الزامات لگائے جا رہے ہیں ۔ حکومت اور سرمایہ داروں کے ر شتوں کو مخالف پارٹیاں ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہیں اور حکومت سے کوئی تشفی بخش جواب نہیں بن پا رہا ہے ۔پاکستان میں سابق وزیر اعظم عمران خان ، حکومت کے خلاف ریلی اور لانگ مارچ کرتے رہتے ہیں ۔ ہندوستان میں بھی سابق صدر کانگریس راہول گاندھی مودی سرکار کے خلاف کنیا کماری سے کشمیر تک ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘اور کرناٹک سے امریکہ تک ریلی اور جلسہ جلوسوں کا اہتمام کر رہے ہیں ۔ پاکستان میں
لاقانونیت اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے ۔سپریم کورٹ کے حُکُم نامے کے باوجود پاکستان میں انتخاب(چُناوئ)کی کوئی صورت نظر نہیں آتی
۔ہندوستان میں ہماچل اور کرناٹک میں ’بھاجپا‘ کی شکست اور کانگریس کی فتح کے بعد ، ’بھاجپا‘ میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے ۔ ۲۰۲۴ئ۔ کے’چُناو) میں بھاجپا کس حد تک کامیاب ہوگی اس کے بارے میںپورے ملک میں ایک کنفیوژن کی کیفیت پائی جاتی ہے ۔دو سری جانب آج کی تاریخ میں کانگریس کی پوزیشن بہت بہتر اور مضبوط ہوئی ہے ۔ راہُلگاندھی بھی ،بقول سینئیر دانشور انوراگ چتُرویدی ، اب حیرت انگیز طور پر بدل گئے ہیں، MATURE ہو گئے ہیں راہل گاندھی اب وہ راہل گاندھی نہیں رہے جس نے پارلیامنٹ میں ’بِل‘ پھاڑا تھا اور مودی جی کے گلے لگ گئے تھے ۔آج کا راہل گاندھی کا قد ہندوستان کے کسی بھی دوسرے قومی لیڈر سے کم نہیں ہے ۔اب کوئی بھی انہیں ’’پپو‘‘ کہنے کی جسارت نہیں کر سکتا ۔ بلکہ کئی دوسرے لیڈران راہل کے سامنے ’پپو،اور ڈبو ‘ثابت ہو رہے ہیں ۔ اس لئے ، ۲۰۲۴ئ۔کے چنائو میں ،راہل کی قیادت میں اگر کانگریس ،بھاجپا کو DENT پہنچانے میں کامیاب ہو جائے تو اس پر تعجب بھی نہیں ہونا چاہئے ۔ لیکن پردھان منتری مودی اور امیت شاہ سیاست کے بازی گر ہیں، ان کی جوڑی کب کیا منتر پھونک کر پانسہ پلٹ دیں کچھ کہا بھی نہیں جا سکتا ۔ویسے بھاجپا نے ہندوستانی عوام کی سہولت ،وکاس اور خوشحالی کے لئے کئی تاریخی کارنامے بھی انجام دئے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے ۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ ’بھاجپا ‘ کو بھی اب احساس ہو گیا ہے کہ اس کی کامیابی کے لئے مسلمانوں کی بھرپور حمایت بھی ضروری ہے ۔ اس
سلسلے میں خود پردھان منتری مودی Damage Controll کے لئے سرگرم ہو گئے ہیں ۔ اب وہ ’’غریبی ریکھا‘ کے نیچے کے مسلمانوں کو گلے لگانا چاہتے ہیں اور اس کے لئے مودی جی ’’سنیہہ یاترا‘ ‘ نکالنے جا رہے ہیں جس کی شروعات انہوں نے حیدرآباد سے کر دی ہے ۔ لیکن پھر بھی مسلمانوں کے دلوں میں ’بابری مسجد،گُجرات، شاہین باغ اور بُلڈوزر کے حوالے سے جو زخم ہیں ،ان کی ٹیسیں انہیں بھاجپا سے دو ر اور کانگریس اور دوسری پارٹیوں سے نزدیک کرتی رہتی ہیں ۔ دراصل بھاجپا کے پاس ’’چُنائو جیتنے کے لئے ’’کام، دام، دنڈ بھید بہت کچھ ہے ، جبکہ دوسری پارٹیوں کو اس کا عشرِعشیر بھی نصیب نہیں۔ ۔ لہذا واقعی اگر مسلمانوں کی حمایت حاصل ہو گئی تو پھر ’بھاجپا ‘ کو ہرانا ناممکن نہیں تو بے حد مشکل ضرور ہوجائے گا ۔ کیونکہ کانگریس کے پاس کیا ہے؟ پیسہ نہیں ہے ، صرف راہل ہیں ۔اورراہُل کے پاس کیا
ہے ؟صرف ’ماں‘ ۔۔۔ ، غلام نبی آزاد کا ، کانگریس سے الگ ہونا ایک المیہ ہے ۔پرینکا گاندھی ، بہت کچھ کرنے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود زیادہ وقت نہیں نکال پاتیں، ششی تھرور اور صدر کانگریس شری کھڑگے کو ہندوستان کے کئی علاقوں میں عام لوگ جانتے پہچانتے بھی نہیں ۔ پھر بھی اگر راہُل/کانگریس کو دوسری پارٹیوں کی بھی حمایت مل جائے تو ۲۰۲۴ئ۔ کا ’چُنائو‘ دلچسپ ہو جائے گا حالات بدل سکتے ہیں۔ بہر حال ہزاروںسال سے ایک عظیم سرزمین تصور کیا جانے والا ’’متحدہ ہندوستان ‘‘ ۱۹۴۷ئ۔کے بٹوارے کے ۷۵ سال بعد اس طرح بحران سے دوچار ہو جائے گا کسی نے سوچا بھی نہ ہوگا ۔لہذا ،سیاسی اعتبار سے کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت ہندوستان دوراہے پر کھڑا ہے لیکن کوئی خوش ہو یا ناراض ہندوستان کی موجودہ لیڈر شِپ( مودی جی اور امیت شاہ ) سمت کا تعیُن کر چُکی ہے اس لئے کوئی نہ کوئی راستہ مل جائے گا
۔البتہ پاکستان میں جو دھماکہ خیزصورت حال پیدا ہو گئی ہے اس کے پیش نظر پاکستان کا وجود ہی کسی بھی وقت کچے گھڑے کی طرح چوراہے پر پھوٹ سکتا ہے ۔
ختم شُد

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا