کہاپارٹی کے قیام کے دن جموں کشمیر کے عوام کے ساتھ کئے گئے وعدوں کو پورا کریں گے
لازوال ڈیسک
سرینگر؍؍اپنی پارٹی کے تیسرے یومِ تاسیس کو آج جموں کشمیر کے تمام حلقہ ہائے انتخابات میں جوش و خروش کے ساتھ منایا گیا۔ پارٹی کے قائدین نے اس اہم موقعے پر اپنا عہد دہرایا کہ وہ 8 مارچ 2020 یعنی پارٹی کے قیام کے دن جموں کشمیر کے عوام کے ساتھ کئے گئے وعدوں کو پورا کریں گے۔ ان وعدوں میں جموں کشمیر کا ریاست کا درجہ بحال کرانے، اسمبلی انتخابات کرانے اور جموں کشمیر کی خواتین کو بااختیار بنانے جیسے کلیدی وعدے شامل ہیں۔اس ضمن میں موصول ہوئے ایک بیان میں کہا گیا ہے، ’’اپنی پارٹی کے لیڈران اور کارکنان نے آج پارٹی کا تیسرا یوم تاسیس اْوڑی سے لیکر کٹھوعہ تک کے تمام اسمبلی حلقوں میں جوش و خروش کے ساتھ منایا۔ وسیع پیمانے پر یہ جشن منانے کا مقصد زمینی سطح پر عوام کے ساتھ روابط کو قوی کرنا اور اپنے عزم کو دہرانا تھا۔‘‘بیان میں کہا گیا ہے، ’’اس پارٹی کی بنیاد سید محمد الطاف بخاری اور ان کے ساتھیوں نے ایک با وقار ایجنڈے کے ساتھ ایک ایسے وقت میں رکھی تھی، جب جموں و کشمیر کے روایتی سیاستدان نظر بند تھے اور لوگوں کو ایک ایسی قیادت کی اشد ضرورت تھی جو ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہو۔ اْس وقت لوگ شدت کے ساتھ ایک سیاسی قیادت کے سامنے آنے متمنی تھے، جو ان کا سہارا بنے اور اْن کی حوصلہ افزائی کرنے کے ساتھ ساتھ پیدا شدہ سیاسی خلا کو پْر کرتی۔ سیاسی خلا نے دونوں خطوں یعنی وادی اور جموں کو شدید نقصانات کے احتمال سے دوچار کردیا تھا۔ اْس وقت سب سے زیادہ خطرناک بات یہ تھی کہ جموں کشمیر میں جغرافیائی، علاقائی، مذہبی اور طبقاتی سطحوں پر تقسیم در تقسیم کا خدشہ پیدا ہوگیا تھا۔‘‘بیان کے مطابق پارٹی کے یوم تاسیس پر آج سرینگر کے صنعت نگر علاقے میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے سید محمد الطاف بخاری نے کہا، ’’پنی پارٹی کی بنیاد رکھنے کے بعد، ہمارے سامنے پہلا چیلنج اندھیروں میں اْمید کی کرن کو اْجاگر کرنا تھا اور عوام کو حوصلہ فراہم کرنا تھا۔ اْس وقت لوگوں میں دفعہ 370 کی منسوخی کی وجہ سے گہری مایوسی تھی۔ اْس وقت کی نازک صورتحال کو نظر انداز کرنا کسی بہت بڑے خطرے کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ چنانچہ ہم نے اپنے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوجانے کا فیصلہ کرتے ہوئے ایک حکمت عملی مرتب کی۔‘‘انہوں نے مزید کہا، ’’ہم عوام کے دْکھ درد میں شریک تو تھے ہی لیکن اْس وقت اصل ضرورت مسائل کا کوئی قابل عمل راستہ تلاش کرنا تھا۔ اس لیے ہم نے تصادم کی سیاست نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہم جانتے تھے کہ تصادم کی سیاست سے لوگوں کی کوئی مدد نہیں ہوگی بلکہ اس سے جموں و کشمیر میں موجود سیاسی خلا مزید گہرا ہوگا۔‘‘اس دوران آج سید محمد الطاف بخاری نے جموں و کشمیر میں فوری طور پر اسمبلی انتخابات کرانے کے اپنی پارٹی کے مطالبے کو دہراتے ہوئے کہا، ’’جموں کشمیر میں اسمبلی انتخابات مزید کوئی تاخیر کئے بغیر کرانا ملک کے جمہوری اقدار کے تحفظ کیلئے بھی ضروری ہے۔ اسمبلی انتخابات کا انعقاد مرکزی سرکار اور الیکشن کمیشن آف انڈیا (ای سی آئی) کی آئینی ذمہ داری ہے۔‘‘انہوں نے مزید کہا، ’’جموں و کشمیر کے لوگوں نے 19 جون، 2018 کو اپنی منتخب حکومت کھو دی تھی۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ملک کی باقی ریاستوں اور یونین ٹریٹریز میں ہر پانچ سال بعد انتخابات ہوں اور جموں و کشمیر کے عوام کو اس آئینی اور جمہوری حق سے مسلسل پانچ سال بعد بھی محروم رکھا جائے۔‘‘اپنی پارٹی کے صدر نے کہا کہ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد اپنی پارٹی کی لیڈرشپ نے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے ساتھ پہلی ملاقات میں اْن سے یہ ضمانت مانگی کہ جموں کشمیر کی ڈیموگرافی کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں ہوگی اور یہاں کی زرعی زمینوں اور ملازمتوں پر یہاں کے لوگوں کا ہی حق برقرار رہے گا۔ ہم نے اْس وقت حکومت ہند کو متنبہ کیا کہ جموں کشمیر میں اراضی قوانین کے ساتھ کسی طرح کی بھی چھیڑ چھاڑ اور مقامی نوجوانوں کے روزگار کے مواقعوں کو محدود کرنے کی کسی بھی کوشش کے سنگین نتائج برآمد ہونگے۔‘‘انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ جب اپنی پارٹی کو جموں و کشمیر میں حکومت بنانے کا مینڈیٹ ملے گا، تو یہ جموں کشمیر کے حالات کو بہتر بنانے میں جھْٹ جائے گی۔ انہوں نے کہا، ’’ہماری حکومت تمام سخت قوانین اور انتظامی اقدامات بشمول پراپرٹی ٹیکس کے نفاذ اور انہدامی مہم، کو عوام کی منشا کے مطابق بدل دے گی۔ انہوں نے مزید کہا، ’’ہم عوام کے ساتھ وعدہ بند ہیں کہ جب ہماری حکومت آئے گی تو ہم غریب خواتین کی شادیوں کیلئے دی جانے والی سرکاری امداد کو پچاس ہزار روپے سے بڑھا کر ایک لاکھ روپے کریں گے اور بیواوں اور بزرگوں کی موجودہ ایک ہزار روپے کی ماہانہ پینشن کو پانچ ہزار روپے تک بڑھائیں گے۔ اس کے علاوہ ہم وادی کے صارفین کو سردیوں میں 500 یونٹ اور گرمیوں میں 300 یونٹ بجلی مفت فراہم کریں گے۔ جبکہ جموں میں گرمیوں میں 500 یونٹ اور سردیوں میں 300 یونٹ بجلی مفت دی جائے گی۔ مزید یہ کہ ہماری حکومت جموں کشمیر میں ہر گھر کو سالانہ 4 سیلینڈروں کی گیس مفت فراہم کرے گی۔‘‘یومِ تاسیس کے موقعے پر پارٹی کے سینئر نائب صدر غلام حسن میر کنزر ٹنگمرگ میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ہم اْن تمام وعدوں پر قائم ہیں اور ہمیشہ رہیں گے، جو ہم نے اپنی پارٹی کے قیام کے پہلے دن جموں کشمیر کے لوگوں کے ساتھ کئے ہیں۔ جب ہم یہ کہہ کر اپنی پارٹی کے سفر کی شروعات کی کہ ہم جموں کشمیر کا ریاست کا درجہ بحال کرائیں گے، تو کچھ پارٹیوں اور افراد نے یہ کہہ کر ہمارا مذاق اڑانے کی کوشش کی کہ ریاست کا درجہ بحال کرانے کا وعدہ تو خود حکومت ہند نے کیا ہوا ہے۔ لیکن آج تین سال سے زائد عرصہ گزرنے پر یہی پارٹیاں اور افراد خود کہہ رہے ہیں کہ ریاست کا درجہ بحال کرنے کیلئے جدوجہد کرنی پڑے گی۔‘‘غلام حسن میر نے مزید کہا، ’’یہ ہماری استقامت، موثر استدلال کے علاوہ نئی دہلی کے ساتھ مختلف فورموں پر مسائل کو اْجاگر کرنے کا نتیجہ تھا کہ وزیر داخلہ امت شاہ نے کہہ دیا کہ اسمبلی انتخابات کے انعقاد کے بعد جموں کشمیر کا ریاست کا درجہ بحال کیا جائے گا۔ اس طرح سے ہمارے اس موقف کو تقویت حاصل ہوئی کہ بڑے مقاصد کے حصول کیلئے اسمبلی انتخابات کا فوری انعقاد ناگزیر ہے۔‘‘انہوں نے کہا کہ اپنی پارٹی پْرفریب سیاست پر یقین نہیں رکھتی ہے۔ اْن کا کہنا تھا، ’’ہم دھوکہ دہی کی سیاست یا لوگوں کے ساتھ جھوٹے وعدے کرنے اور جذباتی نعرے لگانے پر یقین نہیں رکھتے ہیں۔ ہم آپ سے صرف وہی وعدہ کریں گے جن کو پورا کرنے کے حوالے سے ہم خود پْر اعتماد ہوں۔ روایتی سیاسی جماعتوں کے برعکس اپنی پارٹی کبھی بھی لوگوں کو اْن کے لئے چاند تارے توڑ لانے جیسے نا قابلِ حصول وعدے نہیں کرے گی۔روایتی جماعتیں سالہا سال تک عوام کو لبھانے کے لئے نام نہاد رائے شماری، اٹانومی، اور سیلف رول جیسے نعروں کے ذریعے گمراہ کرتی رہی ہیں۔ دراصل یہ جماعتیں لوگوں کو جھْل دیکر اقتدار حاصل کرنے اور اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کیلئے اس طرح کے جھوٹے وعدے کرتی رہی ہیں۔ لیکن اپنی پارٹی نہ تو جذباتی نعرے لگائے گی اور نہ ہی عوام سے جھوٹے وعدے کرے گی۔ ہم سچائی کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں۔‘‘