محمد شبیر کھٹانہ
9906241250
با شعور کا مطلب ھے احساس رکھنے والا سادہ الفاظ میں شعور اپنے آپ اور اپنے ماحول سے با خبر رہنے کو کہا جاتا ھے اور انگریزی میں اس کو Conscious کہتے ہیں طب نفسیات میں اس کی تعریف یو کی جاتی ھے کہ شعور اصل میں عقل(mind) کی ایسی کیفیت ھے جس میں ذاتیت یعنی اپنے بارے میں پوری طرح با خبر ہونا دانائی اور آگاہی کی خصوصیات پائی جاتی ہیں اور ذاتی اور مالی حالتوں میں ایک رابطہ موجود ھو حق و باطل میں تمیز کرنے کے لئے شعور و بصیرت کی راہ تبارک تعالی نے انسان کو عنایت کی ھے
اگر عقل و شعور کی آنکھیں کھول کر انسان دیکھے تو پھر ہی اسے مقصد حیات سمجھ میں آئے گا احساس ، حس اور ضمیر کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ھے ان میں سے ایک۔بھی غائب تو دوسرے کو بھی خطرہ ہو جاتا ھے ضمیر صیح اور غلط میں تمیز کرنے کی اخلاقی حس بد کا احساس اور نیکی کا جذبہ ھے شعور کا مطلب احساس ہونا اور محسوس کرنا بھی ھے یہ سب تب ممکن ھے جب حواس خمصہ درست طور پر کام۔کرتے ہوں اگر کسی انسان کے اندر محسوس کرنے کی حس ہو گی تب ہی وہ دوسروں کی خوشی اور غم کا احساس کر سکتا ھے
اگر ایک انسان کی زندگی میں احساس موجود ھے تب ہی وہ زندوں میں شمار ہوتا ھے احساس در اصل ایک خوبصورت اور معصوم سا جذبہ ھے اور یہ ہی ایک انسان کی خوبصورت زندگی کی پہچان ھے ہم اپنے بھائی بہنوں ماں باپ سے محبت کا اظہار کرتے ہیں ان کا خیال بھی رکھتے ہیں در اصل یہ سب احساس کی وجہ سے ھے احساس ہی کی بدولت ہمارے دل میں ان سب کے لئے محبت پیدا ہوتی ھے اب یہ بھی لازمی ھے کہ جس کا جتنا علم زیادہ ھے اس کا ضمیر اتنا ہی پختہ اور احساس زندہ ہونا لازمی ھے ثابت ہوتا ھے کہ تمام اساتذہ اکرام کا ضمیر زندہ اور تمام اساتذہ کو ہر ایک سب سے زیادہ احساس ہونا چائیے
انسان کے وجود میں اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو پوری کائنات بسی ہوتی ھے ہمارا جسم حواس خمصہ کی بدولت ہی قریب کی اشیا اور تقاضوں سے با خبر ہوتا ھے لیکن اس کو مستقبل کے تقاضوں کی بھی ضرورت ہوتی ھے یہ حقیقت ھے کہ اگر انسان کے جسم کے تمام اعضا صیع کام کرتے ہیں تو دنیا میں اس سے بڑھ کر شاید ہی کوئی دوسری نعمت انسان کے لئے موجود ھے یعنی تندرست توانا جسم ہی انسان کے لئے اللہ تبارک تعالی کی طرف سے سب سے بڑی نعمت ھے ٹھیک ایسی ہی نعمت احساس شعور اور ضمیر بھی ھے مگر ان سب کی اہمیت معلوم نہ ہونے کی وجہ سے ہی انسان ان کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتا
احساس کی بدولت ضمیر زندہ ہوتا ھے اور زندہ رہ بھی سکتا ھے اگر احساس باقی نہ رہے تو ضمیر نام کی کوئی چیز انسان کے پاس باقی نہ رہے گی
اب اگر مقصد حیات کو سمجھ جائے اور انسان کو پوری طرح یہ معلوم ہو جائے کہ انسان کے جسم میں جو سانس چل رہی ھے جس کی بدولت انسان زندہ ھے اور جب سانس بند ہو گئی تو قصہ تمام ہو جائے گا اور پھر یہ سانس بطور امانت دینے کا ایک خاص مقصد ھے وہ یہ کہ جب تک انسان زندہ ھے وہ اللہ تبارک تعالی کی عبادت کرے اپنے افراد کنبہ کی ضروریات زندگی پوری کرے اور پھر جو بھی علم، ہنر ، دولت ، طاقت ، قابلیت اللہ تبارک تعالی نے انسان کو عنایت کی ھے اس کا مقصد قانون شریعت کے مطابق زندگی بسر کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ کی مخلوق کی بہترین خدمت کرنا مطلوب ھے
اب اس تمام خدمت خلق میں ایک انسان کے راستے میں روکاٹ کیا بنتی ھے انسان نے کبھی اس پر غور نہیں کی اور نہ ہی اس حقیقت کو کبھی سمجھنے کی کوشش کی یا پھر اس خدمت خلق کا ایک انسان کی اپنی ذات کو کیا فائدہ ھے اس کی کیا اہمیت ھے آج تک ہر انسان کو معلوم ہی نہیں اگر یہ بھی معلوم ہو جائے تو پھر کمی یہ ھے انسان اپنی تمام طر صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی کوشش نہیں کرتا یعنی اپنے اندر خود اعتمادی پیدا نہیں کر سکا جب ہر انسان کے اندر خود اعتمادی پیدا ہو گئی احساس اور ضمیر زندہ ہو گئے اور انسان نے پوری محنت ، لگن اور ایمانداری سے کام کرنا شروع کرلیا پھر حضرت انسان کچھ بھی کر سکتا ھے
اب ایک اور معاملے پر غور کرنے کی ضرورت ھے کہ اگر ایک انسان ایک وقت میں دو کام اکھٹے کرنے کی کوشش کرے تو وہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکے گا اس کا مطلب یہ ہواکہ ایک انسان کو شاندار کامیابی حاصل کرنے کے لئے ایک وقت میں ایک ہی کام جو سب سے اچھا اور زیادہ فائدہ مند ہو وہی کرنا چائے اب واضع ہو جاتا ھے کہ اچھے کام کے ساتھ غلط کام انسان کو کبھی بھی نہیں کرنا چائے اور غلط ہمیشہ نہیں کرنا کیونکہ اس کا انسان کو نقصان ہی ہوتا ھے فائدہ کچھ بھی نہیں ہوتا یہاں مذہب کے ایک بہترین اصول لاگو کرنا ہر انسان کے لئے ضروری ھے وہ ھے اللہ تبارک تعالی نے واضع فرما یا ھے کہ آپ کسی بھی دوسری شخص کے لئے وہی کام کرو جس سے اس کو فائدہ ہو بلکہ وہ کام مت کرو جس سے اس کو کسی بھی طرح کا ایک بال کے برابر بھی نقصان ہو اس کا مطلب ایک انسان کو با شعور بننے کیلئے تمام منفی خصلتوں کواپنے اندر سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ترک کرنا ضروری ھے مثال کے طور پر حسد ، بخیلی اور غصہ وغیرہ کسی بھی دوسرے انسان کا غلط مقابلہ کرنا بھی منفی سوچ میں آتا ھے جس سے دونوں کا قیمتی وقت برباد ہوتا ھے اور پھر وہ ایک درست اور جائز کام کرنے میں پیچھے رہ جاتے ہیں وہ منزل جس کی طرف سفر کرنے سے فائدہ ہونے والا تھا اس سے پیچھے رہ گئے اور ساتھ ہی مذہب کے ایک بہترین اصول کی خلاف ورزی کر کے اپنے آپ پر گناہ سر زد کیا دوسرے پر ظلم ہوا جب ایک شخص دوسرے پر ظلم کرتا ھے ضروری نہیں کہ مظلوم خاموش رہے بلکہ وہ سماج کے اچھے افراد کی مدد سے معاملہ حل کروا سکتا ھے نہ کہ اس کیساتھ غلط مقابلہ جب ایک انسان کسی بھی معاملے کو حل کرنے میں دوسروں کی مدد حاصل کرے گا تو اس کا قیمتی وقت بچ جائے گا اور وہ یہ وقت اچھے کام میں صرف کرے تو اس کو فائدہ ہو گا
اب ان منفی خصلتوں کی مختصر تعریف کرنا مناسب ھو گا جن کی تفصیل حسب ذیل ھے:
حسد: اگر کسی شخص کو اللہ تبارک تعالی نے کسی بھی اچھی چیز مثال کے طور پر مال دولت ، عزت ، شعرت، ہنر، حکمت وغیرہ سے نوازا ھے اور ایک دوسرا شخص اپنے دل و دماغ میں اس کے بارے میں غلط سوچ پیدا کر دیتا ھے اور پھر سوچتا ہی رہتا ھے اس کو یہ سب کیوں ملا معاف کرے نے کیوں دیا یہ تو مجھے ملنا چائے تھا یا پھر فلاں شخص کو اس کو حسد کہتے ہیں اب یہ سب سوچنے سے اس شخص کی صحت پر ایک ذرہ کے برابر فرق بھی نہیں پڑے گا جس کو اللہ تبارک تعالی نے اپنی شان کریمی سے نواز دیا ھے صرف غلط طریقے سے سوچنے والے کی عاقبت برباد اور ساتھ وقت بھی برباد ہوتا ھے اگر اس کے بجائے وہ یہ تمام وقت اللہ تبارک تعالی کے لامحدود خزانے میں سے حاصل کرنے کے لئے صرف کرتا تو کتنا ہی اچھا ہوتا
اصل حقیقت یہ ھے کہ یہ حسد مذہبی تعلیم کم یا پھر باکل نہ ہونے کی وجہ سے ہوتا ھے یہاں ہر انسان کو اس بات کا پوراعلم ہونا لازمی ھے کہاللہ تبارک تعالی کا خزانہ لامحدود ھے اور ہر ایک انسان اس خزانے میں سے حاصل کر سکتا ھے اب اللہ تبارک تعالی اسی انسان کو کسی اچھی چیز سے نوازتا ھے جو اس چیز کو سنبھالنے کے قابل ہوتا ھے یا پھر کن خوبیوں کی بنا پر اللہ تبارک تعالی نوازتا ھے یہ جاننا بھی کسی کے بس کی بات نہیں اللہ تبارک تعالی اپنے شان کریمی سے ہی معلوم کر سکتا ھے کہ کون سی چیز کس کو عنایت کی تو وہ اس سے دوسروں کو کیا نقصان پہنچائے گا اور پھر کونسی خصلت یا خوبی کسی بھی انسان کے اندر موجود ھے وہ بھی تو نے ہی اس کے اندر پیدا کی اور پھر کسی اچھی چیز سے اس کو نواز بھی دیا
دوسری منفی خصلت غصہ ھے جس کی تعریف یہ ھے کہ دوسرے کی غلطی کی اپنے آپ کو بلاوجہ سزا دینی ایک انسان جو بھی غصہ کرتا ھے اس کا اپنا بی پی blood pressure زیادہ ہوتا ھے یا پھر اس کے جسم کے حواص خمصہ پر بہت غلط اثر پڑتا ھے مگر جس پر غصہ کیا جاتا ھے اس کا کوئی نقصان نہیں ہوتا پھر غصہ کرنے کا کیا فائدہ
تیسری منفی خصلت بخیلی ھے ایک شخص اگر اچھا کام کرتا ھے یا اچھی سوچ رکھتا ھے تواس کے ساتھ زید کرنا بخیلی کہلاتا ھے یہ بھی انسان کی رفتار اور صحت دونوں پر غلط اثر ڈالتی ھے اور بخیل کی صحت برباد ہوتی ھے کتنا ہی بہتر ہو اگر انسان عرش والے غفورورحیم سے رابطہ پختہ کرے تو اس کے سب جائز مسائل حل ہو جائیں
جو انسان اپنے سماج کے تمام افرد کے ساتھ پر امن زندگی بسر کرتا ھے جو اپنے والدین دیگر بزرگوں، بھائی بہنوں ،دیگر رشتہ داروں کے ساتھ پر امن زندگی بسر کرکے ان سب کی دعائیں حاصل کرتا ھے پڑوسیوں کے ساتھ بھی اچھا برتاوکرتا ھے تو تبارک تعالی ایسے شخص کو اپنی شان کریمی سے نواز دیتا ھے
اس سماج کے اندر اگر غور سے دیکھا جائیاور جائزہ لگایا جائے تو کچھ ایسے افرد ملیں گے جن کے آباواجداد کو تبارک تعالی نے سب کچھ دیا تھا مگر آج ا کے پاس کچھ بھی نیں اور پھر کچھ ایسے افراد بھی ہیں جن کے آباواجداد بھی امیر تھے اور آج وہ ان سے بھی زیادہ امیر اور دولت مند ہیں اب ان دونوں طرح کے افراد کے رہن سہن آپسی تعلقات اور پڑوسیوں اور رشتہ داروں کے ساتھ برتاوں وگفتگو کے طریقے سے بھی فرق واضع ہو جاتا ھے اور اگر انسان غور کرے تو ایک سبق بھی حاصل ہوتا ھے جو افراد امن پسند ہوتے ہیں دوسروں کے ساتھ لڑائی جھگڑے نہیں کرتے دوسروں پر ظلم زیادتی نہیں کرتے اپنے رشتہ داروں اور برادری کے ساتھ پر امن زندگی بسر کرتے ہیں ایسے افرادرب تبارک تعالی کو بہت پسند ہیں
آخر میں غور طلب بات ھے کہ با شعور کیسے بنا جا سکتا ھے اس نیک خصلت اور خوبی کے حصول کے لئے مذہبی اور دنیاوی دونوں قسم کی تعلیم درکار ھے علم۔کی بدولت انسان اپنے اندر خوبیاں (Values) پیدا کر سکتا ھے اور منفی خصلتوں کو ترک کر سکتا ھے اپنے تمام رشتہ داروں اور برادری کے ساتھ پر امن زندگی بسر کر کے ان کی دعائیں حاصل کرے اپنی سوچ کو مثبت رکھے ضمیر کو احساس کی بدولت زندہ کرے تو پھر انشان انشا اللہ با شعور ہو جائے گا اب اگر علم کے اعتبار سے دیکھا جائے کسی بھی گاوں میں تمام تعلیم یافتہ اشخاص اور تمام اساتذہ اکرام کا باشعور ہونا لازمی ھے اگر اعظیم خصلت اپنے اندر زندہ یا تازہ کر کے اگر تمام اساتذہ اکرام بچوں کو بہترین طریقے سے پوری محنت ،لگن اور ایمانداری سے تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں بچوں کی تعلیمی قابلیت کے ساتھ ساتھ ان کو پوری کوشش کے ساتھ values بھی سیکھائیں کل پورے سماج کی بھاگ ڈور ان بچوں کے باتھ میں ھو گی اور پھر سماج ضرور ترقی کرے گا۔
خوش آئین بات یہ ھے ہمارے ملک نے اب جو NEP 2020 ایجوکیشن پالیسی مرتب کی ھے اور لاگو بھی ہو چکی ھے اس میں بچوں میں اس طرح کی values پیدا کرنے پر زور دیا گیا ھے جس کی تعریف کرنا بہت ہی مشکل ھے یہ تمام values اساتذہ اکرام۔ بچوں کے اندر تبھی پیدا کر سکیں گے جب یہ تمام values ہر ایک استاد اپنے اندر پیدا کرے گا جب یہ values اساتذہ اکرام اور پھر بچوں کے اندار پیدا ہو گی تو انشا اللہ ہر طرف امن اور پر سکون زندگی ہو گی اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا اور پھر انشا اللہ دوسروں کے ساتھ انصاف کرنا ہی سب سے بڑی values ھے دوسروں کے ساتھ انصاف کرنے سے پہلے اپنے ساتھ انصاف کرنا لازمی ھے اور جو تعلیم یافتہ شخص تعلیم کی مدد سے اپنے ساتھ انصاف نہ کر سکا اس کو اپنی تعلیم پر نطر ثانی کرنے کی ضرورت ھے ثابت ہوتا ھے کہ اگر اساتذہ اکرام سب سے زیادہ تعلیم یافتہ ہیں تو ان کو سب سے پہلے اپنے ساتھ انصاف کرنا ہو گا رزق حلال کما کر کھانا ہی سب سے پہلا اور بڑا انصاف ھے جب رزق حلال کمایا تو بچوں کے ساتھ بچوں کو تعلیم دینے میں بھی انصاف ممکن ہو گا اپنے ساتھ انصاف کرنے کے لئے بھی احساس کی ضرورت ھے تو تعلیم کی بدولت احساس پیدا ہونا بھی لازمی ھے کیونکہ بقول شاعر
علم آتا ھے تو القاب بھی آ جاتے ہیں
زندگی جینے کے آداب بھی آ جاتے ہیں
سب سے زیادہ تعلیم یافتہ افراد کا ضمیر زندہ ہونا ان کے اندر اپنے لئے احساس ہونا اور پھر دوسروں کے لئے احساس پیدا ہونا لازمی ھے اور جب ضمیر زندہ ہو گا احساس ہو گا اور تب ہی انصاف بھی ہو گا دعا ھے تبارک تعالی ہر تعلیم یافتہ خاض کر اساتذہ اکرام کو اپنے ساتھ پورا پورا انصاف کرنے کی ہمت سوچ اور توفیق بخشے