گرم کو ٹھنڈا کرنے کی حکمت کو پکڑیں

0
0

ڈاکٹر ایم اعجاز علی

کیا خاص و کیا عام، سبھوں کو یہ احساس ہوچلا ہے کہ وزیراعظم ہند نریندر مودی ایک طاقتور لیڈر ثابت ہوئے ہیں۔ ایودھیا کے موقع سے انھوں نے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ سماجی و سیاسی ہی صرف نہیں بلکہ مذہبی سطح پر بھی انھوں نے پرانے لوگوں کی اوقات کیا ہے، اس کے ساتھ ہی بی جے پی بھی ایک ’’گرم دل‘‘ کی حیثیت اپنا چکا ہے۔ بہرحال ایودھیا کے بعد کا کمان تو فی الوقت مسٹر مودی کے ہاتھوں میں ہی رہے گا جیسا کہ اندازہ لگ رہا ہے، ایسی صورت حال میں ہمیں کون سے حکمت اپنانی چاہئے تاکہ ملک کا جو ماحول بن چکا ہے اسے کیسے واپس آپسی بھائی چارگی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی طرف لایا جائے۔پہلے تو ہمیں اس بات کو قبول کرنا ہی ہوگا کہ عام مسلمانوں کی سماجی حیثیت حاشئے پر چلی ہی گئی ہے لیکن صرف اتنا ہی نہیں بلکہ سیاسی حصہ داری میں زیادہ دلچسپی رکھنے والے مسلم طبقات بھی سیاست میں حاشئے پر ہی ہیں۔ اتنا تک تو آزادی کے 75 برسوں میں ہوا ہے۔ اگر اسی طرح کا سلسلہ چلتا رہا تو پھر نہ جانے آنے والے 25-50 برسوں بعد اس قوم کی کیا حالت بنا دی جائے۔ یہ سب پھر سے لوٹ کر نارمل ہوسکتا ہے بشرطیکہ ہم اپنے سماج کو حکمت سے چلنے کی تعلیم دینا شروع کردیں۔ گمراہی (سماجی و سیاسی) کا شکار اپنی قوم کو راہ راست پر لانا ذرا مشکل لگتا ہے لیکن کرنا تو پڑے گا ہی۔ اس حکمت میں پہلا سیاسی قدم تو یہی ہونا چاہئے کہ ’’گرم دل‘‘ کو مزید گرم ہونے دینے کے بجائے کیسے پہلے ٹھنڈا کیا جائے۔ بھارت کے اقتدار پر قابض موجودہ گروہ پچھلے تقریباً سو (۰۰۱) برسوں سے ہر بات پر مسلم کمیونٹی کو ہی ٹارگیٹ کرتا رہا ہے تاکہ اس بہانے وہ برادران وطن کے ووٹوں، جو ذات پات، بھید بھاؤ کی بنیاد پر بکھرا ہوا ہے، اسے یکجا کرسکے۔ اس کیلئے اس کے پاس ایک ہی حکمت ہے کہ کوئی بھی ایسا ایشو جس کا تعلق مذہب سے ہے، اسے یہ گروہ (دل) کھینچ کر مسلم اقلیتوں سے جوڑ دیتا ہے تاکہ ’’تشٹیکرن‘‘ کے نام پر ہندو ووٹ متحد ہوجائے۔ اس کی اس مہم میں گھی ڈالنے کا کام موجودہ اپوزیشن والے بھی لمبے عرصے سے کرتے چلے آرہے ہیں۔ ان میں قومی سطح کی پارٹی کانگریس ہے اور باقی وہ علاقائی پارٹیاں بھی ہیں جنھیں مسلم نمائندوں نے اپنے سیاسی مفاد میں مسلمانوں کا مسیحا قرار دے رکھا ہے مثلاً بہار میں راجد، یوپی میں سماج وادی پارٹی و دیگر۔ اسی طرح سے ملت کے نام پر بنی ہوئی سیاسی تنظیموں کو بھی اسی دائرے میں رکھیں تو بہتر ہو۔ یقین مانئے کہ فاشسٹ طاقتوں کے ذریعہ متنازعہ ایشوز کے اٹھائے جانے کے بعد، ان ساری سیاسی تنظیموں کے ذریعہ ایک سے بڑھ کر ایک سخت ردعمل دیکھنے کو ملتا ہے اور جس پر عام مسلم آبادی جان نچھاور کرنے کو دکھائی دیتی ہے، لیکن اس سے فائنل طور پر مسلمانوں کو نقصان ہی اٹھانا پڑتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس طریقۂ کار سے ’’گرم دل‘‘ کا ٹمپریچر مزید ہائی ہی ہوجاتا ہے جیسے راون کا ہوجایا کرتا تھا اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ عام مسلمانوں پر جہاں تہاں ظلم و بربریت ہونے لگتا ہے۔ تعجب تو اس بات کا ہے کہ اس طرح کے ’’ایکشن اور ری ایکشن‘‘ کا خمیازہ ان تنظیموں کو نہیں بھگتنا پڑتا ہے، عام مسلمانوں کو ہی جھیلنا پڑتا ہے یہاں تک کہ در بدر تک کی نوبت آجاتی ہے (میانمار کا حادثہ یاد کیجئے)۔ چونکہ یہی سلسلہ آزاد بھارت میں 60-65 برسوں تک لگاتار چلتا رہا جس کا نتیجہ آج نظروں کے سامنے ہے۔ آج ہم نے کیا پایا کہ لاحکمت عملی سے چلنے کی وجہ سے سنگھ پریوار کا ملک پر سیاسی غلبہ ہوگیا اور دوسرا یہ کہ سیاسی و سماجی پہلو پر مسلمان زیر ہوتے چلے گئے۔
ایودھیا کے بعد کے بھارت میں اس سلسلے پر بریک لگنا بہت ضروری ہے کیونکہ بہت سے ایشوز اب ہم پر زبردستی تھوپے جائیں گے مثلاً یو سی سی، سی اے اے، این آر سی وغیرہ اور قبول کرنے کیلئے مجبور کیا جائے گا ورنہ ظلم سے لے کر آخرکار در بدر تک کی بات مضبوطی سے اٹھنے لگے گی۔
اب حکمت یہ ہونی چاہئے کہ کیسے اس گروہ سے ملک کو نجات دلائی جائے اور وہ بھی خاموشی کے ساتھ حکمت سے انجام دینا ہوگا۔ اس سلسلے میں پہلا قدم تو یہ ہو کہ اس کی ’’گرمی‘‘ کو کم کرنے کا کیا اپائے ہو کیونکہ یکایک تو اسے زیرو نہیں کیا جاسکتا ہے۔ آخر 5 پیڑھیوں کی لگاتار کوششوں کے بعد یہ اس اقتدار تک پہنچے بھی تو ہیں۔دو راستے ہمارے سامنے ہیں۔ ایک تو یہ کہ مسٹر مودی کو مسلمان بھی لیڈر تسلیم کرلیں اور اسے ووٹ دے دیں،جو فی الوقت کسی بھی طرح سے ممکن نہیںلگتاہے۔ حالانکہ آزادی کے وقت کی تاریخ اٹھاکر دیکھیں تو مسلم لیگ والے کانگریس کو ہندوئوں کی پارٹی کہتے تھے، لیکن آزادی کے بعد مسلمانوں نے لگاتار 45-50 برسوں تک اسی کانگریس کو یکمشت ہوکر اتنا ووٹ دیاکہ مانو یہ مسلمانوںکی پارٹی ہو۔ وقت وحالات کے تحت ایسا بھی ہوتا ہے۔
بہرحال دوسرا راستہ یہ ہے کہ ہمیں ان علاقائی پارٹیوں کی طرف دیکھنا ہوگا جو واجپئی کی سرکار میں این ڈی اے کے پارٹنر تھے۔ مثلاً بہار سے نتیش کمار و رام ولاس پاسوان،یوپی سے مایاوتی وآر ایل ڈی، مہاراشٹر سے این سی پی، بنگال سے ممتا بنرجی، اڑیسہ سے بیجوپٹنایک، آندھرا سے چندربابو نائیڈو، تلنگانہ سے چندرشیکھر رائو، تمل ناڈو سے انا ڈی ایم کے، پنجاب سے شرومنی اکالی دل، ہریانہ سے لوک دل وغیرہ۔ یہ ساری وہ علاقائی پارٹیاںہیں جسے اگرمختلف ریاستوں میں ووٹ سے مضبوطی دیتے ہیںتو پھر یہ جس بھی قومی پارٹی سے گٹھ بندھن کریں گی اسے نرم یا ٹھنڈا کرنے کا کام کریں گی، کیوںکہ ان کے پاس مسلمانوںکا بھی ووٹ ہوگا۔ یاد کیجئے این ڈی اے کی پہلی حکومت جس کے سربراہ اٹل بہاری واجپئی جی تھے، وہ (واجپئی صاحب) بھی کم شعلہ بیاں تھوڑے ہی تھے۔ جن سنگھ اور بی جے پی کو سیاسی مضبوطی تو ان کی ہی دی ہوئی ہے اور کیسے دی تھی یہ تو ابھی ذہن میں ہوگی ہی۔ لیکن الائنس کی سرکاریں انہیں ’کامن منیمیم پروگرام‘کے تحت ہی چلنا تھا۔ اسی طرح سے یوپی اے (ون) میں کانگریس پاور میں ضرور تھی لیکن کمزور تھی اور تب اس کے فیصلے من مانی نہیں ہوتے تھے، لیکن یوپی اے (ٹو) میں 206سیٹ پہنچتے ہی اس نے سینہ تان لیا اور پھر من مانی فیصلے لینے لگی، جو ہم سبھی کو یاد رکھنا چاہئے۔ ہم نے یوپی اے کے دونوںفیز کو دیکھا ہے اور یہی پایا کہ زیادہ تر سیاسی پارٹیاں اقتدار میں آتے ہیں ، فرعونیت کا شکار ہوجاتی ہیں اور ایسے میں من مانے وکڑے فیصلے لینے لگتی ہیں، جس کا خمیازہ کمزور طبقات کو ہی جھیلنا پڑتا ہے، چاہے وہ کسی مذہب کے ماننے والے ہوں۔
بہرحال تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں بڑی سے بڑی طاقتوں کو زیر ہونا پڑا ہے لیکن جس طرح سے کسی گروہ کو طاقتور بننے میں وقت لگتا ہے۔ اسی طرح سے ڈائون جانے میں بھی وقت لگتا ہے اور وہ بھی تب جبکہ لاٹھی سے زیادہ حکمت کا سہارا لیا جائے۔ اسی طرح 5نسلوں کی قربانیوں کے بعد ملک کی سیاست پر غلبہ پانے والے اس گروہ کو یکایک زیرنہیںکیا جاسکتا اور وہ بھی تب جبکہ وہ اپنا کام زمینی سطح پر جاری رکھے ہوں۔ اسے پہلے گرم سے نارمل ٹمپریچر پر لانا ہوگا اور تب پھر آگے بڑھنا ہوگا۔ نارمل سطح پر لانے کے لیے ہمیں فی الوقت خاموشی اختیار کرتے ہوئے اپنی حکمت پر کام کرنا ہوگا۔ ووٹ دینے کا پتّا کو کھولیے ہی مت بلکہ ہرسیاسی پارٹی کو تذبذب میں رکھئے۔
یونائیٹیڈ مسلم مورچہ، نئی دہلی
9110102789,

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا