ڈاکٹرنسرین بیگم(علیگ)
8مارچ2023
تاریخ گواہ ہے کہ التتمش اور قطب بیگم نے اپنی بیٹی رضیہ سلطانہ کو اپنا جاں نشیں بنایا تھا ۔اس وقت بھی یہ سوالات پیدا ہوئے تھے کہ عورت حکمراں کیسے ہو سکتی ہے ؟ وجہ یہ تھی کہ رضیہ سلطان کے اندر بھائیوں سے زیادہ صلاحیت تھی ۔بیگم حضرت محل نواب واجد علی شاہ کی بیگمات میں سے زیادہ ذہین اور مقبول خاتون تھیں ۔اور ہندوستان کی آزادی میں پہلی سرگرم عمل خاتون رہنما تھیں ۔نواب سلطان جہاں بیگم عورتوں کی ترقی کے لئے قافلہ سالار کی حیثیت رکھتی ہیں ۔امہوں نے لڑکیوں کی تعلیم کے لئے جو تحریک چلائی وہ کامیاب ہوئی ۔
بیگم سلطان جہاں نے مدرسہ عالیہ علی گڑھ میں لڑکیوںکی تعلیم کی اہمیت روشنی ڈالتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’ تمہاری تعلیم مصیبت کے وقت تم کو خود اپنی مدد آپ کرنے کے قابل بنا دیگی
اور خدا نخواستہ اگر تم میں سے کسی پر مصیبت کا وقت پڑے تو غیرت اور ہمیت کے کے ساتھ اپنی روزی خود پیدا کر سکو اور تم صاحب اولاد ہو تو اسکی تربیت و تعلیم اپنی گود سے شروع کرو ۔میری عزیز لڑکیوں یاد رکھو کہ عمدہ تعلیم و تربیت تمہاری پونجی ہے
شریفانہ اخلاق تمہارا حسن ہے ۔جس لڑکی میں یہ صفات
ہونگی وہ ہر چھوٹے بڑے کی نظروں میں عزیز ہوگی ۔اور ان خوبیوں کے باعث دنیا کی
کوئی مصٰبت و تکلیف نہ اسکو مایوس و ذلیل کر سکتی ہے اورنہ کوئی دولت اسکو مغرور بنا سکتی ہے
بلکہ تکلیف و مصیبت میں استقلال اور عزت ،دولت و حشمت میں انکسار و تواضع پیدا ہوگی ‘‘
مجاہد آزادی مولانا حسرت موہانی کی بیوی نشاط النساء بیگم نے آزادی کی لڑائی میں حسرت موہانی کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر ان کے ساتھ رہیں ۔مجاہد آزادی آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابو لکلام آزاد ؔ کے جیل میں رہنے پر انگریزی حکومت کے خلاف بنگال صوبائی خلافت کمیٹی کے تمام کاموں کو وہ خود سنبھالتی تھیں ۔یہ کوئی آسان کام نہیں تھا ۔
چان بی بی ،مہا رانی لکشمی بائی ،عزیزن بائی جیسی بے شمار خواتین کے نام تاریخ کا روشن باب ہیں ۔تحریک آزادی سے آج تک عورتوں نے ررقی کی منزلیں طئے کیں ہیں ۔وہ تعلیم کے ساتھ دنیا کے تمام کاموں میں میں اپنا پرچم لہرا رہی ہیں ۔ادب کے میدان میں ڈاکٹر رشید جہاں ،عصمت چغتائی ،رضیہ سجاد ظہیر ،نذر سجاد ،صا لحہ عابد حسین ،جیلانی بانو ،واجدہ تبسم ،لیلہ خواجہ بانو ،عفت موہانی ،حجاب امتیاز علی ،اے آر خاتون ،،کیپٹن لکشمی سہگل ،گیان پیٹھ ایوارڈی قر ۃالعین حیدر ،پدما سچدیوا ،راجی سیٹھ ،پروفیسر صغرا مہدی ،سیدہ جعفر ،پروفیسر ثریا حسین ،پروفیسر آذر می دخت صفوی سبھاشنی علی و غیرہ کے نام قابل ذکر ہیں ۔
ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا ،جسٹس فاطمہ بی بی ،شبانہ اعظمی ،شہناز حسین ،زہرا سہگل ،اور سیاست میں اندرا گاندھی جیسی خواتین اپنے اپنے فن میں کمال حاصل کر چکی ہیں اور کر رہی ہیں۔ وہ اپنی صلاحیت کے دم پر ہی اپنی پہچان رکھتی ہیں ۔اسکا آنچل ماں کی ممتا کے ساتھ وقت پڑنے پر پرچم بھی بن جاتا ہے ۔اور ماں کا آنچل ہمیشہ زمانے کے نشیب و فراز سے مقابلہ کرنے کی طاقت اور حوصلہ دیتا ہے تیرے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا
یہ صحیح ہے کہ عورت وقت آنے پر اپنے آنچل سے پرچم بنانے کی طاقت بھی رکھتی ہے ۔اسکی ایک دو نہیں بے شمار مثالیں موجود ہیں ۔مگر موجودہ معاشرے پر نظر ڈلیں تو حالات کچھ زیادہ اچھے نہیںہیں کیونکہ عورت کو سماج میں تب تک عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جائے گا اورانہیںعزت نہیں دی جائے گی تب تک سماج میں عورت کا آگے بڑھنا مشکل ہوگا ۔
جرائم کو کم کرنے کے لئے سخت قانون کا بن جانا ہی کافی نہیں ہے۔ضرورت ہے سماجی بیداری کی ۔اورسماج میں پھیلی برائیوں پر لگام لگائے جانے کی ۔فاسٹ ٹریک عدالت بنے اور ملزم کو ایسی سزا ملے جسکی مثال قائم ہو ۔ایک سروے کے مطابق ہندوستان میں ہر آدھے گھنٹے میں ایک خاتون کی عزت تار تار ہوتی ہے ۔اور ہمارے سیاست داں ،دانشور اور قانون داں ایک دوسرے پر الزام تراشی کرکے جھوٹا انصاف دلانے کی بات کرتے ہیں ۔ اور ملزم بچ کر نکل جاتا ہے اور عورت کو برسوں انظار کرتے رہنا پڑتا ہے اور پھر وہ مایوس ہو جاتی ہے ۔اور جو ملزم ہوتاہے وہ آزاد گھوم رہا ہوتا ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ بیان بازی اور ہمدردی کچھ روز چلے گی اور پھر لو بجھ جائے گی ۔اور اندھیرا اپنا پیر پسار لے گا ۔مگر افسوس کہ درد صرف عورتوں کے ہی حصے میں کیوں آتا ہے ؟
آئیے آج اس پر غور کریں ۔
ایسے حالات میں انگلی پہلے عورت کی طرف ہی اٹھائی جاتی ہے ۔ کیا یہ درست ہے ؟
بنیادی طور پر اگر مردوں کے سماج میں اسے عزت کے ساتھ جینا ہے تو اسے اپنی لڑائی خود لڑنی ہوگی ۔کیوںکہ عورت کو بھی عام انسانوں کی طرح پوری عزت اور سماجی حقوق کے ساتھ زندگی گزارنے کا اختیار ہے ۔ جس کے لئے وہ مسلسل جدوجہد کر رہی ہے ۔اسے کتنی کامیابی حاصل ہوگی یہ وقت بتائے گا ۔اپنے اس مقام کو حاصل کرنے کے لئے وہ سخت محنت کرتی ہے ۔اور اپنے گھر ،شوہر اور بچوں کے مستقبل کو سنوارنے کے لئے فکر مند ہے ۔یہ سچ ہے کہ جب تک اسے اسکے خاوند کا بھر پور تعاون حاصل نہیں ہوگا اس کا آگے بڑھنا بھی مشکل ہوگا ۔اس لئے بیحد ضروری ہے کہ مرد اس کی اس فکر میں اس کا ساتھ دے ۔شادی کے پہلے اس کے والد ،بھائی اور پھر شادی کے بعد شوہر اور اسکے سسرال کے لوگ
تبھی خوشحالی ممکن ہے یرے ماتھے کا ٹیکا مرد کی قسمت کا تارا ہے اگر ساز بیداری اٹھا لیتی تو اچھا تھا
یہ حقیقت ہے کہ عورت کے وجود سے ہی دنیا میں روشنی ہے ۔اور اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا۔اردو کے مشہور ترقی پسند شاعر کیفی اعظمی نے ہمیشہ عورت کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کی ۔
اٹھ میری جا ن میرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے قدر اب تک تیری تاریخ نے جانی ہی نہیں
تجھ میں شعلے بھی ہیں بس اشک فشانی ہی نہیں تو حقیقت بھی ہے دلچسپ کہانی ہی نہیں تیری ہستی بھی ہے اک چیز جوانی ہی نہیں اپنی تاریخ کا عنوان بدلنا ہے تجھے اٹھ میری جان میرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے
جب ہم ساتھ چلیں گے تو آگے بڑ ھیں گے ۔ایک دوسرے کی عزت کریں گے ،اسے آگے بڑھنے کا حوصلہ دیں گے ۔
عالمی یوم خواتین ۸ مارچ کو یاد کرنے کا مقصد تو یہی ہونا چاہیے ورنہ مہینے سال کیا صدیاں گزر تی جائیں گی اور ہم افسوس ہی کرتے رہ جائیں گے ۔یہ تو حقیقت ہے کہ عورت کے وجود سے ہی تصویر کائنات میں رنگ ہے ۔جس گھر میں عورت نہیں وہ گھر کسی ویرانے سے کم نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال ؔ جیسے فلسفی نے کہ دیا کہ وجود زن سے ہی تصویر کائنات میں رنگ ہے ۔
ورنہ یہ دنیا بے رنگ ہوتی ۔تو آئیے موجودہ حالات پر بھی کچھ غور کریں ۔اور ۸ مارچ کی اہمیت کو بھی سمجھیں ۔اور علامہ اقبال کے اس شعر کے مفہوم کو بھی آج سمجھیں اور خود سمجھ لیں تو دوسروں کو بھی سمجھائیں ؎
وجود زن سے ہے تصویر کاینات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں پروفیسر و صدر شعبئہ اردو بیکنٹھی دیوی گرلس پوسٹ گریجو ایٹ کالج ، آگرہ