کیا یہی ہے جمہوریت؟؟؟

0
0

26 جنوری یعنی یومِ جمہوریہ جو برسوں سے ہمارے ملک کی پہچان ہے ،جسے 1950 سے ہر سال پورے ہندوستاں میں بڑی شان وشوکت کیساتھ قومی ترنگا لہراتے ہوئے، مٹھائیاں تقسیم کر چھوٹے بچوں سے لیکر نوجوان، بزرگ سبھی مناتے آرہے ہیں، پر حالاتِ حاضرہ کےمدِنظر یہ سوچنے پہ مجبور ہیں کہ آخر یہ کیسی جمہوریت ہے اور کس بنا پہ خوشیاں منائی جارہی ہیں ؟ 26 جنوری یعنی یومِ جمہوریہ جو برسوں سے ہمارے ملک کی پہچان ہے ،جسے 1950 سے ہر سال پورے ہندوستاں میں بڑی شان وشوکت کیساتھ قومی ترنگا لہراتے ہوئے، مٹھائیاں تقسیم کر چھوٹے بچوں سے لیکر نوجوان، بزرگ سبھی مناتے آرہے ہیں، پر حالاتِ حاضرہ کےمدِنظر یہ سوچنے پہ مجبور ہیں کہ آخر یہ کیسی جمہوریت ہے اور کس بنا پہ خوشیاں منائی جارہی ہیں ؟ ایسا لگ رہا ہے ہر کوئی خود کو دھوکہ دے رہا ہے۔ اپنے چہرے پہ خوشیوں کا مکوٹھا سجائے جس ملک میں آج جمہوریت کی دھجیاں اُڑائی جارہی ہیں جہاں من کے مطابق زندگی بسر کرنا دشوار ہوگیا ہے۔ کھانے پینے سے لیکر پہناوے، بول چال، گھومنا پھرنا، یہاں تک کے زندہ رہنے سے لیکر عبادات میں بھی مداخلت کرتے ہوئے بے مطلب کے قوانین عائد کر بندیشیں لگادی گئی ہوں ایسے ماحول میں جمہوریت کے نام پہ خوشیاں مناکر خود کو دھوکے کے سوائے کچھ نہیں دیا جارہا۔ہمارا ملک تو طویل جدوجہداوربےشمار قربانیوں سے آزاد ہوا اور آزادی کے تیسرے سال 1950 میں جب جمہوری دستور نافذ کیا گیا اس وقت ہندوستاں کے جمہوری نظام کو سنبھالے رکھنے کے لئے چار شعبوں کو اہم ستوں قرار دیا ، جس میں پہلا لجسلیٹئیو اسمبلی دوسرا ایگزیکیٹئو تیسرا جوڈیشری اور چوتھا صحافت ہے ، اں چاروں شعبوں کو جمہوریت کے چار ستوں کہا جاتا ہے ,  انکی ذمیداری ہے کہ اپنے تمام فرائض کو بخوبی نبھاتے ہوئے ہندوستاں کی جمہوریت کو وقار کے ساتھ ہمیشہ برقرار رکھنے کی کوشش کریں۔پر افسوس آج یہ سارے ستون کھوکھلے ہوچکے ہیں , انہیں کرپشن کی دیمک نے کھوکلا کردیا ہے ، جنکی ذمہ داری عوام سے جڑی ہوئی ہے ،جنہیں عوام کے لئے رہنماء , طاقت آواز مانا جاتا ہے آج وہ چند مطلب پرست طاقتوں کے آگے کمزور نظر آنے لگے ہیں یا یہ کہیں بک چکے ہیں ، ملک کئی مسائل میں الجھ گیا ہے ، چائلڈ لیبر، چائلڈ ابئیوز ، جنسی استحصال، چاروں طرف لوٹ مار، قتل وغارت ،نوجوان بے روزگاری کی وجہ سے بھٹکے ہوئے ہیں۔ رشوت خوری کا ماحول عام ہے۔ ہر جگہ ہر نگر ہر دفتر میں چپراسی سے لیکر اعلیٰ عہدیداروں میں بھی رشوت خوری کا راج چل رہا ہے غندہ گردی انتہاء پہ ہے جسکی وجہ سے سیکیولرازم دم توڑنے کی کگار پہ آچکا ہے اور ہم چابی والے کھلونوں کی طرح حقیقت سے آنکھیں موندھے پرانے آئین کی خوشی میں چور ہیں جسے آہستہ آہستہ ختم کیا جارہا ہے اور ہم اس پہ غور و فکر کئے بنا روبوٹ کی طرح صرف اتنا ہی کررہے ہیں جو ہمارے اندر فیڈ ہے , اسکے آگے بڑھ کر دیکھنے کی سمجھ بوجھ گنواچکے ہیں , ہمارا فرض تو بس ایک دن جمع ہوکر جشن مناتے ہوئے ترنگا لہرادینا میٹھائی تقسیم کر چند شاعروں کے جوشیلے انقلابی دیش بھگتی گیت گاکریاپراانی ہندی فلموں کے دیش۔بھگتی وقومی یکجہتی کے گانےبجاکر اس پہ دو چار ٹھمکے لگاکر خود کو ایک دن کے دیش بھگت کی طرح پیش کر کے اپنا فرض ادا کرنا ہی رہ گیا ہے کیا آج دیش بھکتی کا مطلب صرف اتنا ہی ہے ؟؟؟اگر یہی جمہوریت ہے اسی کو دیش بھگتی کہتے ہیں تو بڑی ہی شرمندگی اور افسوس کی بات ہے ، ذرا سوچیں اگر ہمارے بزرگوں نے بھی اتنا ہی کیا ہوتا وہ بھی ایک دن جمع ہوکر جشن مناتے ہوئے اپنی دنیا میں اپنے پریواروں کے ساتھ مدہوش رہتے تو آج ہم انگریزوں کے گھر باتھ روم صاف کرتے یا کسی انگریز کی جوتیاں صاف کرتے ہوئے زندگی گذار رہے ہوتے۔پر نہیں ہمارے بزرگوں کی حب الوطنی کا عالم ہی نرالا تھا انہیں ایک دن کی خوشی کی چاہ نہیں تھی , بلکہ وہ تو تاعمر اور آنے والی نسلوں کے بارے میں  سوچتے ہوئے اپنے پیارے وطن کی آزادی کی مانگ کی جسکے لئے انہوں نے اپنے جان و مال تک کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنی ذات سے ہر قسم کی قربانی دیتے ہوئے اپنی وطن پرستی ثابت کی ہے اور ملک کی گنگا جمنی تہذیب پہ آنچ تک آنے نہیں دی ہر لمحہ ملک کی بہتری کامیابی کے لئے سخت سے سخت اقدامات اٹھاتے رہے ۔ ایسے وطن پرست رہنماؤں کی سرزمین پہ بسنے والی عوام آج روزانہ کئی مسائل سے دوچار ہوتے ہوئے انکی شہادت انکی قربانیوں کو پامال کر رہی ہے ۔آج چند تعصب ذہنیت کے لوگ ہم سے خوداری کی زندگی چھین کر غلامی کی زنجیروں میں جھکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ہم اپنی بزدلی لاپرواہی , کوتاہئیوں سے جمہوری نظام کو ہی خطرے میں ڈال چکے ہیں اور ہماری ان غیر ذمیدار حرکتوں کی وجہ سے   سکیولرازم کے دشمنوں کو شئہ مل رہی ہے , وہ ہم پہ حاوی ہورہے ہیں۔ آئے دن ہمارے دیش بھگت جانبازوں کی بےحرمتی کررہے ہیں ، مہاتما کہلانے والے گاندھی جی جو ہندوستاں کے باپو جی ہیں آج ان کے قاتل گوڈسے کی پوجا کی جاتی ہے ، جو کل تک انگریزوں کے ایجینٹس تھے آج انہیں کا بول بالا ہورہا ہے ۔ دیش بھگتوں کی قربانیوں کو بھلاکر مفاد پرست دلالوں کی قدم بوسی کی جارہی ہے جو ہمارے ملک کے لئے بہت شرمناک بات ہے اگر یہی اسی طرح چلتا رہا تو اسکا سب سے بڑا نقصان ہماری قوم کو ہوگا۔ آج ہماری قوم و ملت کے تمام رہنماؤں سے گذارش ہے کہ اپنی قوم کی صحیح رہنمائی کرتے ہوئے ہر نوجوان کو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں مدد کریں ۔انکا ساتھ دیتے ہوئے انکی راہیں ہموار کریں کیونکہ آج تعلیم سے ہی ہمارے ملک اور قوم کی کامیابی ہے اور تمام والدین سے بھی گذارش ہے اپنے بچوں کو غربت کو وجہ بنا کر تعلیم سے محروم نہ رکھیں ، آج ہماری قوم کی خستہ حالت کی سب سے بڑی وجہ تعلیم سے دوری ہے۔ ہمارے بچوں کا تعلیمی میعار دوسری قوموں کے برعکس نا کے برابر ہے جسکی وجہ سے قابلیت ہونے کے باوجود ہر شعبے میں ہمارے نوجوان پیچھے ہیں ، ڈاکٹرز، انجینئر، وکلا ، آئی آے ایس جیسےوقاری عہدوں وپیشے غیر قوموں کی جھولی میں جارہے ہیں ۔ابھی تو غفلت سے جاگو جو کچھ بھی کھویا ہے اسے دوبارہ حاصل کرنے کے لئے تعلیم کی دنیا میں دوڑ لگاؤ، اپنے حق کے لئے تعلیم کو ہتھیار بناکر لڑنا سیکھو۔ آخر کب تک اوروں پہ الزام لگاتے رہوگے کبھی تو اپنی ذمیداریوں کو سمجھو۔ صرف 15 اگسٹ اور 26 جنوری کے دن اپنی دیش بھگتی ثابت نہ کرو بلکہ ہر لحاظ میں خود کو قابل بناتے ہوئے خود سے ملک کا اور آنے والی نسلوں کا مستقبل بدلو ورنہ آنے والی نسلیں ہم سبھی سے پوچھےگی۔کیا یہی ہے جمہوریت ؟؟؟۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا