آصفہ وزینب جنت کی کلیاں

0
0

احسان دانش کاشعرہے
بیٹیاں سب کے مقدرمیں کہاں ہوتی ہیں
گھرخُداکوجوپسندآئے وہاں ہوتی ہیں
پاکستان کے شہرقصوراورجموں کے کٹھوعہ میں کانچ کی چوڑیاں درندوں کی شکار اُس وقت ہوئیں جب وہ انسانیت کوبھول گئے اورہنستے کھیلتے خاندانوں کوتباہ وبربادکرگئے ۔دوجنت کی کلیوں سے انسانیت سوززیادتی نے ہم سب انسانوں کوشرمندہ کرگئے جب یہ واقعہ ہرایک والدین نے سنا ہوگا اُن پر کیاگزری ہوگی جوآصفہ اورزینب کے والدین پرگزری ہوگی وہ میں اپنے لفظوں میں بیان ہی نہیں کرسکتا ہوں۔کیونکہ سننے میں آیا ہے کہ زینب کے والدین عمرہ پرگئے ہوئے تھے اوراپنی ننھی منھی کلی جیسی بیٹی کو اپنے رشتہ داروں کے ہاںچھوڑکرگئے تھے ۔وہاں جاکراس مقدس جگہ پر یہی دعاگو کرتے ہوں گے کہ اللہ ہماری بچی کوصحت مندرکھے، ہم اُس کوبھی لے کریہاں آئیں گے۔ اُن کوکیا پتاکہ ہماری جگرہی اس دُنیافانی میں نہ رہے گی اورادھرجس طرح کٹھوعہ شہرمیں واقعہ سامنے آیا ۔آصفہ یہ بچی بھی اپنے والد ین کے کام کاج میں ہاتھ بٹاتی ایسے درندوں کی شکارہوگئی جس کا ہم اندازہ بھی نہیں کرسکتے۔ یہ ننھی منی بچی بھی اپنے گھر کے کام کابوجھ ہلکا کرتی تھی،اس دُنیاسے خبرآبادکہہ گئی ۔یہ بچی گھوڑوں کے چروانے کے لیے اپنے گھرسے تھوڑی ہی دورتھی جو حیوانوں کی شکارہوگئی جن درندوںکوابھی تک ہماری ریاست کی حکومت سامنے بھی نہ لاسکی ۔ اُدھرپاکستان کی حکومت کی اس بات کے لیے دادضروردینی ہوگی کہ انہوںنے آخر اس درندے عمران کودبوچ ڈالا ۔بیشک انہوں نے بھی دیری کی کیونکہ اس بچی کی لاش بھی کچھ دنوں کے بعد ملی تھی لیکن خیرجوبھی ہوادیرآئددرست آئد۔
لیکن افسوس اس بات کاہے کہ کٹھوعہ میں پیش آئے سانحے کوگذرے ہوئے قریب دوہفتے ہوگئے ہیں لیکن ابھی تک ریاست کی حکومت ان درندوں کاکوئی ٹھوس ثبوت نہیں نکال پائی ہے ۔وہی پرانی بات انتظامیہ اورریاستی حکومت نے بولی کہ ملزم پکڑاگیا ہے۔کرائم برانچ کی جانچ شروع کردی گئی ہے ۔ایس آئی ٹی بٹھادی گئی ہے ۔سب جھوٹے وعدے صرف عوام کوگمراہ کرنا تاکہ عوام اس مسئلہ میں کودنہ پڑیں۔ دکھ تواس وقت ہوا جب ہماری ریاست کی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی جوخودایک خاتون ہے وہ محض ٹویٹ کرکے دُکھ کااظہارکرتی ہے کہ وہ ایک بکروال بچی تھی ابھی تک مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ اس ٹویٹ کامقصد آصفہ کے لواحقین کے ساتھ دُکھ کااظہارتھا یاایک سیاسی ٹویٹ تھا جس میں یہ کہہ دیاکہ وہ بچی بکروال تھی تا کہ عوام اس مسئلہ کوزیادہ طول نہ دیں کیونکہ اکثرہماری ریاست ہویا ہماراملک جب سے NDA سرکارمرکزمیں آئی ہے ہرایک برے سے برے سانحہ کوبھی ہمارے سیاستدان اُسے بھی فرقہ پرستی کارنگ دینے سے پیچھے نہیں ہٹتے ۔اُن کے اس ٹویٹ سے یہ اشارہ ملتاہے کہ یہ بکروال ہے ۔اس کی پرواہ مت کروخودٹھیک ہوجائے گاتاکہ پوری ریاستی عوام اس مسئلہ کوسنجیدگی سے نہ لے لیکن وہیںجموں یونیورسٹی کے طلباء نے کانگریس لیڈرشاہنوازچوہدری کی قیادت میںاُس وقت اس ٹویٹ کا وزیراعلیٰ کوجواب دیا جب 1000کے قریب تمام طلبہ یونیورسٹی کے گیٹ کوبند کرکے سڑکوں پرآگئے یہ نعرے دیتے ہوئے کہ آصفہ ہم شرمندہ ہیں تیرے قاتل ابھی زندہ ہیں۔ ہماری جموں یونیورسٹی ہی نہیں بلکہ دہلی جے این یو ،علی گڑھ ،مانو وغیرہ کے طلبہ نے بھی زوردار احتجاج کامظاہرہ کیاکیونکہ ہمیشہ یونیورسٹیوں کے طلبابغیر مذہب وملت حق گوئی کی بات کرتے ہیں کیونکہ یہ آصفہ بکروال بچی ہی نہیں بلکہ وہ ہماری ریاست کی بچی تھی ہم سب کی بہن تھی ہماری کلی تھی کیونکہ کہتے بھی ہیں کہ بچے کاکوئی مذہب نہیں ہوتا وہ کھلونے کے لیے کسی سے بھی دوستی کرلے گابچہ خدادوست ہوتاہے۔
آصفہ وزینب اپنے والدین ہی کی نہیں بلکہ ہمارے پورے معاشرے کی بیٹیاں تھیں ۔یہ درندے دوخاندانوں کو ہی نہیں بلکہ ہم سب انسانوں کوشرمندہ کرگئے ہیں۔ہم آخرت میں کیاجواب دیں گے؟ ان جنت کی کلیوں کو ہم نے سماج میں کیاکیاتھاجس کی شکاریہ دوننھی منھی کلیاں ہوئیں ہم تمام اہل اسلام روزجزا کوشرمندہ ہوں گے ۔اگران درندوں کوسزانہ ملی ان درندوں جوآصفہ و زینب کے قاتل ہیں ان کوسزاہونی چاہیئے کیونکہ اگران درندوں کوسزا نہ ہوئی توآخرت میں ہم تمام اہل اسلام جواب دہ ہوجائیں گے ۔ان جنت کی کلیوں کے ملزمان کوہم نے ان کوسزاکیوں نہیں دلوائی ۔خیراللہ توان کوضرورسزادے گالیکن دُنیامیں بھی اب ایسے درندوں کے لیے جگہ ختم کردینی چاہیئے کیونکہ انہوں نے انسانیت کاقتل کیاہے ۔انہوں نے وہ کیاہے جس کاہم جواب ہی نہیں دے سکتے ی۔ایساگھنائوناکام کرنے والے انسانوںکے روپ میں درندے تھے جنھوں نے اپنی درندگی کاثبوت ہم سب کو دے دیا۔پاکستان حکومت پراب یہ امید لگائی جاسکتی ہے کہ بہت جلد اُس درندے عمران کی خبرہمارے کانوں تک پہنچے گی کہ اس کوپھانسی کے پھندے پرلٹکادیا ،اس دن ہم سب کو سکون ملے گا لیکن اگرہماری ریاست کی بات کی جائے تومجھے نہیں لگتاکہ اتنی بڑی سزااس درندے کوملے گی کیونکہ پاکستان کے چیف جسٹس کااس وقت رویہ بدل گیاتھا جس وقت اُس نے پاکستان کی عوام کوسڑکوں پراُترتے دیکھااورایک دم کارروائی کی توکسی نہ کسی نتائج پروہ ضرورپہنچیں گے لیکن اُسی کومدنظر رکھتے ہوئے اگر ہم چیف جسٹس آف انڈیا کی بات کریں توابھی تک اُن کاکوئی بھی ایسابیان نہیں آیا کہ ہم کوئی لیگل ایکشن کریں گے اورنہ ہی ہماری ریاست کے آئین کے رکھوالے چیف جسٹس آف جموں وکشمیر کابیان آیا جس سے لگے کوئی ایساقدم اُٹھایا جائے گا جس پر جلد کاروائی ہوگی کیونکہ ہم سب لوگ اپنے قانون پربھروسہ کرتے ہیںا وراُمیدبھی کرتے ہیں کہ اُس بچی آصفہ کوبھی زینب کی طرح جلدسے جلدانصاف ملے گاورنہ وہ ہی پرانی روایت نہ رہے کہ چاردن سیاست کرنے والوں نے سیاست چمکائی اورپھرسب بھول گے سب نے فیس بک کوبھردیاپھرکون آصفہ تو کون اور کوئی کیونکہ اس بات کاذکر میںاس لیے بھی کررہاہوں کہ ماضی میں ہم یہ سب کچھ دیکھ چکے ہیں کہ کوئی بھی Activist جب لڑائی شروع کرتاہے کسی بھی سانحہ کولے کرہمیشہ وہ سیاست میں مبتلاہوجاتاہے ۔چاہے وہ سیاست پولیس کی ہو یاانتظامیہ کی ، یاسیاست دانوں کی کیونکہ سانحہ ایک دوچاردن کے بعدبھلادیاجاتاہے۔ہماری ریاست میںبہت سارے ایسے سانحے ہوئے ہیں جن کواُٹھانے کیلئے سماجی کارکن بہت زورشور کے ساتھ آتے ہیںا ورپھروہ سیاست میں مبتلاہوجاتے ہیں جیسے ایک سال پہلے ایک واقعہ ہواتھا اسی کٹھوعہ ضلع کے ساتھ سانبہ میں جب پولیس کی طرف سے ایک نوجوان کوگولی ماردی گئی تھی ۔ یہ نوجوان بھی اسی برادری سے تعلق رکھتا تھا جس برادری کی یہ ننھی سی بچی آصفہ تھی ۔اس وقت بھی اس نوجوان کے لیے بہت سارے سماجی کارکن اورسیاست دانوں نے وعدہ کیاتھا اُن کے لواحقین کو یقین دلایاتھاکہ یعقوب کو انصاف دلائیں گے اوراس پولیس آفیسرکوسزادلوائیں گے لیکن بڑے بڑے وعدوں کا کیاہوا،آج تک بھی یعقوب کے لواحقین کوانصاف نہیں مل پایاہے اورنہ اس پریوارکاحال کسی نے پوچھا نہ ابھی تک کوئی سماجی کارکن وہاںگیا، اورنہ کوئی ہماری ریاست کاسیاست دان وہاں گیا۔یہ وہی حکومت ہے جواُس وقت تھی اوریہی سماجی کارکن اورکوئی بھی نہیںبدلا۔ بدلی توبس ایک لاش پہلے یعقوب ۔اوراب آصفہ اورپہلے یعقوب کے ساتھ انصاف کی بات ہوئی تھی ،آج آصفہ کے انصاف کی بات ہورہی ہے ۔آج تک یعقوب کے بچوں اوربیوہ کوکسی نہیں پوچھاکہ وہ اپناگذربسرکیسے کررہے ہیں۔ایسانہ ہوجیسایعقوب کے لواحقین کے ساتھ وعدے ہوئے ،اسی طرح آصفہ کے لواحقین کے ساتھ بھی انصاف سے محروم نہ رہیں۔ ایسانہ ہو اوردوچاردن فیس بُک اورٹیوٹراورواٹس ایپ پرمہم چلاکر ختم کردی جائے اورپھرکون آصفہ ؟کون یعقوب؟ کوئی نہ جانے سب اپنی روٹی سیک کر گھرکوچلے جائیں ۔اُمیدکی جاتی ہے کہ ماضی کونظراندازکرتے ہوئے اب اس بچی کویہ حکومت انصاف دے گی کیونکہ اس بچی کے ساتھ بہت دردناک واقعہ پیش آیا ہے اس بات کاضرور خیال رکھیں گے ہمارے سماجی کارکنان اور ہماری موجودہ سرکار بھی کیونکہ ہرگھرمیںبچی ہوتی ہے جیسے میں نے اپنے مضمون کی ابتدامیں ایک شعرکاحوالہ دیتے ہوئے لکھاہے کہ بیٹیاںکسی نصیب والے کے گھرہی ہوتی ہیں بیٹیاں گھرکی شان ہوتی ہیں ۔ آخرمیں کہتاچلوں کہ مجھے اورہم سب کواللہ پربھروسہ ہے کہ ان کلیوں کوانصاف ضرورملے گا ۔یہاں دُنیاکی عدالت میں چاہے یہ درندے بچ بھی جائیں گے لیکن میرے اللہ کی عدالت سے کبھی نہیں بچ پائیں گے۔یہ یہاں جتنابھی زورلگاکربچ جائیں لیکن اللہ تعالیٰ سب جانتاہے وہ نہ کوئی SIT بٹھائے گااورنہ کوئی CJI اورنہ کوئی CJPکے اشارے کودیکھے گاوہ خودہی CJI اورخودہیCJP ہوگا۔بناسنوائی کے ان درندوںکودوزخ کی آگ میں ڈال دے گا۔میں اللہ تعالیٰ سے دعاگوہوں اے اللہ!یہ بچیاں تو ہیں ہی جنتی لیکن ان کے لواحقین کوصبراورتحمل عطافرمائے ۔اپنے اس مضمون کواس شعرکے ساتھ ختم کرتاچلوں ۔بقول شاعر
کہہ دوں تودِل سے خون کاچشمہ اُبل پڑے
اورچپ رہوں تومنہ سے کلیجہ نکل پڑے

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا