کشتواڑ پولیس پر نوجوان کو تشدد دینے کے الزامات بے بنیاد ، من گھرٹ اور گمراہ کن

0
49

کوئی بھی چوٹ اختر حسین کے جسم پر نہیں ملی ،اپنے آپ کو پھانسی دینے کو کوشش : میڈیکل رپورٹ کی تصدیق
عمران شاہ
کشتواڑ//حال ہی میں سماجی میڈیا پر وائریل اور انگریزی اخبار میں شائع شدہ خبر میں کشتواڑ پولیس کی جانب سے کیشوان کے ایک نوجوان کو بری طرح سے تشدد کا نشانہ بنانے اور اس پر تھرڈ ڈگری تشددکرنے کی خبر کو بے بنیاد اور من گھرٹ اور گمراہ کن بتایا گیا ہے ۔قابل اعتماد زائع سے وصول ہوئی جانکاری کے مطابق کشتواڑ کیشوان کے اختر حسین ولد علی محمد حجام نامی ایک نوجوان جو کہ کسی دوسرے نوجوان کے گمشدگی کے کارن شک کی بنیاد پرکشتواڑ پولیس کی طرف سے حراست میں لیا گیا تھا ،تاہم اس کی تحقیقات کا عمل جاری تھا ، ملی جانکاری کے مطابق مذکورہ شخص نے بیت الخلاءجانے کی درخواست کی جہاں اس نے اپنے ہی بلٹ سے اپنے آپ کو پھانسی لگانے کی کوشش کی ۔ تاہم اس کے بعد مذکورہ نوجوان کو اسپتال لایا گیا ۔ اور اس کے بعد اس کو گورنمنٹ میڈیکل کالج جموں منتقل کیا گیا ۔جبکہ اس سلسلہ میں کسی مقامی رپورٹرنے اس کی خبر کو بغیر تحقیقات کے اخبار میں شایع کروا دیا ۔ علاوہ ازیں اس کی خبر سماجی رابطہ سائٹوں پر بھی خوب وائرل ہوئی ، جس کی وجہ سے عوام میں پولیس کے تئیں غصہ پیدا ہو گیا ۔ لیکن اس بات کی حقیقت اس وقت سامنے آئے جب جموں میڈیکل کالج کے ڈاکٹروں نے اس کے جسم پر کسی قسم کے ظاہری چوٹ نہ ہونے کی تصدیق کی ۔ اور رپورٹ کے مطابق اختر حسین نے آپ کو پھانسی لگانے کو شش کی، جس کی وجہ سے اس کی گردن پر پھانسی کے نشان پائے گئے۔ لیکن باوجود اس کے بغیر کسی تحقیقات کے کشتواڑ کے کسی مقامی رپورٹر نے انگریزی اخبار میں اس خبر کو شایع کیا جو سوشل میڈیا پر بھی کافی وائرل ہوئی جس کے تئیں عوام میں براہمی اور غلط فہمیاں پید ا ہوگئی جس کے کارن عوام پولیس کے خلاف سراپا احتجاج ہوئی ۔ جبکہ کشتواڑ پولیس عوام کی فلاح کے لئے ایس ایس پی کشتواڑ ابرار چوہدری کی نگرانی میں اچھے کام کر رہی ہے ۔ گزشتہ شایع شدہ خبروں میں کشتواڑ پولیس کے کئی کارنامے عوام کے سامنے آئے جس میں پولیس کی جانب سے نشہ پر قابو پانا ، دیگر قاتلوں ، و سمگلروں کو بے نقاب کرنا ،اور دیگر سماجی و فلاحی سر گرمیاں شامل ہیں۔تاہم اس سلسلہ کی ایک کڑی گم شدہ شخص کی تلاش میں جٹی پولیس جو کہ اپنا کام کر رہی تھی ۔ جس کے کام میں چند نام نہاد لوگوں کی طرف سے رخنہ ڈالنے کو کوشش باعث تشویش ہے ، اور بغیر تحقیقات سے اس قسم کی خبروں کو شایع کروانا یہ پولیس کے کام میں رکاوٹ ڈالنے کے مترادف ہے ۔ جبکہ جموںمیڈیکل کالج میں زیر علاج اختر حسین کی میڈیکل رپورٹ سے یہ صاف ہو جاتا ہے کہ مذکورہ نوجوان نے اپنے آپ کو پھانسی دینے کو شش کی جس کے نشان اس گردن پر پائے گئے ۔ جبکہ ملی جانکاری کے مطاق ڈاکٹروں نے کوئی بھی تشدد کا نشان یہ واحد چوٹ اس کے جسم پر نہیں پائی ، جبکہ رپورٹ کے مطاق اس کی گردن پہ پھانسی کا نشان پایا گیا ۔ تاہم اس سے صاف واضح ہو جاتا ہے کہ یہ خبر بے بنیاد ، من گھرٹ اور عوام کو گمراہ کرنے کے لئے شائع ہوئی جو کہ بے بنیاد ہے ۔لہذا پولیس کے کام میں رخنہ ڈالنے کے بجائے حقائق کا پتہ لگا کر پولیس کو اپنا کام کرنے دیں ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا