کبھی کسی کے لئے سخت الفاظ کا استعمال نہیں کیا‘ میرے پاپا ایک اصول پرست انسان تھے: تمہید شجاعت بخاری

0
0
یواین آئی
سری نگر؍؍ مقتول صحافی سید شجاعت بخاری کے فرزند تمہید شجاعت بخاری کا کہنا ہے کہ پاپا (شجاعت بخاری) ایک اصول پرست انسان تھے اور وہ عمر بھر وادی کشمیر میں قیام امن کے لئے کام کرتے رہے۔ تمہید کے بقول مرحوم شجاعت بخاری کا ماننا تھا کہ ایک دن آئے گا جب کشمیر میں عام شہریوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے تھم جائے گا۔ دسویں جماعت کے طالب علم تمہید شجاعت بخاری نے ان خیالات کا اظہار اپنے والد کے اخبار ’رائزنگ کشمیر‘ میں جمعرات کو شائع ہونے والے اپنے ایک کالم (مضمون) میں کیا ہے۔ اس کالم کو صفحہ اول پر شائع کیا گیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے ’پاپا ایک اصول پرست انسان تھے۔ ایسے بھی ہزاروں لوگ تھے جو اُن سے نفرت کرتے تھے۔ لیکن انہوں نے کبھی کسی کے لئے سخت الفاظ کا استعمال نہیں کیا۔ وہ ایک مفکر تھے‘۔ تمہید کا کہنا ہے کہ اُن کے والد کو اس لئے قتل کیا گیا کیونکہ وہ کشمیر میں قیام امن کے لئے کام کرتے تھے۔ انہوں نے لکھا ہے ’وہ عمر بھر قیام امن کے لئے کام کرتے رہے اور اسی وجہ سے شہید کئے گئے۔ اُن کا ماننا تھا کہ ایک دن آئے گا جب کشمیر میں عام شہریوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے تھم جائے گا‘۔ تمہید بخاری کے مطابق ’نوے کی دہائی میں جنگجوؤں اور فوج کے درمیان ہوئی فائرنگ میں ان کے (شجاعت بخاری کے) دو کزن مارے گئے تھے۔ پاپا کے قتل کے ساتھ ہم نے اپنے خاندان کا تیسرا فرد کھودیا ہے‘۔ شجاعت بخاری کے فرزند کا کہنا ہے کہ 14 جون کا دن اُن کے لئے ایک ہولناک دن تھا۔ انہوں نے لکھا ہے ’14 جون میرے اور میرے خاندان کے لئے ایک ہولناک دن تھا۔ یہ وہ دن تھا جس دن مجھے اپنے والد کی بے وقت موت کی خوفناک خبر ملی۔ پولیس کنٹرل روم میں واقع اسپتال پہنچنے پر میں نے کسی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ جب میں نے یہ سنا تو میری ٹانگیں لرزنیں لگیں‘۔ انہوں نے سوالیہ انداز میں لکھا ہے ’میں اب بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ میرے والد جیسے ایک نیک انسان کو کیوں کسی نے قتل کیا؟‘۔ تمہید کا کہنا ہے کہ ان کے والد ایک صحافی اور مفکر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سماجی کارکن بھی تھے۔ انہوں نے لکھا ہے ’وہ ایک سماجی کارکن بھی تھے۔ کشمیر میں 2014 میں آئے سیلاب کے دوران وہ سیلاب میں پھنسے لوگوں کو بچانے میں مصروف رہے۔ انہوں نے سیلاب سے متاثر ہوئے ہزاروں لوگوں کی مدد کی۔ وہ جب کسی کی مدد کرتے تھے تو وہ کسی کو اس کے بارے میں نہیں بتاتے تھے‘۔ تمہید کے مطابق شجاعت بخاری اپنے دفتر کے ملازمین کو اپنے کنبے کا حصہ سمجھتے تھے۔ ’وہ اپنے دفتر کے ملازمین کو ملازمین کی نظر سے نہیں دیکھتے تھے بلکہ انہیں اپنا توسیعی کنبہ مانتے تھے‘۔ انہوں نے مزید لکھا ہے ’کشمیر میں انگریزی صحافت نے کئی اعلیٰ پایہ کے نامہ نگاروں اور مدیروں کو جنم دیا ہے۔ اس نے کچھ ہیروز کو بھی جنم دیا ہے لیکن کسی شہید کو جنم نہیں دیا تھا۔ لیکن اب اس نے دونوں (ہیرو اور شہید) کو جنم دیا ہے۔ وہ ہمیشہ غیرجانبدار صحافت کے لئے کھڑے رہے۔ انہوں نے یہاں تک کہ اپنے بھائی جو کہ سیاست میں ہے، کا بھی طرف نہیں لیا‘۔ واضح رہے کہ قریب تین دہائیوں تک میڈیا سے وابستہ رہنے والے شجاعت بخاری کو 14 جون کی شام نامعلوم بندوق برداروں نے پریس کالونی سری نگر میں اپنے دفتر کے باہر نذدیک سے گولیوں کا نشانہ بناکر قتل کردیا۔ انہوں نے اپنے پیچھے والدین، بیوی، ایک بیٹے (تمہید) اور ایک لڑکی کو سوگوار چھوڑا ہے۔ شجاعت بخاری انگریزی روزنامہ ’رائزنگ کشمیر‘، اردو روزنامہ ’بلند کشمیر‘، کشمیری روزنامہ ’سنگرمال‘ اور ہفتہ وار اردو میگزین ’کشمیر پرچم‘ کے مدیر اعلیٰ تھے۔ انہوں نے کئی برسوں تک قومی انگریزی اخبار ’دی ہندو‘ کے ساتھ وابستہ رہنے کے بعد بالآخر 2008 میں ’رائزنگ کشمیر‘ شروع کیا تھا۔ شجاعت بخاری نے ’رائزنگ کشمیر‘ کی کامیاب شروعات کے بعد ’بلند کشمیر‘، ’سنگرمال‘ اور ’کشمیر پرچم‘ شروع کیا۔ ان کے حوالے سے خاص بات یہ تھی کہ وہ تینوں زبان (انگریزی، اردو اور کشمیر) میں لکھتے تھے۔ وہ کشمیری زبان کی ترقی و ترویج کے لئے بھی سرگرم تھے۔ انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز ’کشمیر ٹائمز‘ سے بحیثیت رپورٹر کیا تھا۔ وہ 1997 سے 2012 تک ’دی ہندو‘ کے ساتھ وابستہ رہے۔ وہ مختلف بین الاقوامی سطح کے میڈیا اداروں بالخصوص بی بی سی کے لئے لکھتے تھے۔ شجاعت بخاری نے گذشتہ تین دہائیوں کے دوران کشمیر پر دنیا کے کئی ممالکوں میں ہونے والی کانفرنسوں میں شرکت کی۔ ان کا شمار وادی کشمیر کے حالات پر گہری نظر رکھنے والے مبصریں میں ہوتا تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق شجاعت بخاری پر اس سے قبل بھی تین حملے کئے گئے تھے۔ 2006 میں قاتلانہ حملے کے بعد انہیں پولیس تحفظ فراہم کیا گیا تھا۔ وادی میں 1990 میں شروع ہوئی مسلح شورش کے بعد شجاعت بخاری پریس کالونی سری نگر میں قتل کئے جانے والے تیسرے صحافی بن گئے ہیں جبکہ وادی میں قتل ہونے والے پندرہویں صحافی ہیں۔
FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا