کانکریٹ کے شہر اور ماحولیاتی بحران

0
0

۰۰۰
خان عرشیہ شکیل
ممبئی
۰۰۰
مادہ پرستی کی چاہ نے فطرت سے بغاوت کی۔ ہرے بھرے کھیتوں کی کٹائی ،جنگلات کا صفایا پہاڑوں کو تراش کر صنعتیں بنانا، فیکٹریاں لگانا دراصل سرمایہ استعماریت نے ہرے بھرے شہروں کو کانکریٹ کے شہروں میں تبدیل کر دیا۔ نتیجتاً ماحولیاتی بحران نے ہماری فضا کو زہر آلودہ کردیا۔پانی کے ذخائر تباہ ہو گئے۔
*غذائیں*۔۔
موسم غذائیں جو صحت کے لیے مفید اور ذائقہ کے اعتبار سے بہتر تھیں۔ سال میں دو بار فصلیں اگائی جاتی جس سے غذائیت (وٹامن،کیلشیم ،پوٹاشم،فائبر، آئرن)بھرپور مقدار میں ملتے۔
آج سال بھر مصنوعی کھاد،کیمیکل کے استعمال سے فصلیں اگائی جا رہی ہے جو صحت کے اعتبار سے ٹھیک نہیں ہے۔کیڑے مار دوائیوں ،اور پھلوں کو کیمیکل سے پکایا جارہاہے۔پھلوں کو تازہ اور خوش رنگ رکھنے کے لئے کیمیکل کا استعمال دھڑلے سے کیا جا رہا ہے۔ جس کا ہماری صحت پہ بہت زیادہ برا اثر ہو رہا ہے۔
جان لیوا بیماریاں، وقت سے پہلے اموات، غیر صحت مند بچوں کا پیدا ہونا عام بات ہو گئی ہے.

*صنعتی انقلاب*
حد سے زیادہ صنعتیں جہاں سے مختلف کیمیائی مادے اور گیسوں کا اخراج ہو رہا ہے جو ہماری فضا کو الودہ کر رہے ہیں کاربن ڈائی اکسائیڈ، کاربن مونو اکسائیڈ اور کلورو فلورو کاربن کے اخراج میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔جو ہوا کو گندا کر رہے ہیں۔ فیکٹریوں سے نکلنے والے فاضل مادوں کو ندیوں میں پھینک دیا جاتا ہے جو پانی کو مضر بنا دیتے ہیں۔مچھلیاں، دوسرے آبی جانور اور جنگلی جانور جو ندی سے پانی پیتے ہیں وہ مر رہے ہیں۔ گندا پانی فضا کو بھی آلودہ کر رہا ہے
*گاڑیوں کا بڑھتاہوااستعمال*
کئی میٹرو شہر ایسے ہیں جہاں پر لوگوں کی تعداد سے زیادہ گاڑیوں کی تعداد ہے۔ فیملی کا ہر فرد اپنی ایک گاڑی رکھتا ہے۔امیر لوگ الگ الگ ماڈل کی کئی گاڑیاں استعمال کرتے ہیں۔غرض گاڑیوں کی بھرمار اور گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں کاصحت پر برا اثر پڑ رہا ہے۔
کاربن ڈائی آکسائڈ کے تناسب میں 30 پرسنٹ اور میتھین کے تناسب میں 148 پرسنٹ اضافہ ہوا ہے سائنس دانوں کا اندازہ ہے کہ اس رفتار سے اگر اضافہ ہوتا رہا تو 2100 تک کاربن ڈائی آکسائڈ کا تناسب 514 تا 970 پی پی ایم ہو سکتا ہے۔حال ہی میں دہلی جا درجہ حرارت 52.3ریکارڈ کیا گیا ہے جو اب تک کا سب سے زیادہ درجہ حرارت ہے۔ ویسے بھی دہلی کی ایک دن کی آب و ہواکی آلودگی 100سگارٹ پینے کے برابر نقصان پہنچاتی ہے۔
اوزون کا شگاف۔۔۔ حفاظتی حصار اوزون جو بنفش شعاعوں کو روکتا ہے۔جو سرطان مدافعتی نظام کو کمزور کر کے بہت سی دیگر بیماریوں کا ذریعہ بنتی ہے لیکن شگاف کی وجہ سے انسانی صحت، فصلوں اور فضائی کی الودگی کا خطرہ کئی گنا بڑھ گیا ہے۔
*جنگلات کی کٹائی*
جنگلات کی کٹائی سیموسمی تبدیلیوں پر اثر پڑ رہا ہے۔ضرورت سے زیادہ گرمی ،بارش ہو رہی ہے۔طوفان،زلزلے،گلیشیر کا پگھلاؤ ،تیزابی بارش وغیرہ آفات کا سامنا پڑ رہا ہے۔
*ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے طریقے*
ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے کہ کثرت سے درخت لگائے جائے۔کیمیائی ادوایات کے ضرورت سے زائد استعمال پر روگ لگائی جائے ،ماحول کو صاف ستھرا رکھیں،پانی کے ذخائر پاک و صاف ہو۔ پہاڑوں کو نہ توڑا جائے۔قدرتی وسائل کی حفاظت وغیرہ آلودگی پر قابو پانے کے لئے نا گزیر ہے۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا