ڈاکٹر محمد مظاہرالحق کی ظرافت نگاری ، ایک جائزہ

0
0

ایم ۔ نصراللہ نصر ؔ
رابطہ: 9339976034
ڈاکٹرمحمدمظاہرالحق یکم دسمبر ۱۹۵۷کو پھلواری شریف ،بہار میں پیدا ہوئے ۔ان کے والد کا نام ظہور عالم رضوی ہے ۔ یہ اپنے سات بھائی بہنوں میں سب سے بڑے ہیں ۔ ان کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی ۔دیانند ہائی اسکول میٹھا پور( پٹنہ) سے میٹرک اور اورینٹل کالج سے آئی ۔اے اور بی ۔اے آنرس پاس کیا ۔مزید تعلیم کے لئے علی گڑھ چلے گئے جہاں سے ۱۹۸۰ میں ایم ۔اے (اردو ) کیا اور بہار یونیور سٹی مظفر پور سے پرو فیسر قمر اعظم ہاشمی کی نگرانی میں’ اردو شاعری کا احتجاجی شعور‘کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔بعد ازاں یہیںدرس و تدریس کے فرائض بھی انجام دیئے ۔
ڈاکٹرمحمد مظاہر الحق کی ادبی زندگی کا آغاز نثر نگاری سے ہوا ۔ انہوں نے اپنا پہلا مضمون’ صنف قصیدہ اور اس کے لوازم ‘کے عنوان پر لکھا جو ہفتہ وار ’ندائے عوام ‘( مظفر پور) میں ۱۹۸۱ میں شائع ہوا ۔کتابی شکل میں ان کی اولین تصنیف ’خونی عاشق ‘ (۱۹۸۷)میں آئی ۔ دیگر تصانیف میں ’شانِ بہار‘ (۱۹۹۰)اور مطالعات(۲۰۰۸) شامل ہیں ۔ ان کا ایک بڑا کام ’حکیم لطیف احمد اور ان کی تاریخ گوئی‘ (۱۹۹۴) ہے ۔’ سیدہ اور ان کی تارخ گوئی ‘(۱۹۹۷)موصوف کی دوسری اہم تحقیقی کتاب ہے ۔ان کا ایک اور کارنامہ’’اردو شاعری کا احتجاجی شعور ‘‘کتابی شکل میں ۲۰۰۴ میں رونما ہوا۔ ان کے علاوہ ان کی تصنیفات میں تبصرے اور تحقیقی مقالے و مضامین بھی شامل ہیں ۔’ مستند ہے مرا فرمایا ہوا ‘ان کے ظریفانہ مضامین کا مجموعہ ہے جو میرے زیر مطالعہ ہے اس کی اشاعت ۲۰۱۲ میں ہوئی ۔میری گفتگو بھی اسی کی روشنی میں مقصود ہے ۔
صنف ظرافت یا طنز و مزاح نگاری اردو ادب میں آغاز سے ہی موضوع بحث رہی ہے ۔ چونکہ اس کا دامن کافی تنگ رہا ہے اس لئے بہت کم لوگ اس کی طرف راغب ہوئے ۔ یہ ایک مشکل فن بھی ہے ۔ ناقدین ادب نے اسے برتنے میں کافی ہوشیاری سے کام لینے کی تلقین کی ہے ۔طنز ایک الگ چیز ہے اور مزاح الگ ۔نیز انشائیہ تو بالکل مختلف صنف ہے مگر اکثر ان اصناف میں زور آزمائی کرنے والوں نے اس کا خیال نہیں رکھا ۔ انہوں نے سبھی کو ملاکر اپنی کھچڑی تحریر پیش کردی ۔ اس لئے مبصرین اور ناقدین ادب کو دقتیں پیش آنے لگیں کہ کس کو کس خانے میں رکھیں ۔ لہٰذا موصوف نے بھی اس کے امتیازی پہلو کو در گزر کرتے ہوئے اپنا کام چلا یا ہے لیکن کافی باریک بینی اور ہوشمندی سے۔
’مستند ہے مرا فرمایا ہوا‘ ‘ میں شامل مضامین بیشک طنز و مزاح کے زمرے میں آتے ہیں جس کے لئے ڈاکٹر موصوف نے اچھی کاوشِ کا مظاہرہ کیا ہے ۔ سنبھل سنبھل کر لکھنے کی کوشش کی ہے ۔ ان کی تحریر اور تخلیق میں اس صنف کے بیشتر لوازمات اوراجزائے تراکیب موجود ہیں ۔ طنز کے تیر بھی ہیں اور مزاح کے قہقہے بھی ۔ کہیں کہیں انشائیہ کا رنگ بھی عکس ریز ہوا ہے ۔ ان کی انشائیہ نگاری میں ظرافت کے نقوش کافی نمایاں ہے ۔ ناقدین ادب کے مطابق ان کے یہاں تقلید و تکرار برائے نام ہے ۔ مگر نیرنگی اور دلکشی زیادہ ہے ۔ ان کے ظریفانہ مضامین میں مشاہدات کا رنگ گاڑھا ہے ۔ان کے موضوعات میں اردو اخبار کا حالِ زار ، کم پڑھے لکھے کالم نگار ، اردو املا سے ناواقف کاتب اور مدیر کی کم علمی اور صحافت سے بیگانگی ،بے روزگاری کے مسائل ،سیاسی بازیگری ،ملازمت سے سبک دوشی کے بعد کی زندگی ، سرکاری دفاتر میں چوری ،رشوت خوری ،اردو اکادمیوں کے اراکین اور عملوں کی بے ایمانی اور جانب داری ،ڈاکٹروں کے ذریعہ مریضوں کی لوٹ اور ان کا استحصال ،مصلحتی اور مفادی عشق جیسے مسائل شامل ہیں ۔پروفیسر ظفر کمالی لکھتے ہیں :
’’ان (مظاہرالحق ) کی نگاہ کتنی باریک ہے ۔ انہوں نے جھوٹ کا پردہ چاک کرنے اور مذہبی و سماجی لیڈروں کے چہرے کی نقاب نوچ پھینکنے میں بڑی جگر داری سے کام لیا ہے ۔ ان کا فن غازے سے بے نیاز ہے ۔انہوں نے اپنی باتیں بڑی سادگی سے بیان کی ہیں ۔‘‘
بیشک ڈاکٹر صاحب کے مضامین کے مطالعے سے اس کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کافی محنت ،مطالعہ اور مشاہدہ کی روشنی میں اپنی تخلیقات کو پیش کرتے ہیں ۔ وہ ظرافت نگاری کے اصول و ضوابط سے با بہرہ ہیں ۔ اصناف طنز و مزاح نگاری سے واقف ہیں ۔ اس کے علاوہ زبان و بیان پر ان کو قدرت حاصل ہے ۔ اسلوب بھی قابلِ ستائش ہے ۔ لفظیات پر بھی انہیں دسترس حاصل ہے ۔ ان کی مزاح نگاری میں حکمت کی باتیں بھی موجود ہیں ۔ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
۰ ’’ڈاکٹر اپنی لیاقت پر بھروسہ کم کرتے ہیں اور جانچ رپورٹ پر زیادہ ۔‘‘(مالک حقیقی۔ص۔۸۳)
۰ ’’ایک سچا عاشق عشق کی کسوٹی پر کھرا اتر نے کے لئے کچھ بھی کر گزرنے کا حوصلہ رکھتا ہے ‘‘(چشم بصیرت ۔ص۔ ۱۷)
۰ ’’اچھے کام میں انسان کی عقل ماری جاتی ہے ۔‘‘(بے خطر ۔ص۔۱۰۲)
۰ ’’پھولوں کا رس نچوڑنا بھنوروں کی فطرت میں داخل ہے ۔اسے اس کی مطلق پروا ہ نہیں رہتی کہ گلاب سرخ ہے یا سیاہ ۔‘‘(قصہ اشرف المخلوقات کا ۔ ص۔ ۵۰)
۰ ’’سرخ رنگ ہمیشہ پریشانیوں کا ہی پیش خیمہ ہوتا ہے ۔خواہ وہ جامہ عروسی کی شکل میں ہی کیوں نہ ہو ‘‘(دیکھتا ہی رہ گیا۔۴۴ )
۰ ’’کالج وہ محفوظ مقام ہے جہاں عشق و محبت کا کھیل سماجی و اخلاقی پابندیوں سے بے نیاز ہو کر کھیلا جاتا ہے ۔‘‘(مصلحت ۔۸۹)
۰ ’’مرض انسان کو دبے پانو آکر دبوچ لیتا ہے جیسے بلی چوہے کو ‘‘(مالک حقیق ۔ ص ۔۸۱)
مذکورہ جملوں کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف طنز و مزاح کی کہانیاں اور مضامین لکھتے ہیں بلکہ بڑی بڑی حکمت کی باتیں بھی کرتے ہیں جو گرہ میں باندھ لینے کے قابل ہوتی ہیں ۔ جن میں فلسفے کے گر بھی ہوتے ہیں جو اقوال زرّیںسے کم نہیں ۔ ان کی اس طرز نگارش سے قارئین اور ناقدین کے ساتھ مبصرین بھی متاثرہوئے بغیر نہیں رہتے ۔ ہر چند کہ وہ گوشہ نشینی کو زیادہ پسند کرتے ہیں اور شہرت کے پیچھے بھاگنے سے گریز کرتے اس کے باوجود اردو ادب میں ان کی پہچان نمایاں ہے ۔ وہ ہندی اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں ۔ڈاکٹر شاہد جمیل رقم طراز ہیں :
’’ڈاکٹر محمد مظاہر الحق کے یہاں موضوعات میں جدت و ندرت کے ساتھ ساتھ حسن انتخاب بھی ہے ۔ ان کا مطالعہ وسیع تر ،مشاہدہ عمیق ، تجربہ پختہ اور تخیل بلند پرواز ہے ۔تحقیقی اور تخلیقی عمل کے دوران ان کی نگاہیں فنی نکات پر بھی رہتی ہیں ۔ انہیں زبان و بیان پر نہ صرف قدرت حاصل ہے بلکہ کسی تحریر کو فن پارہ بنا دینا ان کے لئے کارِ گراں نہیں ۔‘‘(مقدمہ ۔ص۔۱۲)
موصوف کی آرا سے اتفاق کر لینے میںکوئی مضائقہ نہیں ۔انہوں نے بالکل درست انکشاف کیا ہے ، برجستہ کہا ہے اور بہ بانگ دہل کہا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب کے یہاں طنز و مزاح نگاری کے اجزائے ترکیبی موجود ہیں ۔ ان کے یہاں الفاظ کی نشتریت اور شیرینیت دونوں عکس ریز ہیں ۔ وہ معاشرے میں پھیلے ضرر رساںجراثیم اور ناسور کا اظہار خوبصورتی کے ساتھ کرتے ہیں ۔ معمولی سے معمولی واقعات و معاملات کو اپنے خامۂ گہر بار سے اہم اور فکر انگیز بنا دیتے ہیں ۔ چند اقتباس ملاحظہ فرمائیں :
۰ ’’ایک دن اچانک میرے غریب خانے پر والد دوم کی تشریف آوری ہوئی ۔رات بخیر و عافیت گزری اس لئے کہ وہ گھوڑے بیچ کر سو گئے ۔ غالباً اس میں سفر کی تھکان کا عمل دخل تھا لیکن صبح کو وہی ہوا جس کی فکر مجھے شب سے ہی لاحق تھی ۔سسر صاحب جب بھی آئے مشورہ دینے میں کبھی بخالت سے کام نہیں لیا ،یہ اور بات کہ انہوں نے بیٹیوں کوجہیز دینے میں ضرور بخالت سے کام لیا تھا ۔ ‘‘(چشم بصیرت ۔ص۔۱۷)
۰ ’’دل میں پہلے یہ خیال ضرور آیا کہ اب انٹرویو کا بائیکاٹ کر دینا چاہئے مگر یہ سوچ کر میں نے بائیکاٹ کا خیال ترک کردیا کہ انٹر ویو لینے والے حضرات کا کیا ہوگا ۔کسی کے مشغلے میں خلل ڈالنا مناسب نہیں ورنہ وہ بھی ہماری طرح بیکار ہو جائیں گے ۔ ‘‘(خودساختہ پرابلم ۔ص۔۲۳)
۰ ’’صبح ہوتے ہی بیگم نے دوسرا فرمان جاری کردیا جس کی تعمیل دو لحاظ سے مجھ پر واجب تھی اول یہ کہ نان و نفقہ کا وعدہ کبھی میں نے بھری محفل میں کیا تھا ۔ دوم یہ کہ اس غریب کے فیگر کو خراب کرنے کی ذمہ داری مجھ پر ہی عائد ہوتی ہے ۔لہٰذا برے وقت میں بیگم کا ساتھ نہ دینا میرے جیسے وفادار شوہر کو زیب نہیں دیتا ۔‘‘(بیگم کا فرمان ۔ص۔۴۱)
طنز و مزاح نگاری دراصل شوگر کوٹیڈ گولیاں بنانے کا عمل ہے ۔ جس کو بہ آسانی قاری نگل سکتا ہے مگر اندر جانے کے بعد اس کی تلخی اور ترشی کا احساس اسے شدت سے ہوتا ہے ۔ اگر کوئی تخلیق یا اتصنیفات ایسی ہے تو بیشک وہ اس زمرے میں شامل ہو سکتی ہے ۔ ڈاکٹر صاحب کی انشائیہ نگاری میں کم و بیش یہ بات دیکھنے اور محسوس کرنے کو ضرور ملتی ہے کہ جب وہ مضمون کا آغاز کرتے ہیں تو بڑی سادگی کے ساتھ عام فہم گفتگو سے کام لیتے ہیں مگر اس سحر کاری کے بعد اصل مقاصد کی تلخ گولیاں وہ قاری کے حلق میں اتار دیتے ہیں ۔ یہ ان کی سب سے بڑی خصوصیت ہے ۔وہ لفظوں کا استعمال اس خوبصورتی سے کرتے ہیں کہ قاری اسے شدت سے محسوس کرتا ہے ۔ باتیں وہ بے حد غیر اہم کرتے ہیں لیکن اس کی اہمیت اس طرح بڑھا دیتے ہیں کہ قاری دیر تک اس کے سحر سے باہر نہیں آتا ۔ وہ دیر تک سوچ و فکر کی دنیامیں سرگرداں رہتا ہے ۔ کچھ اور مثالیں دیکھیں :
۰ ’’خیر صاحب !سامان سے بھرے تھیلے کو جیسے ہی میں نے اٹھایا کہ ایک طرف کا ہنڈل ٹوٹ گیا ۔کچھ سامان تھیلے میں رہا اور کچھ تھیلے سے نکل کر زمین پر ایسے پھیل گیا جس طرح سماجی کارکن دھرنے پر بیٹھنے کی غرض سے زمین پر پسر جاتے ہیں ،میری بے بسی دیکھ کر آس پاس کے لوگ مسکرانے لگے اور میں دل ہی دل میں بیگم کو کوسنے لگا ۔‘‘(بیگم کا فرمان ۔ ص۔ ۴۱)
۰ ’’جس طرح پولٹری فارم میں مرغیوں اور چوزوں کی پرورش ہوتی ہے اسی قسم کا ایک اور فارم ہوتاہے جو عمو ماًآبادی کے درمیان پایا جاتا ہے جسے آپ اشرف المخلوقات کا نام دے سکتے ہیں ۔ اس فارم میں مولویوں کی پرورش ہوتی ہے ۔ان کے قیام و طعام کا عمدہ بندو بست ہوتا ہے ۔یہ فارم قوم کے پیسوں سے چلنے والا فائیو اسٹار ہوٹل ہوتا ہے ۔جہاں دنیاوی آرام و آسا ئش کا معقول انتظام ہوتا ہے ۔(قصہ اشرف المخلوقات کا ‘ص۔۴۷)
ان تمام مثالوں کی روشنی میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ڈاکٹر مظاہرالحق ایک اچھے ادیب کے ساتھ ساتھ عمدہ ظرافت نگار بھی ہیں ۔ محقق و مبصر بھی ہیں ۔ تنقیدی شعور بھی رکھتے ہیں ۔ اچھی علمیت اور صلاحیت کے مالک ہیں ۔ ان کی تصانیف و تحاریر میں بڑی کشش ہے ۔سادگی اور شیرینی بھی ہے ۔تجسس اور تفکر بھی ہے ۔ان کی تخلیقات اور تصنیفات سے قاری بے شک حظ اٹھا سکتا ہے ۔ اس کے شعور اور لا شعور میں شدت آسکتی ہے ۔ نئی سوچ و فکر میں غوطہ زن ہو سکتا ہے ۔اللہ ان کو مزیدعلمیت ، قابلیت، شہرت و مقبولیت عطا کرے آمین۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا