وانجوڑی…. بانجھ

0
0

نگینہ ناز منصور ساکھرکر
نوی ممبئی

9769600126

  • بانجھ یہ لفظ ایک عورت کے دل پر ہتھوڑے کی طرح پڑتا ہے جب کوئی بے اولاد عورت کو اس نام سے طعنہ دیتا ہے رب کائنات نے جب انسان بنائیں تو عورت کو آدم علیہ السلام کی فصلی سے بنایا مگر جب دنیا بنائی تو ہر مادہ کو بچہ پیدا کرنے جیسا مقدس کام سونپا…. منی کی ایک بوند سے بنتا ہے ایک ہاڑ مانس کا انسان یہ وہی بوند ہے جو کہیں اور گیرے تو ناپاکی اور ‏ماں کی کوکھ میں گرے تو رحمتِ خداوندی..بانجھ یہ لفظ ایک عورت کے دل پر ہتھوڑے کی طرح پڑتا ہے جب کوئی بے اولاد عورت کو اس نام سے طعنہ دیتا ہے رب کائنات نے جب انسان بنائیں تو عورت کو آدم علیہ السلام کی فصلی سے بنایا مگر جب دنیا بنائی تو ہر مادہ کو بچہ پیدا کرنے جیسا مقدس کام سونپا…. منی کی ایک بوند سے بنتا ہے ایک ہاڑ مانس کا انسان یہ وہی بوند ہے جو کہیں اور گیرے تو ناپاکی اور ‏ماں کی کوکھ میں گرے تو رحمتِ خداوندی..   قسمت کی لکیروں میں کیا لکھا ہے کوئی نہیں جان  سکتا….  وقت اور حالات ہی سلجھاتے ہیں نصیبوں کے الجھے تار ہم میں کئی لوگ ہیں جو اولاد جیسی نعمت سے محروم ہیں جدید دور کے تکنیکی تجربات سے کئی بار مصنوعی طریقے سے یہ اس کمزوری کو دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے مگر چاہے دنیا کتنی ترقی کر لے مگر اللہ تعالیٰ کی مرضی کے بنا کوئی زی روح اپنی  نسل کو آگے بڑھانے کی سکت نہیں رکھتا۔ زمانہ قدیم ہو یا دورِ حاضر جب اولاد نہ ہو تو مرد کو تو کوئی کچھ نہیں کہتا مگر عورت نشانہ بن جاتی ہے یہاں شادی ہوئی  نہیں کے پاؤں  بھاری ہونے کی سن گن لینا شروع ہو جاتے ہیں  گھر والے تو گھر والے پاس پڑوس کے لوگ بھی ایسے پرجوش نظر آتے ہیں کے معنوں آنے والا بچہ انہیں کے  گھر آئے گا اور کچھ نہ ہونے کی سن گن لگ جائیں تو ایسا افسوس  جتاتے ہیں جیسے ان کے گھر آنے والا خزانہ لوٹ گیا ہو۔ جس لڑکی نے اپنے ہوش میں اتے ہی اپنے گھر اپنے بچوں کے ساتھ رہنے  کے تانے بانے بنے  ہو. . جس نے بھائی بھابھی کے  دیور  دیورانی کے پاس پڑوس کے بچوں کو پیار کیا ہو اس لڑکی کی دلی کیفیت کا اندازہ کوئی کیا لگائے جو من ہی من رو رو کر دعائیں مانگتی ہوں جو اپنی کھالی جھولی میں د ھن دولت نہیں اولاد کی دولت مانگتی ہو……… وہ کیسے ان نظروں کو جھیلتی ہوگی جوشکّی نظروں سے اسے دیکھتے ہیں کے   اسے بچآ  ہوگا بھی کہ نہیں وہ کیسے ساس سسر کی باتیں برداشت کرتی ہوگی وہ کیسے سنتی ہوگی بے اولاد ہونے کے طعنوں کو؟ کی جگہوں پر تو دقیانوسی خیالات اتنے حاوی ہو جاتے ہیں کی نئی دلہن سے ملنے بھی نہیں دیا جاتا کے اس  کا سایہ نہ پڑے…. نوزائد بچے کو چھونے نہیں دیتے .. کے کہی نظر نہ لگے..   حاملہ عورت کے پاس نہیں جانے دیا جاتا کے پیٹ میں ہیں بچے کو کچھ ہو نہ جائے……. اس  میں اس لڑکی کی کیا غلطی ہے جیسے خود اللہ نے ماں نہ بنانے کا فیصلہ کیا ہو…… وہ  لڑکی ایسی کسی بھی تقریب میں شیرکت  سے کتراتی ہے خون کے آنسو روتی ہے نمازوں میں  گڑگڑاتی    ہے دل کی تڑپ سسکیوں میں بدل جاتی ہے اوپر سے مسکرا کر اندر کے درد کو ربانی کی ناکام کوشش اس کی اُداس آنکھیں نہیں چھپا پاتی خود  کو بیماری کا گھر بنا بیٹھتی ہے ہائپرٹینشن بلڈ پریشر جیسی بیماریاں گھیر لیتی ہیں کبھی کسی کو اس کا درد اس کی تکلیف دکھائی نہیں دیتی ۔ کئی بار دیکھا گیا ہے کے دس سال بعد 20 سال بعد بھی اللہ نے اولاد سے جھولی بھری ہے تب خوشیاں منانے آتے ہیں بھول جاتے ہیں کی اسی  کمزوری کوالا  بنا کر لڑکی کا کتنا دل دکھایا ہے وہ گھر والے جو مرد کی دوسری شادی کرنے تک کو اتارو ہو جاتے ہیں بھول جاتے ہیں کہ اگر اللہ نا چاہے تو دوسری تو کیا چوتھی شادی سے بھی اولاد نہ ہو اور اگر وہ راضی ہو تو  شادی کے 50 سال بعد بھی اس نعمت سے خزانہ بھر دے ۔جب ہم کسی کے دکھوں کا مداوا نہیں کر سکتے تو انہیں درد دینے کا ہمیں کیا حق ہے۔ جسے اللہ چاہتا ہے اسے خوشی اور غم دیتا ہے اولاد ہو کر بھی کچھ لوگ بے اولادی سے زندگی جینے پر مجبور ہیں نافرمان اولاد سے بے اولاد ہونا زیادہ بہتر ہے کہہ کے اپنے درد کو سنبھالنے کی کوشش کرتے ہیں… اولاد کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہوتے دیکھا ہے مگر کچھ لوگوں نے سبق حاصل نہیں کیا آج اللہ کے لیے گئے امتحان کو طعنےاور تشنی دے کر دل دکھانے کی ایک رسم سی بن گئی ہے ہمیں چاہیے کے ان سب چیزوں سے پرہیز کریں اور دوعا کرے اللہ ہمیں نیک صالح اور تندرست ولادات فرمائیں آمین۔
FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا