واقعہ کربلا

0
0

شفیق احمد ابن عبداللطیف آئمی

{حضرت مسلم بن عقیل رضی اﷲ عنہ کی شہاد ت کی خبر }
حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کو ابھی تک حضرت مسلم بن عقیل رضی اﷲ عنہ کی شہادت اور حضرت قیس بن مسہر صیدادی رضی اﷲ عنہ کی شہادت کی خبر نہیں ملی تھی اور آپ رضی اﷲ عنہ بد ستور کوفہ کی طرف رواں دواں تھے ۔ علامہ محمد بن جریر طبری لکھتے ہیں: بنو اسد کے دو شخص عبد اﷲ اور مذری حج کو گئے ہوئے تھے وہ بیان کرتے ہیں :’’ ہم حج سے فارغ ہوئے تو ہمیں یہ فکر ہوئی کہ ہم جلد از جلد حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ سے جا کر ملیں اور دیکھیں کہ کیا واقعہ پیش آیا اِسی لئے ہم اپنے ناقوں (اونٹوں) کو دوڑاتے ہوئے چلے اور مقام ’’زرود‘‘ تک پہنچے تو کوفہ کی طرف سے ایک شخص کو آتے ہوئے دیکھا ۔اُس نے حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کو دیکھا تو راستہ بدل دیا ۔حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ اسے دیکھ کر رک گئے گویا آپ رضی اﷲ عنہ اُس سے ملنا چاہتے تھے ۔ پھر آپ رضی اﷲ عنہ روانہ ہو گئے اور ہم دونوں اُس شخص کے پاس گئے اور اُسے سلام کیا تو اُس نے جواب دیا ۔ہم نے اُس کے قبیلہ کے بارے میں پوچھا تو اُس نے بتایا کہ وہ بنو اسد کا ہے تو ہم نے بتایا کہ ہم بھی بنو اسد کے ہیں ۔پھر ہم نے اُس کا نام پوچھا تو اُس نے بکیر بن شعبہ بتایا ۔پھر ہم نے کوفہ کے حالات معلوم کئے تو اُس نے بتایا کہ حضرت مسلم بن عقیل رضی اﷲ عنہ اور حضرت ہانی بن عروہ رضی اﷲ عنہ کو شہید کردیا گیا ہے اور میں دیکھا کہ اُن دونوں کی لاشوں کے پیر پکڑ کر بازاروں میں گھسیٹا جا رہا تھا ۔یہ خبر سن کر ہم دونوں حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کے قافلہ سے آکر ملے جب آپ رضی اﷲ عنہ نے مقام ’’ثعلبیہ‘‘ میںقیام کیا تو ہم آپ رضی اﷲ عنہ کے پاس گئے اور سلام کیا اور آپ رضی اﷲ عنہ نے جواب دیا ہم نے عرض کیا : ’’ اﷲ تعالیٰ آپ رضی اﷲ عنہ کو اپنی رحمتوں کے سائے میں رکھے ! ہم کچھ خبر آپ رضی اﷲ عنہ کو دینا چاہتے ہیں کہیئے تو ایسے ہی بتا دیں یا پھر چپکے سے آپ رضی اﷲ عنہ کو بتا دیں ۔‘‘ حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ نے اپنے اہل و عیال اور خاندان والوں کو دیکھا اور پھر فرمایا : ’’ اِن لوگوں سے چھپانے والی کوئی بات نہیں ہے ۔‘‘ ہم نے عرض کیا : ’’ کل شام کو آپ رضی اﷲ عنہ نے ایک سوار کو کوفہ سے آتے دیکھا تھا ؟ ‘‘ آپ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا : ’’ ہاں میں نے دیکھا تھا اور میں اُس سے کوفہ کے حالات معلوم کرنا چاہتا تھا ۔‘‘ ہم نے عرض کیا : ’’ ہم نے اُس سے معلوم کر لیا ہے اُس نے بیان کیا کہ اُس کے سامنے حضرت مسلم بن عقیل رضی اﷲ عنہ اور حضرت ہانی بن عروہ رضی اﷲ عنہ کو شہید کر دیا گیا اور اُن دونوں کی لاشوں کے پیر پکڑ کر بازاروں میں گھسیٹا جا رہا تھا ۔‘‘ یہ سن کر آپ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا : ’’ انا ﷲ وانا الیہ راجعون ! اﷲ تعالیٰ کی رحمتیں اُن دونوں پر نازل ہوں ۔‘‘ پھر آپ رضی اﷲ عنہ بار بار یہی کہتے رہے ۔ہم نے عرض کیا : ’’ ہم آپ رضی اﷲ عنہ کو اﷲ کی قسم دیتے ہیں اپنی جان کا اپنے اہل بیت کا خیال کریں اور اِسی جگہ سے واپس چلے جائیں ۔کوفہ میں آپ رضی اﷲ عنہ کا کوئی مددگار نہیں ہے بلکہ ہمیں تو اِس بات کا خوف ہے کہ وہ لوگ آپ رضی اﷲ عنہ کی مخالفت کریں گے ۔‘‘
{آل عقیل کے اصرار پر عزم کوفہ}
حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ اہل کوفہ نے غداری اور بد عہدی کی ہے تو آپ رضی اﷲ عنہ نے ارادہ بدل لیا اور واپسی کا ارادہ بنایا تھا کہ آل عقیل کے اصرار پر آپ رضی اﷲ عنہ نے پھر کوفہ کی طرف بڑھنے کا عزم کر لیا ۔علامہ محمد بن جریر طبری لکھتے ہیں: یہ سن کر حضرت عقیل بن ابی طالب رضی اﷲ عنہ کے بیٹے کھڑ ے ہوئے اور فرمایا : ’’ اﷲ کی قسم ! جب تک ہم حضرت مسلم بن عقیل رضی اﷲ عنہ کے خون کا قصاص نہیں لیں گے یا ہمارا بھی وہی حال ہوگا جو حضرت مسلم بن عقیل رضی اﷲ عنہ کا ہوا ہے تب تک ہم واپس نہیں جائیں گے ۔‘‘ یہ سن کر حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ نے ہم سے فرمایا : ’’ اِن لوگوں کے بعد زندگی کا کوئی لطف نہیں ہو گا ۔‘‘ ہم سمجھ گئے کہ آپ رضی اﷲ عنہ نے کوفہ جانے کا مصمم ارادہ کر لیا ہے ۔ہم نے عرض کیا : ’’ اﷲ تعالیٰ آپ رضی اﷲ عنہ کے لئے بہتری کرے ۔‘‘ آپ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا : ’’ اﷲ تعالیٰ آپ دونوں کو اپنی رحمتوں کے سائے میں رکھے ۔‘‘ آپ رضی اﷲ عنہ کے بعض انصار نے عرض کیا : ’’ کوفہ میں آپ رضی اﷲ عنہ جائیں گے تو سب آپ رضی اﷲ عنہ کی طرف دوڑیں گے ۔‘‘ آپ رضی اﷲ عنہ صبح کا انتظار کرتے رہے جب وقت سحر ہوا تو خادموں سے فرمایا : ’’ جتنا پانی لے سکو لے لو ۔‘‘ اُن سب نے پانی بھر لیا اور بہت زیادہ بھرا ۔پھر سب وہاں سے روانہ ہو گئے اور چلتے چلتے منزل ’’زہالہ‘‘ میں پہنچے ۔
{حضرت عبد اﷲ بن بقطرکی شہادت کی اطلاع}
حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ آگے بڑھے تو آپ رضی اﷲ عنہ کو اپنے قاصد کی شہادت کی اطلاع ملی ۔آپ رضی اﷲ عنہ کے قاصد حضرت قیس بن مسہر صیدادی رضی اﷲ عنہ تھے یا پھر حضرت عبد اﷲ بن بقطر رضی اﷲ عنہ تھے ۔علامہ محمد بن جریر طبری نے ایک روایت میں حضرت قیس بن صیدادی رضی اﷲ عنہ کا نام بیان کیا ہے اور دوسری روایت میں حضرت عبد اﷲ بن بقطر رضی اﷲ عنہ کا نام بیان کیا ہے اور دونوں روایتوں میں دونوں کی شہادت کا واقعہ ایک ہی طرح بیان کیا ہے ۔جب حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کو اپنے قاصد کی شہادت کی اطلاع ملی تو آپ رضی اﷲ عنہ نے اپنے اہل و عیال ،خاندان اور ساتھیوں کو جمع کیا ۔علامہ محمد بن جریر طبری لکھتے ہیں: جب یہ خبر آپ رضی اﷲ عنہ کو ملی تو آپ رضی اﷲ عنہ نے سب لوگوں کو جمع کر کے فرمایا :’’ بسمہ اﷲ الرحمن الرحیم !ایک بہت ہی سخت واقعہ کی خبر مجھے ملی ہے ۔حضرت مسلم بن عقیل ،حضرت ہانی بن عروہ اور میرے قاصد (حضرت قیس بن مسہر یا حضرت عبد اﷲ بن بقطر) رضی اﷲ عنہم شہید کر دیئے گئے ہیں ۔ہمارے حامیوں نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا ہے ۔اِس لئے تم میں جو واپس جانا چاہے وہ چلا جائے میں نے تم پر سے اپنا ذمہ اُٹھا لیا ہے ۔‘‘ یہ سنتے ہی سب لوگ اپنے اپنے گھروں کی طرف لوٹ گئے اور آپ رضی اﷲ عنہ کے ساتھ صرف وہی لوگ رہ گئے جو مدینۂ منورہ سے آپ رضی اﷲ عنہ کے ساتھ چلے تھے ۔آپ رضی اﷲ عنہ نے انہیں جانے کی اجازت اِس لئے دی تھی کیونکہ آپ رضی اﷲ عنہ کے ساتھ بہت سے اعرابی اِس لئے چل رہے تھے کہ انہوں نے یہ سمجھا ہوا تھا کہ حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ ایسے شہر میں جا رہے ہیں جہاں سب اُن کی بات مانیں گے اور اطاعت کریں گے اِسی لئے آپ رضی اﷲ عنہ نے یہ مناسب نہیں سمجھا کہ انہیں لا علمی میں رکھ کر موت کے منہ میں لے جایا جائے ۔آ پ رضی اﷲ عنہ کو یقین تھا کہ جب لوگوں کو مفصل حال معلوم ہو جائے گا تو وہی لوگ میرا ساتھ دیں گے جو میرے ساتھ شہید ہونے کا عزم رکھتے ہیں باقی سب واپس چلے جائیں گے اور ایسا ہی ہوا ۔اب آپ رضی اﷲ عنہ کے ساتھ اہل و عیال ، خاندان کے لوگ ہی رہ گئے تھے ۔
{ بطن عقبہ میں قیام اور ۶۰ ؁ ہجری کا اختتام}
حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کو مکۂ مکرمہ سے روانہ ہوئے لگ بھگ بیس دن سے زیادہ ہو چکے تھے اور جب آپ رضی اﷲ عنہ نے مقام ’’بطن عقبہ‘‘ میں قیام کیا توذی الحجہ ۶۰ ؁ ہجری کا اختتام ہو گیا اور محرم الحرام ۶۱ ؁ ہجری کی شروعات ہوئی ۔علامہ محمد بن جریر طبری لکھتے ہیں: صبح ہوئی تو حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ نے حکم دیا کہ پانی زیادہ سے زیادہ ساتھ لے لو اور انہوں نے ایسا ہی کیا اور روانہ ہوئے اور ’’ بطن عقبہ‘‘ میں جا کر قیام پذیر ہوئے ۔وہاں پر بنو عکرمہ کے ایک شخص نے آپ رضی اﷲ عنہ سے عرض کیا : ’’ آپ رضی اﷲ عنہ کہاں تشریف لے جارہے ہیں؟‘‘ آپ رضی اﷲ عنہ نے تمام حالات بیان کر دیئے ۔اُس نے عرض کیا : ’’ میں آپ رضی اﷲ عنہ کو اﷲ کی قسم دیتا ہوں یہیں سے واپس چلے جایئے ۔اﷲ کی قسم ! آپ رضی اﷲ عنہ برچھیوں اور تلواروں کے نیچے جا رہے ہیں ۔جن لوگوں نے آپ رضی اﷲ عنہ کو بلایا ہے اگر وہ آپ رضی اﷲ عنہ کو جنگ و جدال کی زحمت سے بچا لیتے تو خود ہی سب کام درست کر چکے ہوتے اور اِس کے بعد آپ رضی اﷲ عنہ جاتے تو یہ درست ہوتا ۔آپ رضی اﷲ عنہ نے جو حالات بیان کئے ہیں ۔ایسی صورت میں تو میں یہی عرض کروں گا کہ آپ رضی اﷲ عنہ یہیں سے واپس لوٹ جایئے۔‘‘ آپ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا : ’’ اے اﷲ کے بندے ! تم نے جو رائے دی ہے وہ( دنیاوی لحاظ سے) بالکل درست ہے لیکن اﷲ کی مشیت کے آگے کوئی چارہ نہیں ہے ۔‘‘ اِس کے بعد آپ رضی اﷲ عنہ آگے روانہ ہو گئے ۔اِس سال ۶۰ ؁ ہجری میں یزید نے مدینۂ منورہ کے گورنر ولید بن عتبہ کو معزول کر دیا اور عمرو بن سعید بن عاص کو مکۂ مکرمہ اور مدینۂ منورہ دونوں جگہوں کا گورنر بنادیا ۔کوفہ کے گورنر حضرت نعمان بن بشیر کو معزول کر کے عبید اﷲ بن زیاد کو بصرہ کے ساتھ ساتھ کوفہ کا بھی گورنر بنا دیا ۔
{ ۶۱ ؁ ہجری کوفہ کے پہلے لشکر کا سامنا}
۶۰ ؁ ہجری کا اختتام ہوا اور ۶۱ ؁ ہجری کی شروعات ہوئی اور حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کا کوفہ کی جانب سفر جاری تھا ۔ علامہ محمد بن جریر طبری لکھتے ہیں: حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ بطن عقبہ سے آگے بڑھے اور مقام ’’اشراف‘‘ پر قیام پذیر ہوئے ۔پھر صبح کے وقت وہاں سے روانہ ہوئے اور مسلسل سفر کرتے رہے یہاں تک کہ دوپہر کے وقت قافلے کے آگے والے شخص نے بلند آواز سے ’’اﷲ اکبر‘‘ پکارا ۔ آپ رضی اﷲ عنہ نے بھی ’’اﷲاکبر‘‘فرمایا پھر اُس سے دریافت فرمایا کہ تم نے ’’اﷲ اکبر‘‘ کیوں کہا َ؟اُس نے کہا :’’ مجھے خرمے(کچی کھجور) کے درخت دکھائی دے رہے ہیں ۔‘‘ یہ سن کر بنو اسد کے دو اشخاص نے کہا : ’’ ہم تو یہاں سے اکثر گزرتے ہیں لیکن کبھی یہاں خرمے کے درخت دکھائی نہیں دیئے ۔‘‘ پھر غور سے دیکھنے کے بعد کہا : ’’ یہ تو کسی لشکر کا ’’مقدمۃ الجیش‘‘ (ہراول، پہلا رسالہ) معلوم ہوتا ہے ۔آپ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا : ’’ مجھے بھی ایسا ہی معلوم ہوتا ہے ۔کیا ہمارے لئے یہاں کوئی ایسی جگہ مل سکتی ہے جس کو پشت پر رکھ کر ہم ان لوگوں سے ایک ہی رخ پر سامنا کریں ؟‘‘ دونوں شخصوں نے کہا : ’’ آپ رضی اﷲ عنہ کے پہلو میںمقام ’’ذوحسم‘‘ یا ’’ذو حشم‘‘ موجود ہے آپ رضی اﷲ عنہ بائیں جانب مڑ جایئے ان لوگوں سے پہلے وہاں پہنچ جائیں گے اور جو چیز چاہتے ہیں وہ حاصل ہو جائے گی ۔‘‘ آپ رضی اﷲ عنہ بائیں جانب مڑے ہی تھے کہ لشکر کے رسالے کے سوار بھی آ پہنچے ۔انہوں نے جو دیکھا کہ آپ رضی اﷲ عنہ راستے کو چھوڑ کر بائیں جانب جا رہے ہیں تو وہ بھی اُسی طرف مڑ گئے ۔اُن کے برچھیوں کے پھل شہد کی مکھیوں کے غول کی طرح دکھائی دے رہے تھے اور اُن کے علموں (جھنڈوں) کی بیرقیں گدھ کے پروں کی طرح پھیلی ہوئی تھیں ۔آپ رضی اﷲ پہلے ذوحسم یا ذو حشم پہنچ گئے اور خیمے نصب کرنے کا حکم دیا اور قیام پذیر ہو گئے ۔
{ حر کے لشکر کو پانی پلایا}
حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کے جب کوفہ کی طرف آنے کی خبر عبید اﷲ بن زیاد کو ملی تو اُس نے حصین بن نمیر کو ناکہ بندی کرنے کے لئے بھیجا تو اُس نے قادسیہ میں آکر پڑاؤ ڈال دیا اور اطراف و جوانب میں لشکروں کو دوڑا دیا ۔اُن میں سے ایک لشکر سے حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کا سامنا ہو گیا ۔اس لشکر کا سپہ سالار حربن یزید تمیمی تھا۔ علامہ محمد بن جریر طبری لکھتے ہیں: ہزار سواروں کا رسالہ لئے ہوئے حربن یزید تمیمی اِس جلتی دوپہر میں آپ رضی اﷲ عنہ کے مقابل آکر ٹھہرا ۔اُس نے دیکھا کہ آپ رضی اﷲ عنہ اور آپ رضی اﷲ عنہ کے ساتھی عمامے باندھے ہوئے ہیں ۔آپ رضی اﷲ عنہ نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا :’’ پورے لشکر والوں کو پانی پلاکر اُن کی پیاس بجھاؤاور گھوڑوں کو بھی پانی پلاؤ۔‘‘آپ رضی اﷲ عنہ کے ساتھیوں نے لشکر والوں کو پانی پلا پلا کر سیراب کر دیا ۔پھر کاسے کٹرے طشت بھر بھر کر گھوڑوں کے سامنے لے گئے ۔گھوڑا جب تین یا چار بار پانی میں منہ ڈال چکتا تو ظرف ہٹا کر دوسرے گھوڑے کو پانی پلاتے تھے اِسی طرح سب گھوڑوں کو پانی پلایا۔ حر بن یزید تمیمی کے لشکر کا ایک سپاہی پیچھے رہ گیا تھا ۔وہ بیان کرتا ہے : ’’ حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ نے جب مجھے اور میرے گھوڑے کی بری حالت کو دیکھا تو فرمایا: ’’ رادیہ کو بٹھاؤ۔‘‘ میں مشک کو رادیہ سمجھا تو آپ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا : ’’ اے بیٹے ! اونٹ کو بٹھاؤ۔‘‘ میں نے اونٹ کو بٹھایا تو مجھے پانی دیا اور فرمایا : ’’ لو پیو۔‘‘ میں جب پانی پینے لگا تو مشک (مشکیزے) سے پانی گرنے لگا تو آپ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا : ’’ مشک کے دہانے کو اُلٹ دو ۔‘‘ مجھ سے اُلٹتے نہیں بنا تو آپ رضی اﷲ عنہ خود کھڑے ہوئے اور دہانہ کو اُلٹ دیا ۔پھر میں نے اور میرے گھوڑے نے پانی پیا ۔آپ رضی اﷲ عنہ کی طرف حربن یزید تمیمی کے لشکر لیکر آنے کا سبب یہ ہوا کہ عبید اﷲ بن زیاد کو جب یہ خبر ملی کہ حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ آرہے ہیں تو اُس نے حصین بن نمیر کو جو پولیس محکمے کا سربراہ تھا روانہ کیا اور حکم دیا کہ قادسیہ میں ٹھہرے اور قطقطانہ سے حقائق تک مورچے باندھے اور حر کو ایک ہزار سوار کا لشکر دے کر اُس کے آگے روانہ کیا کہ وہ حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ سے مزاحمت کرے ۔حر بن یزید تمیمی نے آپ رضی اﷲ عنہ کو روکے رکھا ۔
{تم کو میرا آنا ناگوار لگا ہو تو واپس چلا جاؤں}
حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ ذو حسم یا ذو حشم میں قیام پذیر تھے اور سامنے ایک ہزار کا لشکر لیکر حر بن یزید تمیمی قیام پذیر تھا ۔ علامہ محمد بن جریر طبری لکھتے ہیں : یہاں تک کہ ظہر کا وقت آگیا ۔ اب آپ رضی اﷲ عنہ نے حضرت حجاج بن مسروق جعفی کو حکم دیا کہ اذان دیں ۔انہوں نے اذان دی اور اقامت کی باری آئی تو آپ رضی اﷲ عنہ تہمد اور چادر پہنے ہوئے نکلے ۔اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی او ررسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر درود بھیجا پھر فرمایا : ’’ اے لوگو! اﷲ تعالیٰ سے اور تم سب لوگوں سے میں ایک عذر کرتا ہوں کہ جب تک تمہارے قاصد تمہارے خطوط اور تمہارے یہ پیغام لیکر نہیں آئے کہ آپ رضی اﷲ عنہ آیئے ،ہمارا کوئی امام نہیں ہے ۔شاید آپ رضی اﷲ عنہ کے سبب اﷲ تعالیٰ ہم سب لوگوں کو ہدایت پر متفق کر دے اُس وقت تک میں تمہارے پاس نہیں آیا ۔اب اگر تم اسی قول پر ڈٹے ہو تو لو میں تمہارے پاس آگیا ہوں ۔تم مجھ سے عہد و پیمان کر لو جس سے مجھے اطمینان ہو جائے تو میں تمہارے شہر چلوں ۔اور اگر ایسا نہیں کرتے ہو اور تم کو میرا آنا ناگوار گزرا ہو تو میں جہاں سے آیا ہوں وہیں واپس چلا جاؤں گا ۔‘‘ یہ سن کر سب خاموش رہے تو آپ رضی اﷲ عنہ نے مؤذن سے فرمایا :’’ اقامت کہو۔‘‘ اُس نے اقامت کہی تو آپ رضی اﷲ عنہ نے حر بن یزید تمیمی سے فرمایا : ’’ تم لوگ الگ نماز پڑھو گے؟‘‘ حر بن یزید نے کہا :’’ نہیں ! ہم سب بھی آپ رضی اﷲ عنہ کے پیچھے نماز ادا کریں گے ۔‘‘ آپ رضی اﷲ عنہ نے سب کو نماز پڑھائی اور اپنے خیمہ میں چلے گئے اور آپ رضی اﷲ عنہ کے اہل و عیال اور خاندان والے آپ رضی اﷲ عنہ کے پاس جمع ہو گئے ۔
{عبید اﷲ بن زیاد کے پاس جانے سے انکار}
حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ نے حر بن یزید تمیمی سے فرمایا تھا کہ اگر تم لوگوں کو میرا یہاں آنا ناگوار گزرا ہو تو مجھے واپس جانے دو تو اُس نے کوئی جواب نہیں دیا تھا ۔علامہ محمد بن جریر طبری لکھتے ہیں : حر بن یزید تمیمی اپنے لشکر میں واپس چلا گیا ۔اُس کے لئے خیمہ نصب کیا جا چکا تھا وہ اُس میں چلا گیا ۔اُس کے لشکر کے کچھ لوگ اُس کے پاس جمع ہو گئے اور باقی اپنی اپنی صفوں میں چلے گئے اور پھر سے صفیں لگا لیں۔ پھر ہر شخص نے اپنے اپنے گھوڑے کی باگ پکڑ لی اور اُس کے سایے میں اُتر کر بیٹھ گئے ۔عصر کی نماز کا وقت ہوا آپ رضی اﷲ عنہ خیمہ سے نکلے اور مؤذن کوحکم دیا تو اُس نے اذان دی اور پھر اقامت کہی ۔آپ رضی اﷲ آگے بڑھے اور سب کو نماز پڑھائی سلام پھیرا ۔پھر سب کی طرف چہرۂ مبارک کر کے اﷲ تعالیٰ کی حمدو ثنا کی اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر دورود بھیجا پھر فرمایا : ’’ اے لوگو! اگر تم اﷲ کا خوف کرو گے اور حق داروں کے حق کو پہچانو گے تو یہ اﷲ کی خوشنودی کا باعث ہو گا ۔ ہم اہل بیت ہیں اور یہ لوگ جو تم پر حکومت کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں جس کا انہیں حق نہیں ہے اور تمہارے ساتھ ظلم و تعدی سے پیش آتے ہیں ۔اِس امر کے لئے ان سے ہمیں اولیٰ ہے ۔ اگر تم کو ہم سے کراہت ہے اور ہمارے حق سے تم واقف نہیں ہو اور اپنے خطوں اور پیغاموں کی زبانی تم نے جو کچھ مجھ سے کہلا بھیجا ہے اب وہ تمہاری رائے نہیں رہ گئی ہے تو میں تمہارے پاس سے واپس چلا جاؤں گا ۔‘‘ حر بن یزید نے جواب میں کہا : ’’ اﷲ کی قسم ! مجھے نہیں معلوم وہ خطوط کیسے تھے جن کا آپ رضی اﷲ عنہ ذکر فرما رہے ہیں ۔‘‘ یہ سن کر آپ رضی اﷲ عنہ نے حضرت عقبہ بن سمعان سے فرمایا : ’’ وہ دونوں تھیلے جن میں ان لوگوں کے خطوط ہیں لے آؤ۔‘‘ حضرت عقبہ بن سمعان دونوں تھیلے لے کر آئے جو خطوط سے بھرے ہوئے تھے ۔آپ رضی اﷲ عنہ نے سب کے سامنے اُن خطوط کو بکھیر دیا ۔حر بن یزید تمیمی ے کہا : ’’ جن لوگوں نے آپ رضی اﷲ عنہ کو خطوط لکھے ہیں ،ہم اُن میں سے نہیں ہیں اور ہم کو حکم ملا ہے کہ اگر ہم آپ رضی اﷲ عنہ کو پا جائیں تو عبید اﷲ بن زیاد کے پاس لے جائے بغیر نہ چھوڑیں ۔‘‘ آپ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا: ’’ یہ کام کرنے سے بہتر تمہارے لئے مر جانا ہے ۔‘‘ اِس کے بعد آپ رضی اﷲ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا : ’’ اٹھو سوار ہو جاؤ۔‘‘ سب سوار ہوگئے اور انتظار کرنے لگے کہ مستورات بھی سوار ہو جائیں ۔
{تیسرے مقام کی طرف روانگی}
حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ عنہ واپس جانا چاہتے تھے اور حر بن یزید تمیمی آپ رضی اﷲ عنہ کو کوفہ عبید اﷲ بن زیاد کے پاس لے جانا چاہتا تھا ۔علامہ محمد بن جریر طبری لکھتے ہیں: آپ رضی اﷲ عنہ نے اپنے رہبروں سے فرمایا: ’’ ہم سب کو واپس لے چلو۔‘‘ جب آپ رضی اﷲ عنہ واپس جانے لگے تو حر بن یزید نے اپنے لشکر کے ساتھ راستہ روک لیا ۔آپ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا: ’’ تیری والدہ تجھ پر روئے ! آخر تیرا کیا مطلب ہے؟‘‘ حر بن یزید نے کہا: ’’ اﷲ کی قسم ! اگر عرب میں سے کسی نے یہ کلمہ مجھ سے کہا ہوتا تو میں بھی اُس کی والدہ کے رونے کا ذکر کئے بغیر نہیں رہتا !لیکن میری مجال نہیں ہے کہ آپ رضی اﷲ عنہ کی والدہ محترمہ کا ذکر حد درجہ تعظیم کے سوا کسی اور طریقے سے کروں ۔آپ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا: ’’ پھر تیرا کیا ارادہ ہے؟‘‘ حر بن یزید نے کہا : ’’ اﷲ کی قسم ! میرا ارادہ یہ ہے کہ آپ رضی اﷲ عنہ کو عبید اﷲ بن زیاد کے پاس لے جاؤں ۔‘‘ آپ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا : ’’ اﷲ کی قسم ! میں تیرے ساتھ نہیں جاؤں گا ۔‘‘ حر بن یزید نے کہا : ’’ اﷲ کی قسم ! میں آپ رضی اﷲ عنہ کو نہیں چھوڑوں گا ۔‘‘ دونوں نے یہی بات تین تین مرتبہ کہی ۔ جب تکرار بڑھ گئی تو حر بن یزید نے کہا: ’’ مجھے آپ رضی اﷲ عنہ کو شہید کرنے کا حکم نہیں ملا ہے بلکہ مجھے صرف اتنا حکم ملا ہے کہ جب تک آپ رضی اﷲ عنہ کو کوفہ عبید اﷲ بن زیاد کے پاس نہ لے جاؤں تب تک آپ رضی اﷲ عنہ کے پاس سے نہیں ہٹوں ۔اگر آپ رضی اﷲ عنہ میری بات نہیں مان رہے ہیں تو کسی ایسے راستے پر چلیئے جو کوفہ کی طرف جاتا ہو نہ مدینۂ منورہ کی طرف جاتا ہو۔میں عبید اﷲ بن زیاد کو تمام حالات لکھ کر بھیج دوں گا ۔اگر آپ رضی اﷲ عنہ کا دل چاہے تو آپ رضی اﷲ عنہ یزید کو لکھیئے یا پھر عبید اﷲ بن زیاد کو لکھیئے ۔شاید اﷲ تعالیٰ ایسی صورت نکال دے کہ میں آپ رضی اﷲ عنہ کے بارے میں کوئی سخت قدم اُٹھانے سے بچ جاؤں ۔ آپ رضی اﷲ عنہ ایسا کریں کہ عذیب اور قادسیہ کے راستے سے بائیں طرف مڑ جائیں ۔ اُس وقت عذیب اڑتیس میل کے فاصلے پر تھا ۔ آپ رضی اﷲ عنہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ راونہ ہوئے اور حر بن یزید اپنا لشکر لیکر ساتھ ساتھ چلا ۔
{حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ نے پھر سمجھایا}
حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ اپنے اہل و عیال اور خاندان والوں کے ساتھ تیسرے راستے پر سفر کر رہے تھے اور حر بن یزید بھی اپنے لشکر کے ساتھ سفر کر رہا تھا ۔آپ رضی اﷲ عنہ نے مقام ’’ بیضہ‘‘ میں پڑاؤ ڈال دیا ۔علامہ محمد بن جریر طبری لکھتے ہیں: مقام بیضہ میں آپ رضی اﷲ عنہ نے اپنے اور حر بن یزید کے اصحاب کے درمیان خطبہ دیا ۔علامہ عبد الرحمن بن خلدون لکھتے ہیں: آپ رضی اﷲ عنہ نے لوگوں کو مخاطب کر کے اﷲ کی حمد و ثناء کی اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر درود بھیجا اور فرمایا : ’’ اے لوگو ! رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس شخص نے ظالم بادشاہ کو دیکھا کہ وہ اﷲ کے حرام کردہ کو حلال کرتا ہے ۔اُس کے عہد کو توڑتا ہے ۔رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیروی نہیں کرتا ہے ۔اﷲ کی مخلوق میں ظلم اور گناہ کے کام کرتا ہے ۔پھر اُس شخص نے کسی قسم کی قولی یا عملی دست اندازی نہیں کی تو اﷲ تعالیٰ اُس کو بھی اُس (ظالم بادشاہ) کے ساتھ شمار کرے گا ۔آگاہ ہو جاؤ !اِن لوگوں نے اﷲ تعالیٰ کی اطاعت چھوڑ کر شیطان کی تابعداری شروع کر دی ہے ۔فتنہ و فساد برپا کر دیا ہے ۔میں اِن لوگوں سے زیادہ صاحب الامر ہونے کا مستحق ہوں ۔تمہارے خطوط اور قاصد میرے پاس آئے اور تم نے مجھے بیعت کرنے کے لئے بلایا ۔اب تم مجھے رسوا نہ کرو ، اگر بیعت کے اقرار پر قائم رہو گے تو حق کا راستہ پا جاؤ گے ۔میںعلی بن ابی طالب رضی اﷲ عنہ کا بیٹا ہوں اور میری والدہ محترمہ سیدہ فاطمہ زہرہ رضی اﷲ عنہا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی بیٹی ہیں ۔میری جان تمہاری جان کے ساتھ ہے اور میرے اہل و عیال تمہارے اہل و عیال کے ساتھ ہیں ۔تم کو میرے ساتھ بھلائی کرنی چاہیئے اور اگر تم نے ایسا نہیں کیا اور میرے ساتھ عہد شکنی کی تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے ۔تم نے میرے والد محترم حضرت علی بن ابی طالب رضی اﷲ عنہ ،میرے بھائی حضرت حسن بن علی رضی اﷲ عنہ اور میرے چچا زاد بھائی حضرت مسلم بن عقیل رضی اﷲ عنہ کے ساتھ بد عہدی کی ہے ۔افسوس کہ تم لوگ مجھے دھوکا دے کر دین مین اپنا حق اور حصہ ضائع کر رہے ہو ۔پس جو شخص بد عہدی کرے گا اپنے لئے کرے گا اور اﷲ تعالیٰ مجھ کو تم سے بے پرواہ کر دے گا ۔ والسلام۔‘‘
{حضرت زہیر بن قین کی حق پرستی}
حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کا خطبہ سن کر حضرت زہیر بن قین نے آپ رضی اﷲ عنہ کا ہر حال میں ساتھ نبھانے کا ارادہ ظاہر کیا ۔علامہ محمد بن جریر طبری لکھتے ہیں: یہ سن کر حضرت زہیر بن قین کھڑے ہوئے اور اپنے ساتھ کے لوگوں سے کہا : ’’ تم کچھ کہتے ہو یا میں کہوں؟‘‘ انہوں نے کہا : ’’ آپ ہی کہیئے۔‘‘ حضرت زہیر بن قین نے پہلے اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثنا ء کی پھر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر درود بھیجا پھر عرض کیا : ’’ اے آل رسول رضی اﷲ عنہ ! ہداک اﷲ !آپ رضی اﷲ عنہ کے ارشاد کو ہم قبول کرتے ہیں ۔اﷲ کی قسم ! اگر دنیا ہمیشہ باقی رہنے والی ہوتی اور ہم اُس میں ہمیشہ رہنے والے ہوتے اور اُس وقت بھی ہمیں آپ رضی اﷲ عنہ کی نصرت اور غمخواری کے لئے دنیا کو چھوڑنا پڑتا تو ہم اِس دنیا میں رہنے کے بجائے آپ رضی اﷲ عنہ کا ساتھ دے کر دنیا چھوڑنا پسند کرتے ۔‘‘ حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ نے اُن کے لئے دعائے خیر کی ۔حر بن یزید بھی آپ رضی اﷲ عنہ کے ساتھ مسلسل سفر کر رہا تھا اور بولتا جا رہا تھا :’’ اے حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ ! میں اﷲ کا واسطہ دیتا ہوں کہ اپنی جان کا خیال کیجیئے ۔میں کہتا ہوں کہ آپ رضی اﷲ عنہ حملہ کریں گے تو شہید ہو جائیں گے یا آپ رضی اﷲ عنہ پر حملہ ہو گا تب بھی شہید ہو جائیں گے مجھے تو ایسا ہی لگتا ہے ۔حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا : ’’ تُو مجھے مرنے سے ڈرا رہا ہے ؟ کیا نوبت یہاں تک پہنچے گی کہ تم لوگ مجھے شہید کر دو گے ؟ اِس بات کے جواب میں وہی بات کہوں گا جو بنو اوس کے ایک صحابی رضی اﷲ عنہ نے اپنے چچا زاد سے کہی تھی ۔وہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی نصرت کو جارہے تھے تو اُس نے کہا : ’’ کہاں جا رہے ہو؟‘‘ انہوں نے جواب دیا : ’’ میں جاؤں گا اور موت سے اُس شخص کو کاہے شرم ۔جس نے حق کی نیت کی ہو اور مسلم ہو کر جہاد کیا ہو ۔جس نے اپنی جان سے اﷲ کے صالح بندوں کی غمخواری کی ہو ۔جس نے ہلاک ہونے والے خائن سے کنارہ کیا ہو ۔حر بن یزید نے جب یہ بات سنی تو خاموشی سے اپنے لشکر کی طرف لوٹ گیا ۔وہ اپنے لشکر کے ساتھ حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کے قافلے سے تھوڑی دور پر چل رہا تھا ۔
{ حضرت قیس بن مسہر صیدادی کی شہادت کی اطلاع}
حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کوفہ اور مدینۂ منورہ کے علاوہ تیسرے راستے پر رواں دواں تھے کہ حضرت قیس بن مسہر صیدادی کے شہید ہونے کی اطلاع ملی ۔اِس سے پہلے حضرت عبد اﷲ بن بقطر رضی اﷲ عنہ کی شہادت کی اطلاع آپ رضی اﷲ عنہ کو ملی تھی اب حضرت قیس بن مسہر صیدادی رضی اﷲ عنہ کی شہادت کی اطلاع ملی ۔ہو سکتا ہے کہ حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ نے الگ الگ وقت میں دونوں کو الگ الگ کوفہ کی طرف قاصد بنا کر بھیجا ہو اور عبید اﷲ بن زیاد نے دونوں کو ایک ہی طریقے سے شہید کیا ہو ۔علامہ محمد بن جریر طبری لکھتے ہیں: چلتے چلتے مقام ’’عذیب الہجانات‘‘ تک پہنچے ۔(ہجانات اونٹنیوں کو کہتے ہیں) یہاں نعمان کی اونٹنیاں چرا کرتی تھیں ۔جب اِس مقام پر آپ رضی اﷲ عنہ پہنچے تو کوفہ سے چار شخص اونٹوں پر سوار نافع بن ہلال کا مشہور گھوڑا ’’کوتل‘‘ دوڑاتے ہوئے آئے ۔ ان کا راہ نما طرماح بن عدی تھا ۔حضرت حسین علی رضی اﷲ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہی اُس نے عرض کیا : ’’ اے سانڈنی میرے جھڑکنے سے گھبرا نہ جا ۔صبح ہونے سے پہلے ان سواروں کو لیکر روانہ ہو جا ۔ یہ تما م سواروں میں اور سفر کرنے والوں میں سب سے بہتر ہیں ۔ ان کو لئے ہوئے تو اُس شخص کے پاس جا کر ٹھہر جا ۔جو کریم النسب اور صاحب مجدد اور کشادہ دل ہیں ۔جنہیں اﷲ تعالیٰ ایک ’’امر خیر‘‘ (بھلائی کے کام) کے لئے یہاں لایا ہے ۔رہتی دنیا تک ان کو اﷲ سلامت رکھے ۔‘‘ حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا : ’’ اﷲ کی قسم ! میں بھی جانتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ کی مشیت میں لوگوں کا قتل ہونا یا فتح مند ہونا دونوں طرح سے ’’امر خیر‘‘ ہے ۔‘‘ حر بن یزید اُن چاروں کو گرفتار کرنے کے لئے آگے بڑھا تو حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ نے اُسے ڈانٹ دیا اور وہ خاموشی سے واپس چلا گیا ۔اِس کے بعد آپ رضی اﷲ عنہ نے اُن چاروں سے فرمایا : ’’ جہاں سے تم آ رہے ہو ،وہاں کی کیا خبر ہے ؟ مجھ سے بیان کرو۔‘‘ اُن میں سے ایک شخص مجمع بن عبد اﷲ عائذی نے عرض کیا: ’’ بڑے بڑے لوگوں کا تو یہ حال ہے کہ اُن کو بڑی بڑی رشوتیں دی گئیں ہیں ،اُن کے تھیلے بھر دیئے گئے ہیں ۔اُن کو بلا رہے ہیں اور اپنا خیر خواہ بنا رہے ہیں ،وہ سب لوگ آپ رضی اﷲ عنہ کے خلاف متفق ہیں ۔ رہے عام لوگ ! تو اُن کا یہ حال ہے کہ اُن کے دل آپ کی طرف ہیں لیکن کل یہی لوگ آپ رضی اﷲ عنہ پر تلواریں کھینچے ہوئے چڑھائی کر دیں گے ۔‘‘ آپ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا: ’’ میرا ایک قاصد حضرت قیس بن مسہر صیدادی تمہارے پاس آیا تھا۔‘‘ انہوں نے عرض کیا : ’’ ہاں ! اُن کو حصین بن نمیر نے گرفتار کر کے عبید اﷲ بن زیاد کے پاس بھیج دیا تھا ۔‘‘ پھر اُن کے شہید ہونے کا واقعہ تفصیل سے بیان کیا ۔پورا واقعہ سن کر حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں اور آپ رضی اﷲ عنہ آنسوؤں کو ضبط نہیں کر سکے اور یہ آیت تلاوت فرمائی : ’’ ان میں سے کوئی گذر گیا کوئی انتظار کر رہا ہے اور ان لوگوں نے ذرا تغیر و تبدل نہیں کیا ۔‘‘ پھر آگے فرمایا :’’ اے اﷲ تعالیٰ ! ہم کو اور اُن کو جنت کی نعمتیں عطا فرما اور ہم کو اور اُن کو اپنی جوار ِ رحمت میں اور اپنے ثواب کے ذخیرۂ بخشش میں یکجا کردے ۔‘‘
{اب ہم واپس نہیں جا سکتے}
حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ نے کوفہ سے آنے والے چاروں سواروں سے کوفہ کے حالات دریافت کئے تو معلوم ہوا کہ کوفہ کے تمام لوگ آپ رضی اﷲ عنہ کے خلاف ہو گئے ہیں ۔علامہ محمد بن جریر طبری لکھتے ہیں: طرماح بن عدی آپ رضی اﷲ عنہ کے قریب آیا اور عرض کیا : ’’ اﷲ کی قسم ! میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ آپ رضی اﷲ عنہ کے ساتھ کوئی نہیں ہے ۔جو لشکر آپ رضی اﷲ عنہ کے ساتھ چل رہا ہے ۔صرف اِسی سے مقابلہ ہوگا تو آپ رضی اﷲ عنہ اور اہل و عیال اور ساتھی کافی ہیں ۔حالانکہ جب میں آپ رضی اﷲ عنہ کے پاس آنے کے لئے کوفہ سے نکلا تو اُس سے ایک دن پہلے میں نے سپاہیوں کی ایسی کثرت دیکھی کہ اتنا بڑا لشکر ابھی تک میری نظر سے نہیں گذرا ہے ۔میں نے اِس اجتماع کا سبب پوچھا تو بتایا گیا کہ یہ اجتماع تو عرض کے لئے ہے ۔عرض سے فارغ ہونے کے بعد یہ لشکر حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کے مقابلے پر روانہ ہوگا ۔اب میں آپ رضی اﷲ عنہ کو اﷲ کا واسطہ دیتا ہوں کہ اگر ممکن ہو تو ایک قدم بھی اُس طرف جانے کے لئے نہیں اُٹھایئے۔اگر آپ رضی اﷲ عنہ کسی ایسے شہر میں جانا چاہتے ہوں جہاں اﷲ آپ رضی اﷲ عنہ کی حفاظت کرے اور آپ رضی اﷲ عنہ کوئی رائے قائم کر لیں اور جو کام کرنا چاہتے ہیں اُسے اچھی طرح سوچ سمجھ کر لیں تو چلیئے میں آپ رضی اﷲ عنہ کو اپنے بلند پہاڑ ’’کوہ اجا‘‘ پر لے چلوں ۔اﷲ کی قسم ! ہم لوگ اُسی پہاڑ پر غسان اور حمیرکے باشاہوں اور نعمان بن منذر اور ہراسود احمر سے محفوظ رہے ہیں۔ اﷲ کی قسم ! ہم کو کبھی یہ لوگ مطیع نہیں کر سکے ہیں ۔ میں آپ رضی اﷲ عنہ کے ساتھ چلتا ہوں اور ’’موضع قریہ ‘‘ میں آپ رضی اﷲ عنہ کو قیام پذیر کر دوں گا ۔ پھر کوہستان اجاد سلمیٰ میں بنو طے میں جو لوگ ہیں اُن کو کہلا بھیجوں گا ۔ اﷲ کی قسم ! دس دن کے اندر اندر آپ رضی اﷲ عنہ کے پاس بنو طے کے پیادے اور سوار جمع ہو جائیں گے ۔آپ رضی اﷲ عنہ کا جب تک جی چاہے گا ہم لوگوں کے درمیان رہ سکتے ہیں ۔اگر آپ رضی اﷲ عنہ کو کوئی واقعہ پیش آئے تو میں بنو طے کے بیس ہزار مجاہدین کو جمع کرنے کا ذمہ میں لیتا ہوں جو آپ رضی اﷲ عنہ کے آگے سے ، پیچھے سے ، دائیں سے اور بائیں سے شمشیر زنی کریں گے ۔جب تک ان میں سے ایک شخص بھی زندہ رہے گا آپ رضی اﷲ عنہ کو کوئی ضرر نہیں پہنچنے دے گا ۔‘‘ آپ رضی اﷲ عنہ مسکرائے اور فرمایا : ’’ اﷲ تجھے اور تیرے قبیلے کو جزائے خیر عطا فرمائے ۔بات یہ ہے کہ ہم میں اور ان میں(حر بن یزید کے لشکر میں) ایک قول ہو چکا ہے جس کے سبب ہم واپس نہیں جاسکتے اور ہمیں نہیں معلوم کہ ہمارا وران کا کیا انجام ہو گا ۔‘‘
{طرماح بن عدی مدد نہیں کر سکا}
حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ نے طرماح بن عدی کا شکریہ ادا کیا اور فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ نہیں جا سکتا ۔طرماح بن عدی نے عرض کیا کہ میں اپنے گھر والوں کے لئے راشن لے کر جا رہا تھا وہ انہیں دے کر آپ رضی اﷲ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں اور پھر چاہے جو ہو میں آپ رضی اﷲ عنہ کا ساتھ نہیں چھوڑوں گا ۔علامہ محمد بن جریر طبری لکھتے ہیں : طرماح بن عدی نے حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ سے عرض کیا : ’’ اﷲ تعالیٰ آپ رضی اﷲ عنہ کو تمام عالم کے جن و انس کے شر سے بچائے ۔میں کوفہ سے کچھ غلہ وغیرہ اپنے اہل و عیال کے لئے لیکر چلا ہوں ۔آپ رضی اﷲ عنہ اجازت دیں تو یہ سامان اور خرچ کے لئے کچھ دے دوں اور وہاں جا کر یہ سب چیزیں انہیںدے کر انشاء اﷲ جلد ہی واپس آؤں گا اور اﷲ کی قسم ! میں بھی آپ رضی اﷲ عنہ کے انصار میں شامل ہو جاؤں گا ۔‘‘ آپ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا : ’’ رحمک اﷲ ! اگر تیرا یہی ارادہ ہے تو جلدی کر ۔‘‘طرماح بن عدی کہتے ہیں: ’’ اِس سے معلوم ہوا کہ آپ رضی اﷲ عنہ چاہتے تھے کہ اِس امر میں لوگ آپ رضی اﷲ عنہ کے ساتھ شریک ہوں جب ہی تو مجھے جلدی کرنے کو فرمایا ۔میں اپنے اہل و عیال میں پہنچا اور جن چیزوں کی انہیں ضرورت تھی وہ اُن کو دے کر میں نے وصیت کی ۔سب کہنے لگے : ’’ اِس مرتبہ اِس طرح رخصت ہو رہے ہیں کہ اِس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا ۔‘‘ میں نے اپنے ارادے سے انہیں مطلع کیا اور بنو ثعول کے راستے سے روانہ ہوا ۔عذیب الہجانات تک ہی پہنچا تھا کہ سماعہ بن بدر نے بتایا کہ حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ شہید کر دیئے گئے ۔یہ سن کر میں واپس آ گیا ۔
{ ہم حق پر ہیں}
حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کا سفر جاری تھا ۔آپ رضی اﷲ عنہ قصر بنو مقاتل میں قیام پذیر ہوئے پھر آگے روانہ ہو گئے ۔علامہ محمد بن جریر طبری لکھتے ہیں: ایک ساعت بھر چلے تھے کہ آپ رضی اﷲ عنہ ذرا اونگھ گئے پھر چونک کر انا ﷲ و انا الیہ راجعون والحمد اﷲ رب العالمین فرمایا اور یہ کلمہ آپ رضی اﷲ عنہ نے دو یا تین مرتبہ کہا ۔یہ سن کر آپ رضی اﷲ عنہ کے بیٹے حضرت علی بن حسین رضی اﷲ عنہ گھوڑا بڑھا کر آگے آئے اور عرض کیا : ’’ ابو جان ! میں آپ رضی اﷲ عنہ پر فدا ہو جاؤں ، اِس وقت آپ رضی اﷲ عنہ نے یہ کلمہ کیوں فرمایا ؟‘‘ آپ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا : ’’ اے میرے پیارے بیٹے ! ذرا میری آنکھ جھپک گئی تھی تو میں ایک سوار کو اپنے گھوڑے پر دیکھا ۔اُس نے کہا : ’’ یہ لوگ تو چلے جارہے ہیں اور موت ان کی طرف آرہی ہے ۔‘‘ اِس سے میں سمجھ گیا کہ ہمیں خبر مرگ سنائی گئی ہے ۔‘‘ بیٹے نے عرض کیا : ’’ ابو جان ! اﷲ تعالیٰ آپ رضی اﷲ عنہ کو ہر بلا سے محفوظ رکھے ،کیا ہم لوگ حق پر نہیں ہیں؟ ‘‘ آپ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا : ’’ قسم ہے اُس اﷲ کی جس کے پاس سب کو لوٹ کر جانا ہے ہم حق پر ہیں ۔‘‘ حضرت علی بن حسین رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا :’’ پھر ہمیں کچھ پرواہ نہیں ہے ۔مریں گے تو حق پر مریں گے ۔‘‘ آپ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا : ’’ جزاک اﷲ ! والد کی طرف سے فرزند کو جو بہترین جزا مل سکتی ہے وہ تم کو ملے ۔‘‘
{عبید اﷲ بن زیاد کا حکم }
حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ سفر کر رہے تھے اور حر بن یزید اپنے لشکر کے ساتھ اُن کے آس پاس ہی چل رہا تھا ۔علامہ محمد بن جریر طبری لکھتے ہیں: حر بن یزید جب آپ رضی اﷲ عنہ کو کوفہ کی طرف جانے کے لئے مجبور کرتا تو آپ رضی اﷲ عنہ نہیں مانتے تھے اور آگے بڑھ جاتے تھے یہاں تک کہ مقام ’’نینوا‘‘ میں پہنچے تو وہیں پر قیام پذیر ہو گئے ۔اتنے میں ایک سانڈنی (اونٹ) سوار ہتھیار لگائے کمان شانہ پر ڈالے کوفہ کی طرف سے آتا دکھائی دیا ۔سب کے سب اُس کے انتظار میں ٹھہر گئے ۔وہ آیا اور حر بن یزید اور اُس کے لشکر کو سلام کیا اور حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ اور اُن کے ساتھیوں کو سلام نہیں کیا ۔حر بن یزید کو عبید اﷲ بن زیاد کا خط دیا ۔اُس میں لکھا تھا :’’ میرا قاصد اور میرا خط جب تمہیں ملے تو (حضرت) حسین بن علی (رضی اﷲ عنہ) کو بہت تنگ کرنا ۔اُن کو ایسی جگہ پڑاؤ ڈالنے دینا جہاں چٹیل میدان ہو اور کوئی پناہ کی جگہ نہیں ہو اور پانی بھی نہیں ہو ۔دیکھو قاصد کو میں نے حکم دے دیا ہے کہ وہ تم پر نگران رہے تمہارا ساتھ نہ چھوڑے جب تک کہ میرے پاس یہ خبر نہ لیکر آئے کہ تم نے میرے حکم کو پورا کر دیا ہے ۔والسلام۔‘‘ حر بن یزید نے خط پڑھ کر حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کے ساتھیوں سے کہا :’’یہ خط گورنر عبید اﷲ بن زیاد کا ہے ۔مجھے حکم دیا ہے کہ جس مقام پر مجھے یہ خط ملے وہیں تم لوگوں کو بہت تنگ کروں اور دیکھو یہ شخص قاصد ہے اس کو حکم ہے کہ میرے پاس سے اُس وقت تک نہ ہٹے جب تک یہ نہ دیکھ لے کہ میں نے امیر (گورنر) کی رائے پر عمل کرلیا اور اُس کے حکم کو جاری کر دیا ہے ۔‘‘
جاری ہے۔۔۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا