میرے جذبات میری زبانی

0
88

تبسّم منظور ناڑکر
موربہ (مانگاوں ) مقیم،ممبئی 9870971871

سب کے بہت سمجھانے پر آج میں انجیوگرافی کرانے کے لئے تیار ہو گئی ۔صبح ساڑھے آٹھ بجے کا اپوئیمنت تھا ۔گھر سے ساڑھے سات بجے نکلے، راستے میں بےحد ٹریفک تھی اس پر بہت ہی تیز بارش بھی تھی ۔اس ٹریفک اور تیز بارش کی وجہ سے جو ہمیں ساڑھے آٹھ کو پہنچنا تھا وہ ہم دس بجے پہنچے ۔ میرا اپوئیمنت ڈاکٹر زین العابدین حمدولے کے پاس تھا پر ہم بہت لیٹ ہو گئے ۔تو ڈاکٹر زین العابدین حمدولے نے کہا کہ ہم ڈاکٹر پروین کلکرنی سے ملے کیونکہ وہ آپریشن ٹھیٹر میں جا چکے ہیں ۔  میرے ساتھ میرے بچے تھے ۔دل تو چاہ رہا تھا کہ میرے شوہر بھی میرے ساتھ ہو،کیونکہ شوہر سے زیادہ مضبوط سہارا اور کوئی بھی نہیں ہو سکتا ۔پر  وہ اپنی کسی مجبوری کی وجہ سے نہ آسکے۔لیکن ہر دس منٹ بعد فون کر کے پوچھ رہے تھے ۔   سب کے بہت سمجھانے پر آج میں انجیوگرافی کرانے کے لئے تیار ہو گئی ۔صبح ساڑھے آٹھ بجے کا اپوئیمنت تھا ۔گھر سے ساڑھے سات بجے نکلے، راستے میں بےحد ٹریفک تھی اس پر بہت ہی تیز بارش بھی تھی ۔اس ٹریفک اور تیز بارش کی وجہ سے جو ہمیں ساڑھے آٹھ کو پہنچنا تھا وہ ہم دس بجے پہنچے ۔ میرا اپوئیمنت ڈاکٹر زین العابدین حمدولے کے پاس تھا پر ہم بہت لیٹ ہو گئے ۔تو ڈاکٹر زین العابدین حمدولے نے کہا کہ ہم ڈاکٹر پروین کلکرنی سے ملے کیونکہ وہ آپریشن ٹھیٹر میں جا چکے ہیں ۔  میرے ساتھ میرے بچے تھے ۔دل تو چاہ رہا تھا کہ میرے شوہر بھی میرے ساتھ ہو،کیونکہ شوہر سے زیادہ مضبوط سہارا اور کوئی بھی نہیں ہو سکتا ۔پر  وہ اپنی کسی مجبوری کی وجہ سے نہ آسکے۔لیکن ہر دس منٹ بعد فون کر کے پوچھ رہے تھے ۔       جیسے ہی ہم گلوبل ہسپتال پہنچے (یہ گلوبل ہسپتال پریل میں واقع ہے ) تو سکیورٹی نے چیکنگ کر کے اندر بھیجا ۔ اندر جا کر پتہ چلا آج 29 ستمبر کو انٹرنیشنل ہارٹ ڈے ہے ۔خوش قسمتی سے مجھے آج ہی کے دن انجیوگرافی کرانے کے لئے اس گلوبل ہسپتال میں اپوئیمنت مل گئی تھی ۔ریسیپشن پر پہنچ کر ساری فارمالیٹی پوری کی، پیسے وغیرہ بھی بھر دیے تو وہاں کے ہسپتال کا ایک اسٹاف ممبر آیا اور ہمیں ساتویں منزل پر لے  گیا ۔ساتواں منزلہ پورا  cardiology ہے ۔اس منزلہ پر ڈاکٹر زین العابدین ہمدولے جو ہارٹ کے بہت بڑے سرجن ہیں ۔ان کے اپنے ٹرسٹ بھی ہیں جہاں غریبوں کا بہت ہی کم داموں میں علاج ہوتا ہے ۔اور ان کے ساتھی ڈاکٹر پروین کلکرنی جو بہت بڑے  cardiologist ہیں ۔اس منزل پر ڈاکٹر زین العابدین حمدولےاور ساتھی ڈاکٹرز ہارٹ کے مریضوں کو دیکھتے ہیں ۔ہارٹ کے بڑے بڑے آپریشن کرتے ہیں اور ہارٹ سے جڑے سارے ٹیسٹ بھی یہی ہوتے ہیں ۔یہ پورا منزلہ   cardiology department  ہے ۔    مجھے بھی ایک وارڈ میں لے جایا گیا ۔ساتھ میں صرف ایک ہی کو اندر جانے کی اجازت دی گئی تو میرے ساتھ میری بیٹی اندر آ گئی ۔پورا ہسپتال centrally Airconditioned ہے  ۔اس آدمی نے میری فائل وارڈ کے ریسیپشن پر دی اور وہ آدمی چلا گیا ۔وہاں جو نرس تھی انھوں نے میری طرف دیکھا اور میرے لئے بیڈ تیار ہونے لگا ۔وہاں کی ہر چیز آٹومیٹک تھی ۔پل بھر میں بیڈ تیار ہو گیا ۔ہر چیز قرینے سے رکھی ہوئی تھی ۔صاف صفائی کا پورا پورا خیال رکھا گیا تھا ۔کیسی بھی طرح سے وہ ہسپتال وارڈ لگ ہی نہیں رہا تھا ۔نرس نے میرے ہاتھ میں لا کر ہسپتال کے کپڑے دیئے اور بدلنے کے لئے کہہ کر چلی گئی ۔ میں نے اپنی بیٹی کی مدد سے کپڑے تبدیل کئے اور بیڈ پر لیٹ گئی ۔ جیسے میں بیڈ پر لیٹ گئی ویسے نرس آئی اور پردے کھینچ لئے اور بیٹی کو باہر جانے کے لئے کہا ۔اب نرس میری رگ ٹٹولنے لگی ۔دو بار IV Catheter لگانے پر بھی میری رگ برابر نہیں ملی تو اس نے دوسری نرس کو آواز دی ۔پھر دوسری نرس نے آکر تیسری جگہ پر IV Catheter لگا دیا ۔ جیسے ہی IV Catheter لگا ویسے ہی میرا خون نکالا گیا تاکہ پورے ٹیسٹ ہو سکے ۔اتنا ہو کر بس لیٹی ہی تھی کہ افواہ آئی کہ ایلپسٹن کا پل گر گیا ۔اس بارے میں کافی دیر چرچا ہوتا رہا ۔ جب اس حادثے کی تحقیقات ہوئی تو اصل وجہ معلوم ہوئی ۔نہ جانے اس حادثے میں کتنے زخمی ہوئے اور کتنے موت کے گھاٹ اتر گئے ۔ اب دوسری بات سامنے آئی ۔آج یہاں پر ہارٹ ٹرانس پلانٹ ہونا تھا ۔ ہارٹ سورت سے آنے والا تھا ۔ اور اس آپریشن کو انجام دینے والے تھے ڈاکٹر زین العابدین حمدولے اور ان کے ساتھی ڈاکٹرز ۔ اس لئے بھی سب بھاگ دوڑ میں لگے ہوئے تھے ۔ کتنے سارے  نیوز والے وہاں آئے ہوئے تھے ۔ اللہ تعالٰی نے ڈاکٹر حمدولے کے ہاتھ میں بڑی شفا دی ہے ۔      آہستہ آہستہ میری سب میل اور فی میل نرس سے باتیں ہونے لگی ۔وہ میرا دل بہلانے کی کوشش کر رہے تھے ۔اور اتنی میٹھی اور پیاری زبان میں بات کر رہے تھے کہ میں اپنی ادھی تکلیف کو تو جیسے بھول ہی گئی ۔ وہ مجھے ہمت دلا رہے تھے ۔کیونکہ مجھے انجیوگرافی سے بہت ڈر لگ رہا تھا ۔جیسے ہی میری خون کی رپورٹس آئی مجھے آپریشن ٹھیٹر میں لے جایا گیا ۔اللہ کا نام لے کر میں اندر داخل ہوئی ۔ اس سے پہلے میں کئی بار آپریشن ٹھیٹر میں بھی گئی ہوں  اور ہسپتال میں ایڈمیٹ بھی ہوئی ہوں پر ایسا اسٹاف میں نے پہلی بار دیکھا ۔مریض سے ہمدردی سے بات کرنا اس کا دل بہلائے رکھنا ۔آپریشن ٹھیٹر اتنا ٹھنڈا ہو رہا تھا کہ مجھے ٹھنڈ لگنے لگی۔  میں آپریشن بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی اور ٹھنڈ کی وجہ سے میرے ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے ۔ڈاکٹر اور نرس کو لگا میں ڈر کی وجہ سے کانپ رہی ہوں ۔وہ سپ مجھے سمجھانے لگے ۔میں نے ان سے کہا کہ میں ڈر نہیں رہی بلکہ مجھے ٹھنڈ لگ رہی ہے تو انہوں نے بیڈ کے پاس گرم ہوا آن کر دی تب جاکر مجھے تھوڑا سکون ملا۔میرے جسم کو ہرے کپڑے سے ڈھانپ دیا گیا نرس اور ڈاکٹر نے مل کر مجھے پوری طرح تیار کردیا ۔ایک ڈاکٹر نے میرے ہاتھ میں کلائی کے پاس انجکشن لگایا تاکہ مجھے درد کا احساس نہ ہو اور پھر ڈاکٹر نے کچھ چھوٹا سا سوراخ کر کے اس میں بڑا سا انجکشن لگا کر اس میں وائر ڈالی ۔اس کے بیچ بیچ میں میل اور فی میل نرس آکر میرے سر پر ہاتھ پھیرتے اور کہتے آپ ڈرنا نہیں اور میری ہمت بڑھا رہے تھے ۔جب پوری طرح سے مجھے ریڈی کر دیا گیا تو ڈاکٹر پروین کلکرنی آئے اور آتے ہی اپنا تعارف دیا پھر میری انجیوگرافی شروع کر دی ۔بہت ہی اچھے ڈاکٹر ہیں ۔انجیوگرافی کے دوران مجھ سے بات کرتے رہے میرے دل سے ڈر نکالنے کے لئے تھوڑا بہت مذاق بھی کر رہے تھے ۔مجھے محسوس ہی نہیں ہوا کہ میں آپریشن ٹھیٹر میں ہوں ۔اس دوران میری انجیوگرافی ہو بھی گئی ۔سب نے کہا مبارک آپ کی رپورٹ نارمل ہے آپ بڑے دل والے ہو اب آپ کو ہمیں شیرخرما پلانا ہوگا ۔میں نے اس پوری ٹیم کا شکریہ ادا کیا اور شیر خرما پلانے کا وعدہ بھی کیا ۔سچ میں یہ گلوبل ہسپتال کا ساتواں منزلہ مجھے ساری زندگی یاد رہے گا اور وہاں کے تمام میل اور فی میل نرس اور ڈاکٹرز کے پیار اور خلوص کو کبھی نہیں بھول سکتی۔ میں ڈاکٹر زین العابدین حمدولے اور ڈاکٹر پروین کلکرنی اور ان کے ساتھی ڈاکٹرز اور پورے اسٹاف کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتی ہوں۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا