’نگار شاتِ تسکین انصاری ‘کی دختر نیک ارجمند شاہدہ با نو کو مبارک با دی

0
0

ایم ۔ یو نس ؔ، کمرہٹی
6289007721
مورخہ ۷؍ جنوری بروز سنیچر ’بزم نثار کو لکاتا ‘ کے زیر اہتمام ، مغربی بنگال کے نا مور معتبر ادیب و شاعر ڈاکٹر ابو بکر جیلا نی ، انجم عظیم آبادی ، حلیم صابر کی مو وجود گی میں ’تانتی با غ ایجو کیشنل سو سائٹی ‘کی لا ئبریری ہا ل میں ’نگار شاتِ تسکین انصاری ‘ کی اجراء ہوئی ۔ ’اخبارِ مشرق‘ کے کالم ’ سر گرمیا ں ‘ میں خبر پڑھ کر مسرّت ہی نہیں بلکہ رو حانی تسکین ہو ئی ۔ ’اخبارِ مشرق ‘میں چھپی رپورٹ سے معلوم ہو تا ہے کہ تسکین صاحب72-70 ؁ء کے وقت میں ان کے افسا نے جریدہ ’ شبِ خون ‘ میں شائع ہو تے تھے ۔ ان کے استاد بھائی انجم عظیم آبادی اور حلیم صابر دونوں ہی صاحبان ان کی تخلیقات کو معیاری ہو نے کا اعتراف بھی کیا ہے ۔ یہ دونوں صاحبا ن آج کے دور میں مغربی بنگال ہی کے اردو ادب میں نہیں بلکہ اندورن ملک اور بیرون ملک تک بحیثیت بزرگ ، کہنہ مشق اور استاد شعراء و ادباء میں شمار کئے جا تے ہیں ۔ یہ بڑے ہی خوشی کے لمحات ہو تے ہیں جب کسی والدین کی نیک صالحہ اولا دیں اپنی وراثتی تہذیب و اخلاق کو تو شئہ آخرت کی طرح پا سداری کر تی ہیں ۔ اس عصری دور میں ما ں باپ معاشرہ میں جیتے جی نا قدری کا شکار بنے ہو ئے ہیں اور جو خاک نشیں ہو گئے پھر تو یادوں کی دانست میں کُجا !؟۔ بعض بعض جگہوں میں والدین جیسے جیسے اپنی عمر کی رسیدگی کو پہنچتے جا تے ہیں ۔ اپنے بچوں کی نا فرمانیوں سے انھیں ہز یمت اور سُبکی اُٹھا نی پڑتی ہے ۔ ماں باپ نہ جا نے کتنی محنتوں اور تکلیفوں سے اپنی اولاد کو تعلیم و تعلم سے آراستہ کر تے ہیں ۔ جب وہ اعلیٰ تعلیم سے فا رغ ہو کر اونچے عہدوں پر فا ئز ہو جا تے ہیں تو ان کے پاس والدین کی دلجوئی کے لئے وقت نہیں ملتا ہے ۔ یہ کمیاں آج کی نئی نسل کے استخوان میں نا سور بنتا جا رہا ہے ۔ یہ معاشرہ کا ایک بہت بڑا المیہ ہے !؟۔ ایک واقعہ کسی رسائل میں زیرِ مطالعہ آیا ’’ کسی نے ایک ضعیف العمر گو رکن سے جس نے زندگی کے ہزاروں نشیب وفراز دیکھے تھے پو چھا ’ حضرت! آپ اس پیشے میں کا فی تجر بہ رکھتے ہیں ‘۔ آپ کو کبھی کسی میّت کو دفن کر تے ہو ئے صدمہ ہوا تھا !؟، وہ ضعیف العمر گورکن نے ایک لمحہ کے لئے اس سوال کر نے والے نوجوان کو دیکھا اور پھر آب دیدہ ہو کر کہا ’’ہاں ! ایک میّت کو دفن کر تے ہو ئے میں درد سے بلبلا اُٹھا تھا ، ایسا لگا میری روح کسی نوکیلے کا نٹوں کے بے تر تیب قطاروں میں پھنس گئی ہو ، وہ میّت لا نے والا تمہاری طرح خوبرو پٹھّا تھا ، وہ اپنے باپ کا جنا زہ لے کر آیا تھا ۔ اس کے کارندے جنازہ لے کر قبر ستان کے گیٹ پر اترے ،وہ پٹّھا بہت جلدی میں تھا ، اس نے نو ٹوں کی ایک موٹی گدّ ی میرے ہا تھوں پر رکھتے ہو ئے کہا ’یہ میرے باپ کا جنازہ ہے ، اسے اچھی طرح سے غُسل دیکر دفن کر دینا ‘ ،اس کے بعد وہ کچھ اور کہنے والا تھا کہ ایک کار قبر ستان سے کئی گز کی دوری پر کھڑی تھی ، ایک لیڈی نے کار کم اندر سے چلّا کر کہا ’جا نو! جلدی کرو، ورنہ فلائیٹ میس ہو جا ئے گی ‘ ۔وہ پّٹھا اپنی بات ادھوری چھوڑ کر کار کی طرف دوڑا بھاگا ،چند لمحوں میں کا ر میری آنکھوںکے سامنے سے اُوجھل ہو گئی ،میں جب اس جنازہ کو دفن کر رہا تھا ، میری آنکھوں سے آنسو تھمتے نہ تھے ، ہر لمحہ آنسوئوں کے قطرے اس جنازے کے کفن پر گر تے جا رہے تھے جب تک کہ میںنے اسے منوں مٹی میں مد فن نہ کر دیا ‘ ‘۔اس کہا نی کے پس منظر میں شاہدہ با نو تو اپنے والدین کے لئے با قیات الصا لحا ت ہیں۔ وہ خود کہتی ہیں ’’ بچپن ہی سے والد صاحب کو دیکھتی تھی ، وہ لکھتے تو تھے لیکن چھپوا تے نہیں تھے ، والدہ کہتیں تو کہتے میرے احباب میر ی چیزیں چھاپ دیں گے ، میں نے ا ُن ہی دنوں یہ سوچ لیا تھا کہ اپنے والد کی چیزیں میں چھپا لوں گی ، وہ خالی لفا فے پر ، کا غذ کے پرزے پر ، ڈائری پر اور اسی طرح کی مختلف چیزوں پر لکھ کر بھول جا یا کر تے تھے ‘‘ ۔ محترمہ نے اپنے والد کے خواب کی تعبیر کو عملی جا مہ پہنا نے کے لئے ادب کے ان مہہ پاروں کو ایک نا یا ب ہیرا مو تی سمجھ کر اپنے پاک دامن میں سمٹا اور بڑی تگ و دو کیں ۔ شاہد اقبال صاحب جیسے مخلص اور بُر د بار جیسی شخصیت کا مل جا نا بھی محترمہ کی نیک نیتوں پر ثبت کر تا ہے ۔ ارشاد ِ نبوی ﷺ ہے ۔ ’’ اعمال کا دار و مدار نیت پر ہے ‘‘ نیک صا لح دختر ، نیک عمل کے لئے نکل پڑی تھی ۔ اللہ تعالیٰ کی بر کتیں اس میں شامل ہو گئیں ۔ ردّی کے کا غذ کے ٹکڑوں پر پڑے ہو ئے یہ نگار شات ایک بیٹی کی محنت و جا نفشا نی سے منصئہ شہود پرآگیا ۔ ایک تخلیق کار کی پہلی خواہش یہی ہو تی ہے کہ اس کی نثری یا شعری تخلیقات کسی اخبار ، رسائل یا ادبی جریدے کی زینت بنے ۔ جب فنکاری و علمیت کی شہرت طشت از بام ہو جا تی ہے تو وہ چاہتا ہے کہ اپنے ان مہہ پاروں کو ایک کتابی شکل دے تاکہ آنے والے نو وار دوں کے لئے اس کی کا وش علمی شعور میں کوئی نئی راہ متعیّن کرے ۔ اس دنیا میں ایسے ادبا ء و شعراء بھی گزرے ہیں جن کے نثر و نظم دونوں ہی ادب شنا سوں کے یہاں ایک خاص مقام رکھتے تھے ۔ مگر ان کی تخلیقات منصئہ شہود پر نہ آنے کی وجہ سے وہ شعراء و ادباء غیر معروف ہو کر رہ گئے ۔ میں محترمہ کو ان کی کا وش پر مبارک باد دیتا ہو ں ۔ تسکین صاحب ایک معیاری ادیبوں میں سے تھے ۔ اس لئے ان کی یہ کتاب بھی نئی نسل کے ادیبوں کے لئے ایک معیاری ضخا مت کا حصہ بنے گی آمین !

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا