مولاناابوبکرحنفی شیخوپوری
نکاح انسان کی دینی سماجی،اخلاقی اور معاشرتی ضرورت ہے، نکاح محض ایک رسم نہیں بلکہ اسلامی نقطہ نگاہ سے اسے عبادت کا درجہ حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ اسے مسجد کے نورانی اورپاکیزہ ماحول میں منعقد کرنے کی تلقین کی گئی ہے ۔چنانچہ صحیح بخاری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :یہ نکاح اعلانیہ طورپر کرو اور مسجد میں اس کا اہتمام کرو۔خودنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے افضل المساجد یعنی مسجد حرام میں حرم کعبہ کے سائے اور لبیک اللھم لبیک کی روح پرور صدا ؤں میں حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے رشتہ ازدواج منسلک کیاتھا۔نیزاس پرمسرت موقع پر خطبہ مسنونہ کے ذریعے خدااور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حمد وثناء اور قول سدید اور تقوی ورع کی نصیحت نکاح کے مذہبی تشخص کو اجاگر کرتی اوراس کے عبودیت کے پہلو کوعیاں کرتی ہے۔اس کے بر عکس کفار کے ہاں نکاح محض نفس رانی اورخواہش پرستی کا نام ہے اس لئے وہ بازاروں ،سینما گھروں،رقص وسرور کی محفلوں اورمعصیت کے متعفن زدہ ماحول میں اس کی تقریب کاانتظام کرتے ہیں ۔
نکاح کی اہمیت
اللہ رب العزت نے انسان کو رشتوں کی جس خوبصورت لڑی میں پرویا ہے ان میں سب سے اہم رشتہ عقد نکاح کے ذریعہ زوجین میں طے پانے والی نسبت ہے،یہی وہ ناطہ ہے جوابتدائے آفرینش میں سب سے پہلے وجود میں آنے والا اور فنائے عالم کے بعد بہشت بریں میں سدا قائم رہنے والاہے۔اللہ رب العزت نے قرآن کریم میںاس رشتے کونسبی رشتے کے ساتھ مقام نعمت میں ذکر فرمایا ہے،چنانچہ سورۃ الفرقان میں ارشاد باری تعالی ہے : اوروہ (اللہ) ایسی ذات ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا اوراس کو خاندان والا اور سسرال والا بنایا۔نکاح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مرغوب چیزوں میں سے ہے،ایک طویل حدیث میں ارشاد نبوی ہے:تمہاری دنیا کی چیزوں میں سے مجھے تین چیزیں محبوب ہیں،خوشبو اور عورتیں اور میری آنکھوں کی ٹھندک نماز میں ہے،اپنی اس پسندیدہ چیز کو عملا اختیار کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گیارہ عورتوں سے شادی فرمائی جس سے نکاح کی اہمیت واضح کرنے کے ساتھ ساتھ امت کوازدواجی زندگی کے زریں اصول بھی فراہم کئے۔پھر صرف اپنی ذات کی حد تک نہیں بلکہ اسے اپنے سے پیشتر تمام انبیاء کی مشترکہ سنت قراردیا ،ترمذی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :چار چیزیں انبیاء کی(متفقہ) سنتیں ہیں ،حیاء اورخوشبو اورمسواک اور نکاح۔
اسلام اور رہبانیت
مذہب عیسائیت میں رہبانیت کا تصورپایا جاتاہے جو خدائی پابندی کے بغیران کااپنا ایجادکردہ نظریہ ہے ۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عیسائی نکاح کو عبادت میں مخل سمجھتے ہیں،اس لئے ان کا ایک بڑاطبقہ نکاح کے عمل سے کنارہ کش ہوکرجنگلوں ،غاروں اورخلوت گاہوں کارخ کرلیتا ہے اور تمام زندگی وہیں گزار دیتا ہے ،جبکہ اسلام جیسے عالمگیر اورآفاقی مذہب میں رہبانیت کی کوئی گنجائش نہیں ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح ارشاد ہے :اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔بلکہ شرعی نقطہ نظرسے تونکاح عبادت میں معین و مددگارثابت ہوتا ہے کیونکہ حدیث کی روشنی میںنکاح انسان کی فرج اورقلب ونظرکامحافظ ہے اورجس قدردل اور نگاہ پاک ہوں گے اسی قدرحق تعالی کی معرفت کاعکس اس میں شفاف ہو گا،پھرجتنی زیادہ معرفت حاصل ہوگی اتنا عبادت کی طرف میلان اوررجحان زیادہ ہوگا۔ صحیحین میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے منقول ایک واقعہ ہے کہ تین آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لئے آئے،جب انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کثرت عبادت کے بارے میںسناتواپنی عبادت کو کم خیال کرنے لگے ۔ان میں سے ایک نے کہامیں تمام عمرشب بیداررہوں گا،دوسرے نے کہامیں ساری زندگی روزے رکھوں گا اور کبھی افطار نہیں کروں گا ،تیسرے نے کہامیں عورتوں سے جدا رہوں گا اورکبھی شادی نہیں کروں گا۔اس دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اوران سے فرمایا:اللہ کی قسم ! میں تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور اس کاتقوی اختیارکرنے والا ہوںلیکن میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں،نماز بھی پڑھتا ہوں اورآرام بھی کرتا ہوںاورعورتوں سے شادی بھی کرتا ہوں ۔لہذا جس نے میری سنت سے بے رغبتی کی اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔اس سے منشاء نبوت یہ تھاکہ انسان ان بشری تقاضوں کو پوراکرنے کے ساتھ بھی عبادت کا فریضہ بخوبی اور بکثرت سرانجام دے سکتا ہے،اس کے لئے طبعی حوائج کے ترک کی ضرورت نہیں۔
رشتہ نکاح کی نزاکت
اپنی مسلمہ افادیت کے ساتھ ساتھ یہ اہم رشتہ نزاکت اورلطافت میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتا۔سنجیدگی،مذاق، غصے،پیار،اجبار اور اختیار میں ایک لفظ قبول سے یہ قائم ہوجاتا ہے اور ان تمام صورتوں میںایک لفظ طلاق یااس کے ہم معنی کنائی لفظ سے برسہا برس پر محیط تعلق پاش پاش ہوجاتا ہے۔ایک لحظے میں اپنائیت سے اجنبیت اور اجنبیت سے اپنائیت کاطویل سفر طے کرنے میںاس کا کوئی بدل نہیں۔لہذاکسی لمحہ بھی اس کے نزاکتی پہلو کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے ورنہ آتش غضب میںمشتعل ہوکر کیا گیاکوئی بھی جذباتی فیصلہ ہنستے بستے گھرکوویران کرکے اپنی اور اپنے اہل وعیال کی زندگی کو حسرت وندامت کے اس تاریک غار میں دھکیل سکتا ہے جہاں سے واپسی کا سفر ناممکن ہوجاتا ہے۔قرآنی فیصلے کے مطابق اس رشتے کے قیام اور انہدام کی ڈوری مرد کے ہاتھ میںپکڑائی گئی ہے،اس اختیار کاناجائز اوربے موقع استعمال کرکے اپنی عزت تک قربان کر دینے والی اور خاوند کی دلجوئی کے لئے ہر جتن کردینے والی رفیقہ حیات کے ساتھ یہ نازیبا سلوک شرعا اور عقلا کسی طرح بھی درست نہیں ،چنانچہ سنن ابی داؤد میں ارشادِ نبوی ہے:اللہ تعالی کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ مبغوض چیز طلاق ہے۔
نکاح میں سادگی
نکاح چونکہ ہر امیرو غریب اورمردوزن کی یکساں بشری ضرورت ہے،اس لئے شریعت اسلامیہ نے اس کو سادگی کے ساتھ منعقد کرنے اورخوامخواہ کے تکلفات سے دور رکھنے کی ہدایت کی ہے۔شعب الایمان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے:سب سے زیادہ بابرکت نکاح وہ ہے جس میں کم تکلف ہو۔بدقسمتی سے سادگی اور بے تکلفی کی اس اہم دینی ہدایت کو ہمارے مسلم معاشرے میں یکسر نظرانداز کرکے اس طبعی اورفطری عمل کومشکل سے مشکل تر بنادیا گیا ہے۔متحدہ ہندوستان میں دس صدیوں پر محیط اسلامی سلطنت میں چونکہ ہندو بھی بطوراقلیت کے مسلمانوں کے ساتھ رہے،پھراسلامی حکومت کے زوال کے بعدسلطنت برطانیہ میں بھی دونوں قومیں ایک ساتھ رہیں ،اس لئے ہندوؤں کی بہت سی رسومات اورخرافات مسلم سماج کاحصہ بن گئیں جو تقسیم ہند کے تہتر سال بعد بھی بدستور رائج ہیں جن پر عمل کرنا فرض اور واجب عمل کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔اس موقع پر رسم حنائ،نیوتہ،جہیز اوربیسیوں قسم کی غیرعقلی اور غیرشرعی رسومات ادا کی جاتی ہیں جن کے بغیر نکاح کی تقریب کونامکمل متصور کیا جاتا ہے،وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں اضافہ ہورہا ہے ۔ان رسومات کا نقصان یہ ہے کہ ان کی ادائیگی کے لئے مطلوب رقم نہ ہونے کی وجہ سے قوم کی لاکھوں بچیاں نکاح کی عمرسے متجاوزہوجاتی ہیں اورشوہر کی صورت میں ایک محفوظ سائبان سے محروم رہ جاتی ہیں،ان کے بے بس والدین کی راتیں زندگی میں بیٹیوں کواپنے ہاتھوں سے رخصت کرنے کاخواب سراب بنتے دیکھ کر دکھ اورکرب میں گزرتی ہیں ،مستعاررقم سے ان رسومات کی ادائیگی کر کے بیٹیاں بیاہ دیں توتمام عمرقرض کے منڈلاتے سائے ان کی زندگی اجیرن کیے رکھتے ہیں ۔اس تشویشناک صورتحال میںان رسومات کے انسداد اور سد باب کے لئے معاشرے کے بااثر اور سرکردہ افراد کومؤثر آواز بلند کرنی چاہئے اور انسانی حقوق کی قومی اور بین الاقوامی تنظیموں اورارباب حل وعقد کوسنجیدگی سے قانونی جدوجہد کرنی چاہئے۔
رفیقہ حیات کا انتخاب
نکاح کے سلسلہ کی اہم ترین کڑی شریک حیات کی تلاش ہے۔اس حوالے سے شریعت کی تعلیم یہ کہ عورت کے حسب ونسب،مال وزراورحسن وجمال سے زیادہ اس کی دینداری کے پہلوکودیکھاجائے۔صحیح بخاری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان منقول ہے: چارخصلتوں کی وجہ سے عورت سے نکاح کیا جاتا ہے،اس کے مال کی وجہ سے اور اس کے حسب کی وجہ سے اوراس کے جمال کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے،لہذا تودین والی کو اختیارکر(پھربطورتکیہ کلام کے فرمایا)تیرے ہاتھ خاک آلود ہو جائیں۔اس میں حکمت یہ ہے کہ ماں کی گوداولاد کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے،جب عورت نیک ہوگی تواس کی پارسائی اولاد کی تربیت پراثرانداز ہوگی پھریہ اولادنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی روشنی میں صدقہ جاریہ بن کروالدین کے لئے نجات کاسبب ہوگی۔ اس سلسلہ میں ایک دلچسپ حکایت اہل علم میں مشہور ہے۔معروف حنفی فقیہ شیخ محمد بن احمدسمرقندیؒ کی صاحبزادی کانام فاطمہ تھاجوعلم و فضل میں اپنے والد کے ہم پلہ تھیں ،موصوفہ کی علمی شہرت کی وجہ سے روم اورعرب کے بہت سے مسلم سلاطین وحکام کی جانب سے انہیں نکاح کی پیشکش کی گئی،لیکن فاطمہ کی ایک ہی شرط تھی کہ میں اس شخص سے نکاح کروں گی جو میرے والدقابل قدر کی کتاب’’تحفۃ الفقہائ‘‘کی شرح لکھے گا۔شیخ محمدبن احمد سمرقندیؓ کے مایہ ناز شاگردعلاء الدین کاسانی ؓنے’’بدائع الصنائع‘‘ کے نام سے اس کتاب کی شرح تحریر کی ۔والد نے اپنی بیٹی کی شرط کے مطابق اپنے اسی شاگرد کے ساتھ باوجود ان کے مفلس اورغریب ہونے کے نکاح کر کے رخصت کر دیا۔بعد میں اللہ نے انہیں مالی وسعت بھی عطاء فرمائی اور ایسا علمی فضل وکمال عطاء فرمایا کہ ان میاں بیوی کی تصدیق کے بغیر سمرقند میں کوئی فتوی معتبر نہیں مانا جاتا تھا۔