محمد تحسین رضا نوری
پیلی بھیت یوپی
زندگی صرف کھانے کمانے اور رہنے سہنے کا نام نہیں، بلکہ زندگی اللہ تبارک وتعالیٰ کی امانت ہے اور ایک ایسا سرمایہ ہے جس کا صحیح استعمال انسان کی زندگی کو خوبصورت بنا کر اْس کو دنیا و آخرت میں سرخروئی عطا کرتا ہے، بہتوں نے اس زندگی کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے رب تبارک وتعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کے مطابق اس کا استعمال کیا تو آج بھی دنیا اْن کے کارناموں اور کامیابیوں پر رشک کرتی نظر آتی ہے، اور دوسری طرف بہتوں نے اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزاری اور چلے گئے اْن کا آج کوئی نام و نشان باقی نہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے زندگی کا یہ عظیم تحفہ ہمیں عطا کیا ہے اور ہماری زیست کا مقصد بھی ظاہر فرمایا، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’وما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون‘‘ (القران) اور میں نے جن و انس کو صرف اپنی عبادت کے لیے ہی پیدا فرمایا۔ معلوم ہوا کہ انسانوں اور جنوں کو بیکار پیدا نہیں کیا گیا کہ وہ اپنی زندگی صرف یوں ہی گزار دیں بلکہ ان کی پیدائش کا اصل مقصد یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں اور اْس کی اطاعت و فرمانبرداری میں اپنی زندگی گزاریں، لیکن آج بہت سے لوگ فضول اپنا وقت گزارتے ہوئے نظر آتے ہیں، خالی رہ کے بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت و بندگی سے دور ہیں، یاد رکھیے جس رب نے ہمیں یہ زندگی عطا کی ہے وہ اس زندگی کے ایک ایک منٹ ایک ایک لمحہ کا حساب لے گا، جیسا کہ سورہ مومنون کی آیت نمبر ۵۱ میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’تو کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں بیکار بنایا اور تم ہماری طرف لوٹائے نہیں جاوگے؟‘‘ زندگی دینے والے (یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ) نے زندگی گزارنے کا طریقہ بتانے کے لیے اپنے سب سے آخری نبی و محسن کائنات اور معلم انسانیت بنا کر ہمارے درمیان مبعوث فرمایا اور ارشاد فرمایا ترجمہ: بیشک تمہارے لیے رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے، دوسرے مقام پر رب ذو الجلال ارشاد فرماتا ہے: ترجمہ: اے حبیب!فرما دو کہ اے لوگو! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبردار بن جاؤ اللہ تم سے محبت فرمائے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ معلوم ہوا کہ حقیقی طور پر کامیاب زندگی وہی ہے جو حضور علیہ الصلوٰ والسلام کے نقش قدم پر ہو، اگر ہمارا جینا مرنا، سونا جاگنا پیارے مدنی آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر ہو جائے تو یقیناً ہمارے سارے کام عبادت بن جائیں گے۔ حضور علیہ الصلوٰ والسلام کی مبارک زندگی ہمارے لیے مشعل راہ ہے، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک ایک سنت پر عمل کرنے سے دینی اور دنیوی بے شمار فوائد ہیں، اور یقیناً حضور کی سنتوں پر عمل کرنے میں ہی کامیابی و کامرانی ہے، معرفت الٰہی کا خزانہ ہے، قرب الٰہی اور قرب رسول کا ذریعہ ہے، محبت مصطفیٰ کی نشانی ہے، عاشقوں کے دلوں کا چین ہے، پریشان حالوں کے دکھ کا درماں ہے، اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا و خوشنودی کا باعث ہے، خود حضور علیہ الصلوٰ والسلام نے عاشقان رسول کے دلوں میں اپنی سنتوں پر عمل کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا: ’’جس نے میری سنت سے محبت کی اْس نے مجھ سے محبت کی، اور جس نے مجھ سے محبت کی وجہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا‘‘۔ (ترمذی شریف) یہی وجہ تھی کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی زندگی کا ہر ہر پہلو سنت رسول اکرم کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا، اْن کی خلوتوں کا سوز و گداز اور اْن کی جلوتوں کا خروش عمل اور اْن کے شب و روز کے حرکات و سکنات سب فرمان مصطفیٰ کے مطابق تھے۔محترم قارئین! آج ہماری قوم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سنتوں سے کوسوں دور ہے، آج چار لوگوں کے سامنے زمین پر بیٹھ کر پانی پیتے ہوئے ہمیں شرم آتی ہے، اس ڈر سے کہ ’’لوگ کیا کہیں گے‘‘ ہم سر عام حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سنت کا جنازہ نکال دیتے ہیں، اور ننگے سر کھڑے کھڑے الٹے ہاتھ سے ہی کھانا پینا شروع کر دیتے ہیں۔ کیا ہمارا اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا، کھانا پینا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سنتوں کے مطابق ہے ؟؟ ہرگز نہیں، ہم نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیاری پیاری سنتوں کو ٹھکرا کر غیروں کے کلچر کو اپنا لیا، فلمی اداکاروں کے طور طریقہ تو ہمیں بہت اچھے لگتے ہیں، لیکن حضور کی سنت پر عمل کرتے ہوئے ہمیں شرم آتی ہے، ہم دیکھنے سے بھی مسلمان نظر نہیں آتے، کیونکہ ہم نے کوئی ایسی چیز ہی نہیں اپنائی جو ہمیں غیروں سے ممتاز کر دے، نہ ہمارا لباس اسلامی ہے، نہ ہمارے سر پر ٹوپی، چہرے پر داڑھی غرض کہ کوئی بھی ایسی علامت موجود نہیں ہے جس سے ہم مسلمان لگیں، علامہ اقبال نے کہا تھا:
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں! جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو!
سنت رسول کے فضائل:
حدیث شریف میں ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت بلال بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا: کہ جان لو، جس نے میری کسی ایسی سنت کو زندہ کیا جو کہ میرے بعد مٹ چکی تھی، اْس کے لیے اتنا ہی ثواب ہے جتنا اْس پر عمل کرنے والوں کے لیے ہے، بغیر اس کے کہ اْن کے ثواب میں کوئی کمی ہو، (ترمذی شریف) حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم نے ارشاد فرمایا: اے بیٹے! اگر ہو سکے تو اپنی صبح و شام اس حال میں گزار کہ تیرے دل میں کسی کے بارے میں کوئی کھوٹ نہ ہو، پھر فرمایا: اے بیٹے! یہ میری سنت ہے جس نے میری سنت کو زندہ کیا گویا اْس نے مجھے زندہ کیا، اور جس نے مجھے زندہ کیا وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔ (ایضاً) ایک اور مقام پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے میری سنت سے محبت کی اْس نے مجھ سے محبت کی، اور جس نے مجھ سے محبت کی وجہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا‘‘۔ (ایضاً)
چند سنتوں کے طبی فوائد:
(۱) مسواک: حدیث شریف ہے، حضور علیہ الصلوٰ والسلام نے ارشاد فرمایا: مسواک ضرور کیا کرو، کیوں کہ مسواک منھ کو صاف کرتی ہے، اور خدا کو خوش کرنے والی ہے (سنن ابن ماجہ) حضرت مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم مسواک کے فوائد ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: ’’مسواک قوت حافظہ کو بڑھاتی ہے، مسواک سے درد سر دور ہوتا ہے سر کی رگوں کو سکون ملتا ہے، اس سے بلغم دور ہوتا ہے، نظر تیز ہوتی ہے، معدہ دْرست اور کھانا ہضم ہوتا ہے، عقل بڑھتی ہے، بچوں کی پیدائش میں اضافہ ہوتا ہے، بڑھاپا دیر میں آتا ہے، پیٹھ مضبوط ہوتی ہے، (حاشی الطحطاوی) مزید طبی ماہرین کی رپورٹ کے مطابق مسواک نہ صرف تپ دق کے علاج کے لیے کارگر ہے بلکہ منھ کے انفیکشن، حلق اور سانس اور غذائی نالی کو بھی وائرس سے محفوظ رکھتی ہے، علاوہ ازیں اس کے فوائد کی کثرت دیکھ کر مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم معاشروں میں بھی اس کا استعمال تیزی سے بڑھنے لگا ہے، اہل عرب اور بر صغیر کے باشندوں کے بعد دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اور افریقہ بھر میں مسواک کثرت سے استعمال کی جا رہی ہے۔ کیوں کہ یہ مسواک بے شمار جدید امراض سے بچاتی ہے۔
(۲) کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا:
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’کھانے سے پہلے اور بعد وضو (یعنی ہاتھ دھونا) کرنا، کھانے کی برکت ہے، (شمائل ترمذی) ہم پورا دن طرح طرح کی چیزوں کو ہاتھ لگاتے ہیں، جس میں بعض اشیائ گندی بھی ہوتی ہیں، جس کے جراثیم ہمارے ہاتھ کے ناخنوں میں اور ہاتھوں میں رہ جاتے ہیں، اگر بغیر ہاتھ دھوئے کھانا کھا لیا تو وہ جراثیم ہمارے پیٹ میں چلے جاتے ہیں، جس سے مختلف قسم کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں،
(۳) سیدھے ہاتھ سے کھانا کھانا:
سائنسی تحقیق کے مطابق سیدھے ہاتھ سے کھانا کھاتے وقت غیر مرئی شعائیں نکلتی ہیں الٹے ہاتھ سے بھی نکلتی ہیں لیکن سیدھے ہاتھ کی شعائیں فائدے مند اور الٹے ہاتھ کی شعائیں نقصان دہ ہوتی ہیں، اسی وجہ سے سیدھے ہاتھ سے کھانے میں شفا ہے اور الٹے ہاتھ سے کھانے میں بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔
(۴) بیٹھ کر کھانا:
ماہر ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ کھڑے ہو کر کھانا کھانے سے بچنا نہایت ضروری ہے، کیوں کہ کھڑے ہو کر کھانا کھانے سے انسان دل، تلی کے مرض اور نفسیاتی امراض میں مبتلا ہو جاتا ہے، دونوں پاؤں کھڑے کر کے انکڑوں بیٹھ کے کھانا کھانے سے بقدر ضرورت ہی کھانا پیٹ میں جاتا ہے، اور جتنا کم کھانا آدمی کھاتا ہے اتنا کی بیماریوں سے دور رہتا ہے،
(۴) بیٹھ کر پانی پینا:
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کھڑے کھڑے پانی پینے سے منع فرمایا (ابن ماجہ) ماہرین کا کہنا ہے کہ کھڑے ہو کر پانی پینے کے بہت سے نقصانات ہیں، پانی زیادہ دیر معدے میں نہیں ٹھہرتا تاکہ جگر سے اعضاء تک اْس کا حصہ پہنچ سکے، اور پانی تیزی سے معدے کی طرف سے آتا ہے جس سے خطرہ رہتا ہے کہ اس کی حرارت سرد پڑ جائے اور نقصان کر دے، کھڑے ہو کر پانی پینے سے پاؤں پر ورم کا خطرہ رہتا ہے،
(۵) سفید لباس:
ماہرین نے سفید لباس کو کینسر سے بچاؤ کا ذریعہ قرار دیا ہے، یہاں تک کہ ماہرین کی تحقیق کے مطابق جو شخص سفید لباس پہنتا ہے اْسے جلدی گلنڈیز کا ورم، پسینہ میں مسامات کا بند ہونا، پھپوند کے امراض جیسی خطرناک بیماریاں نہیں ہوتیں، ماہرین نے ہائی بلڈ پریشر اور جلدی الرجی کے مریضوں ہمیشہ سفید لباس پہننے کا مشورہ دیا ہے، کیوں کہ کروموپیتھی کے اصول کے مطابق سفید لباس دماغ اور جلد کا محافظ ہے،
(۶) عمامہ باندھنا:
جدید سائنسی تحقیق کے مطابق درد سر کے کے لیے عمامہ بہت مفید ہے، عمامہ کا شملہ نچلے دھڑ کے فالج سے بچاتا ہے، کیونکہ عمامہ کا شملہ حرام مغز کو سردی، گرمی، اور موسمی تغیرات سے محفوظ رکھتا ہے، مزید عمامہ کا شملہ ریڑھ کی ہڈی کو ورم سے بچاتا ہے، عمامہ دماغی تقویت اور یادداشت کو بڑھاتا ہے، عمامہ باندھنے سے انسان دائمی نزلہ سے محفوظ رہتا ہے، ایک ماہر روسی نے لکھا کہ: پگڑی اور اوڑھنی یا ٹوپی کے بغیر ننگے سر چلنا بالوں کے لیے نقصان دہ ہے، ننگے سر بالوں پر براہ راست دھوپ کی گرمی اور سردی کے اثرات کی وجہ سے بال متاثر ہوتے ہیں۔
(۷) داڑھی رکھنا:
حدیث شریف ہے، حضور علیہ الصلوٰ والسلام نے ارشاد فرمایا: ’’مونچھیں کترو اور داڑھیاں بڑھاؤ، اور یہود و نصاریٰ کے خلاف کرو (بیہقی) داڑھی شریف تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت ہے، اور مومن مسلمان کا زیور ہے، ایک مشت داڑھی رکھنا واجب ہے، اْس سے کم رکھنا یا منڈانا حرام ہے، داڑھی منڈانے اخروی سعادت سے محرومی تو ہے ہی مزید دنیوی بے شمار نقصانات ہیں، شیو کرنے سے جلد کو بہت نقصان پہنچتا ہے، بار بار استرا پھیرنے سے جلد مجروح ہو جاتی ہے، جس سے جراثیم کو اندر داخل ہونے کا راستہ مل جاتا ہے اور داڑھی منڈانے والا طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے، اس کے علاوہ بے شمار طبی فوائد بھی ہیں: داڑھی چہرے پر پڑنے والی تابکار شعاعوں کو روک لیتی ہے جس کے باعث جلد کو کینسر سے بچاتی ہے، داڑھی جلد کو الرجی سے حفاظت فراہم کرتی ہے، سانس لینے میں اسانی پیدا کرتی ہے، اور جلد کو خشکی سے بچاتی ہے، اس کے علاوہ بے شمار طبی فوائد موجود ہیں۔
محترم قارئین! یہ ہیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی چند چھوٹی چھوٹی سنتوں کے عظیم فوائد، ان کے علاوہ ہزاروں حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سنتیں ہیں جو اسی طرح اپنے دامن میں کثرت سے دنیوی اور اخروی فوائد سمیٹے ہوئے ہیں، ہم اور آپ کو چاہیے کہ اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے غرض کہ ہر ہر فعل میں حضور علیہ الصلوٰ? والسلام کی سنتوں پر عمل کریں، صبح اٹھنے سے لے کر شام کو سونے تک اپنا ہر کام حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سنتوں کے مطابق ہی کریں، اپنے کردار کو مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں، صرف زبان سے غلام مصطفیٰ کہ لینا کافی نہیں، اپنی ذات کو بھی ایسا بنائیں کہ آپ کے کردار سے مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کردار ظاہر ہو، ربِّ کریم ہم سب کو حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی ہر سنت پر سختی سے عمل کرنے اور دوسروں کو سکھانے کی توفیق عطا فرمائے آمین یارب العالمین سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم