ڈاکٹر غضنفر اقبال
بچو! تم نے مولانا محمد علی جوہر کا نام ضرور سنا ہوگا۔ جنھوںنے بھارت میں تحریکِ خلافت کی بنیاد رکھی تھی۔ تحریکِ خلافت بھارت کی سب سے پہلی سب سے بڑی تحریک تھی۔ مہاتما گاندھی اور دیگر قومی لیڈروں نے اس تحریک کی پُر زور حمایت کرنی شروع کی تو یہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں رہ گیا بلکہ تحریکِ خلافت جدو جہدِ آزادی کی علامت بن گئی۔ مولانا محمد علی جوہر کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انھوں نے تحریکِ خلافت سے انگریزوں کے Divide and Rule کی پالیسی کو ناکارہ بنا دیا تھا۔ بھارت کے گوشے گوشے میں تحریکِ خلافت نے ایسے چراغ 1919تا 1922 تک روشن کیے، جس سے ہندومسلم ایک ہوگئے تھے۔ اُس زمانے کے مشہور شاعر نور احمد نور کی نظم کا ایک شعر نعرہ کی شکل اختیار کر گیا تھا:
بولیں اماں محمد علی کی
جان بیٹا خلافت پہ دے دو
مولانا محمد علی جوہر 10/ دسمبر1878 کو رام پور میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد کا نام عبدالعلی خاں تھا۔ وہ نواب یوسف علی خاں ناظم والیِ ریاست رام پور کے دربار سے وابستہ تھے۔ ان کی والدہ کا نام آبادی بانو بیگم تھا، جو تحریکِ خلافت اوراُس کے بعد بھارت کی تاریخ میں ’’بی اماں‘‘ کے نام سے یاد کی گئیں۔ مولانا محمد علی جوہر کے چار بھائی، ذوالفقار علی، شوکت علی، نوازش علی، بندہ علی اور ایک بہن محمدی بیگم تھیں۔ والد نے مولانا کی عمر دوبرس تھی انتقال کیا۔ اوردو بھائی نوازش علی اور بندہ علی نے کم سنی میں وفات پائی۔ مولانا شوکت علی اور مولانا محمد علی جوہر دو دوست اور دو بھائی تھے۔ پوری دنیا میں دونوں ’’علی برادران‘‘ سے مشہور ہوئے۔ رام پور میں رہ کر انھوںنے اُردو فارسی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی اور پھر وہ بریلی میں جہاں اُن کے بڑے بھائی مولانا شوکت علی پڑھ رہے تھے داخل کردیے گئے۔ بارہ برس کی عمر میں آگے پڑھنے کے لیے علی گڈھ گئے۔ 1898 میں بی اے کامیاب کیا اور کامیاب طلبہ میں اول رہے۔ ان کی شاندار کامیابی سے خوش ہوکر اُن کے بڑے بھائی شوکت علی نے انھیں انڈین سول سروس کے امتحان میں شریک ہونے کے لیے انگلینڈ بھیج دیا۔ امتحان میں وہ ناکام ہوئے۔ وہاں سے واپس ہوکر رام پور کے محکمۂ تعلیم میں ملازم ہوئے۔ رخصت لے کروہ دوبارہ انگلینڈ گئے اور آکسفورڈ سے بی اے آنرز کی ڈگری لی۔
مولانا محمد علی جوہر نے دنیائے صحافت میں ناقابل فراموش نقوش چھوڑے ہیں ۔ان کی صحافتی زندگی کا آغاز مشہور انگریزی روزنامہ ٹائمز آف انڈیا سے ہوا تھا۔ اس اخبار میں مولانا محمد علی کے مضامین شائع ہوتے تھے۔ اس اخبار میں کسی بھارت کے قلم کار کو اس وقت تک جگہ نہیں مل سکتی تھی جب تک وہ انگریزی انشا پردازی جانتا نہ ہو۔ مولانا محمد علی کو انگریزی پر بے پناہ قدرت حاصل تھی۔ انھوںنے انگریزی ہفتہ وار ’’کامریڈ‘‘ (The Comrade) جاری کیا۔ بھارت کے عوام کا مریڈ کا بے چینی سے انتظار کرتے تھے۔ وائسرائے بھی کامریڈ لغت رکھ کر پڑھتا تھا۔ کامریڈ کو پڑھنا وقت کے فیشن میں داخل ہوگیا تھا۔ کامریڈ کے بعد مولانا محمد علی جوہر نے اُردو میں ’’ہمدرد‘‘ کی اشاعت کی تھی۔ انھوں نے صحافتی زندگی ایک مشن کے طورپر اختیار کی تھی۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ جب ان کی والدہ محترمہ کا انتقال ہوا تو کامریڈ کے پروف پڑھنے میں مشغول تھے اور تدفین کے فوری بعد وہ اپنے ادارتی کام میں مصروف ہوگئے تھے۔کامریڈ اورہمدرد کو مولانا محترم نے خونِ جگر سے سینچا تھا۔
مولانا محمد علی جوہر کا نکاح ان کے ہی ایک عزیز عظمت اللہ خاں کی صاحبزادی امجدی بیگم سے ہوا تھا۔ ان کی چار لڑکیاں، زہرہ بیگم، حمیدہ بیگم، آمنہ بیگم اور گلنار بیگم تھیں۔ مولانا کی دو لڑکیوں کا انتقال اُن کی زندگی میں ہواتھا۔
مولانا محمد علی ہندو مسلم اتحاد کے بہت بڑے علم بردار تھے۔ وہ کھرے پن سچائی، بے لوثی، ایمان داری، سرفروشی اور اخلاص کا پیکر تھے ان کی شخصیت بے مثال تھی۔ ان کے تعلیمی افکار عام ماہرین تعلیم سے بالکل الگ تھے۔ ان کی سوچ مثبت اور تعمیری ہوا کرتی تھی۔ خواتین کی یا تعلیم نسواں کی تعلیم کے سلسلے میں وہ بڑے روشن خیال تھے۔ وہ دور میں خواتین کا باپردہ ہو کر چادر باندھے سواری پر بیٹھا اور باہر نکلنا محال تھا۔ اُس وقت مولانا محمد علی نے تعلیم نسواں کی حمایت کی تھی۔ ان کا ایک یادگار کارنامہ ’’جامعہ ملیہ اسلامیہ‘‘ کا قیام ہے۔ انھوںنے 29اکتوبر کو علی گڈھ میں چند دوسرے قومی رہنمائوں کی مدد سے قائم کیاتھا۔وہ اس جامعہ کے پہلے شیخ الجامعہ ( وائس چانسلر) مقرر کیے گئے تھے۔
مولانا محمد علی جوہر، بھارت کی جنگ آزادی میں برطانوی سامراج کا ڈٹ کر جس تیور، جوش، عزم وحوصلہ سے مقابلہ کیا اور غلام، نادار، مفلس وطن والوں کے دلوں میں آزادی کی روح پھونکی وہ ان کی شخصیت اور کردار کا نمایاں پہلو ہے۔ انھوں نے مادر وطن کو انگریزوں کے جبر و ظلم سے آزادکرنے کے سلسلے میں اپنی سرفروشانہ سرگرمیوں اور بے مثال قربابیوں سے قوت وتوانائی کی ایسی لہردوڑائی کہ تحریک آزادی میں زبردست جان آگئی۔وہ ایک بے خوف، بے باک، شعلہ بیان سیاسی رہنما تھے۔ دراصل مولانا حضرت امام حسین ؓ سے زیادہ متاثر تھے اورسانحہ کربلا اُن کے ذہن میں محفوظ تھا۔ انھوںنے کربلا کے جاں نثاروں سے جاں بازی سیکھی تھی۔ کیوں کہ وہ شاعر بھی اچھے تھے۔ اس لیے ان کی شاعری میں کربلا زیادہ دکھائی دیتاہے۔
مولانا محمد علی جوہر بھارت کے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندوئوں کو بھی بے پناہ چاہتے تھے۔ انھیں اس بات کا احساس تھا کہ جب تک یہ دونوں قومیں ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہوں گی آزادی کا حصول ممکن نہیں ہے۔ اس خیال سے مولانا محمد علی نے ہندوئوں اورمسلمانوں کے دلوں میں اتحاد و یک جہتی کی شمع جلانے کا بیڑا اُٹھایا اور اپنی تحریر و تقریر کی تمام قوت ہندو مسلم اتحاد کی فضا ہموار کرنے میں صرف کی۔ وہ سچے محب وطن تھے۔ اکثر کہا کرتے تھے کہ ’’میں اولاً ایک بھارتی ہوں دوم ایک بھارتی ہوں اور آخر میں بھی ایک بھارتی ہوں۔اس کے علاوہ کچھ اور نہیں۔‘‘
مولانا محمد علی جوہر نے 1924 میں خود نوشت سوانح عمری ’’Islam: Kingdom of God‘‘ (اسلام: سلطنت خداوندی) کے عنوا ن سے بہ زبان انگریزی لکھی تھی۔ 1942 میں لاہور کے افضل اقبال نے اس کے عنوانات کے اعتبار سے اس کا نام My Life : A Fragment رکھ کر اشاعت کی تھی۔
مولانا محمد علی جو ہرجیلوں میں نظر بند رہے۔ کانگریس اور مسلم لیگ کے اجلاس میں شرکت کی۔ کانگریس کے صدر نشین بھی رہے۔ علما کی کانفرنس، تعلیمی کانفرنس میں شریک ہو کر اپنے تعمیری خیالات کا بے باکانہ انداز میں اظہار کرتے رہے۔ گول میز کانفرنس لندن میں شرکت کے لیے وائس رائے کی طرف سے مولانا محمد علی جوہر کو دعوت نامہ ملا۔ مولانا نے اسے منظور کرلیا۔ وہ اس کانفرنس سے بھارت کی آزادی کا پروانہ لانا چاہتے تھے۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں مولانا محمد علی جوہر ہندو مسلم سمجھوتے کے لیے مسودہ تیار کررہے تھے ، جس سے دماغ پر زیادہ بوجھ پڑنے سے دماغ کی رگیں مفلوج ہوگئیں۔ 4/جنوری 1931 کو بھارت کی آزادی کا خواب لیے مولانا محمد جوہر ہمیشہ کی نیند سوگئے۔