فخرالدین عارفی
انیس رفیع اس شخص کا نام ہے ، جس میں اشخاص رہتے ہیں۔ جو خود کہانی کا ایک کردار ہے ، لیکن وہ کرداروں کو اپنی کہانیوں میں جنم دیتا ہے۔ اسے ہمیشہ اس بات کا انتظار رہتا ہے کہ ” کوئی اترنے والا ہے ” کون اترنے والا ہے اسے یہ خود بھی معلوم نہیں ہے۔ وہ تو بس اس نام سے اپنا پہلا افسانوی مجموعہ شائع کراکر مطمئن ہوچکا ہے۔ ویسے انیس رفیع کے کل تین مجموعے شائع ہوچکے ہیں جس کی تاریخی ترتیب حسب ذیل ہے :
1 اب وہ اترنے والا ہے
2 کرفیو سخت ہے
3 گداگر سرایء
انیس رفیع کو میں اس وقت سے جانتا ہوں جب وہ حاجی پور (ویشالی ) کے ایک کالج سے وابستہ تھے اور روزانہ پٹنہ سے حاجی پور جایا کرتے تھے۔ یہ غالباً 1970 کے آس پاس کی باتیں ہیں ، تب پٹنہ میں ادبی ماحول بالکل شباب پر تھا ، شہر میں خوب ادبی نشستیں ہوا کرتی تھیں اور پٹنہ کا رحمانیہ ہوٹل علم و ادب کا ایک اہم مرکز کی حیثیت رکھتا تھا۔ وہاں ایک گول ٹیبل ہوا کرتا تھا تھا ، جو بالکل ہوٹل کے پوربی کنارے میں ایک طرف رکھا رہتا تھا۔ اسی گول ٹیبل پر عام طور پر شام میں ادبی محفلیں آراستہ ہوا کرتی تھیں اور چھوٹے بڑے تمام ادبا و شعرا وہاں جمع ہوا کرتے تھے جن میں سھیل عظیم آبادی ، سلطان اختر ، ظہیر صدیقی ، اسلم آزاد ، نسیم مظفر پوری ، شام رضوی ، فخرالدین عارفی ، قمر زاہدی ، رمز عظیم آبادی ، احمد حسین آزاد ، شوکت حیات ، حسین الحق ، علی امام ، قدوس جاوید ، رضوان احمد ، قوس صدیقی ، سونو ، اختر واصف ، قیصر رضا ، شان الرحمن ، قاسم خورشید ، نشاط قیصر ، احمد یوسف ، شمیم فاروقی ، جمال الدین ساحل ، نوید ہاشمی ، عبدالخالق ، انیس رفیع ، شموئل احمد قریب قریب روزانہ ہی رحمانیہ ہوٹل یا "بک امپوریم ” کے نواح میں آجایا کرتے تھے۔ کبھی کبھی کلام حیدری ، ظفر اوگانوی ، بدنام نظر ، تاج انور ، ڈاکٹر نثار مصطفیٰ ، مظہر امام ، وفا ملک پوری ، علیم اللہ حالی ، ناشاد اورنگ آبادی ، حسین الحق ، عبد الصمد ، قوس صدیقی ، عبد الرب جاوید ، اثر فریدی ، نوید ہاشمی ، عبید قمر ، شمیم قاسمی ، رحمان شاہی بھی رحمانیہ ہوٹل آجایا کرتے تھے۔ ان کے علاوہ بھی اور بہت سارے لوگ ہوا کرتے تھے جن کا نام اس وقت ذہن میں نہیں آرہا ہے۔ رحمانیہ ہوٹل میں دوسری جانب ایک ٹیبل ایسا ہوتا تھا جو سیاسی لوگوں کے لییء وقف ہوا کرتا تھا یا پھر ان پر بعض ڈاکٹر حضرات بیٹھا کرتے تھے۔ طارق انور بھی ان دنوں "رحمانیہ ہوٹل ” میں پابندی کے ساتھ اپنے گروپ کے لوگوں کے ساتھ بیٹھا کرتے تھے۔ ڈاکٹر عبد الرشید ، ڈاکٹر اوقیش عظیم آبادی اور دوسرے مختلف ذوق و شوق کے احباب بھی ان دنوں شام میں "رحمانیہ ہوٹل ” میں ضرور بیٹھا کرتے تھے۔ تب لوگوں کے دلوں میں کدورت اور منافقت نہیں ہوا کرتی تھی۔ سب لڑتے جھگڑتے تھے لیکن دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت اور عداوت نہیں ہوا کرتی تھی۔ معصومیت ہماری فطرت میں شامل ہوا کرتی تھی ، عداوت سے ہم سب کو عداوت تھی۔
کیا زمانہ تھا وہ ہر چہرے پر معصومیت کی کلیاں مسکرایا کرتی تھیں اور محبت کے پھول کھلا کرتے تھے۔
انیس رفیع جب تک پٹنہ میں رہے ، وہ پٹنہ کی ادبی محفلوں کی جان رہے ، خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری ہو یا ” حلقہ ادب بہار ” کی ادبی محفلیں وہ سب میں باضابطہ طور پر شرکت کیا کرتے تھے ، حلقہ ادب بہار کے فکشن سمینار میں بھی انہوں نے اپنا ایک افسانہ پڑھا تھا ، جس کا عنوان "ایک اداس پگھلتی چھتری ” تھا ۔ اس سمینار میں جوگندر پال نے بھی شرکت کی تھی۔ انیس رفیع نے "حلقہء ادب بہار کی ایک اور نشست میں بھی اپنا ایک افسانہ سنایا تھا ، جس کا عنوان "مادر فروش ” تھا ۔ جس کا موضوع کچھ اختلافی تھا اور اس پر کافی ہنگامہ بھی ہوا تھا۔ ایک مرتبہ حسین الحق کی ایک کہانی پر بھی کافی ہنگامہ ہوا تھا۔ حلقہ ادب کے چوں کہ صدر پروفیسر عبدالمغنی صاحب ہوا کرتے تھے اور وہ اپنے ادبی موقف میں بہت سخت تھے اس لییء ایسی ہنگامہ خیزی کو بحیثیت جنرل سکریٹری مجھے ہی سرد کرنا پڑتا تھا۔ آج بھی حلقہ ادب کی ادبی سرگرمیوں نے بہار کے ادبی فلک کو درخشاں اور تاباں رکھا ہے۔ یہ ایک حکومت بہار سے رجسٹرڈ ادبی ادارہ ہے اور ریاست کا سب سے قدیم ادبی ادارہ بھی ہے۔ اس کے زیر اہتمام متعدد کل ہند سطح کے پروگرام ہوچکے ہیں۔ ماہنامہ ” مریخ” اسی حلقہ ادب بہار کا ادبی ترجمان تھا۔ جس کی پہلی اشاعت 1968 میں شروع ہوء تھی اور تب اس نے اپنا ایک انتہائی معیاری اور پروقار نمبر ” پرویز شاہدی نمبر ” بھی شائع کیا تھا۔ اپنی زندگی کے دوسرے دور میں یعنی ستمبر 1984 سے ستمبر 2004 ء کے درمیان بھی اس نے کء اہم اور خاص شمارے شائع کئے ، جن میں ” مریخ ” کا فکشن نمبر خاص اہمیت کا حامل تصور کیا جاتا ہے۔ دوسرے دور کی اشاعت میں پروفیسر عبد المغنی صاحب رسالے کے مدیر اور میں رسالے کا نائب مدیر ہوا کرتا تھا۔
ایک طویل مدت تک انیس رفیع صاحب پٹنہ کی ادبی محفلوں کی جان رہنے کے بعد ، جب آل انڈیا ریڈیو میں ان کی ملازمت ہوء تو وہ پٹنہ کو چھوڑ کر گورکھ پور چلے گیء تھے جہاں انہوں نے 3 جون 1975 ء کو بحیثیت پروگرام اکزیکیوٹیو جوائن کیا اور کافی دنوں تک وہاں رہے۔ وہ 1992 ئ میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہوکر دور درشن کلکتہ چلے گئے ، جہاں سے اردو نیوز کی شروعات ہوء تھی ، پھر وہ 1997 ء میں دور درشن ڈبرو گڑھ آسام چلے گیء ۔ پھر 1999 میں اسی منصب پر ٹرانسفر ہوکر مظفر پور ( بہار ) چلے آیء ، پھر 2003 میں وہ دوردرشن کلکتہ واپس ہوگئے۔ اپنی ملازمت کے درمیان وہ آل انڈیا ریڈیو پٹنہ میں بھی (PEX ) کی حیثیت سے رہے۔ لیکن اپنی ملازمت مکمل انہوں نے "کوہیما ، ناگا لینڈ میں کی اور وہیں سے 2005 ء میں
Sr.Director (سینئر ڈائریکٹر )
کی حیثیت سے اپنی ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ 2006 ء سے مستقل طور پر کلکتہ میں سکونت پذیر ہیں۔
1970 کی بعد بہار کی سرزمین سے جو چند اہم نام ابھرے اور ملک گیر سطح پر اپنی ایک شناخت قائم کی ان میں شفق ، شوکت حیات ، حسین الحق ، عبد الصمد ، م۔ ق۔ خان ، رضوان احمد ، علی امام ، عشرت ظہیر ، قیام نیر ، غضنفر ، فخرالدین عارفی ، عبید قمر ، مشتاق احمد نوری ، ذکیہ مشہدی ، رفیع حیدر انجم ، سیّد احمد قادری ، پیغام آفاقی ، شموئل احمد ، احمد صغیر ، اسلم جمشید پوری ، مشرف عالم ذوقی ، اقبال حسن آزاد ، اسرار گاندھی ، شمیم صادقہ ، تسنیم کوثر ، خورشید حیات ، ممتاز شارق , صغیر رحمانی ، سلام عبد الصمد ، ابوالکلام عزیزی قاسم خورشید کے ساتھ ساتھ انیس رفیع کا بھی ہے۔ انیس رفیع یقیناّ ہمارے ہم عصروں میں بہت اہم ہیں اور ان کی پچاس سالہ ادبی خدمات کو ہم کبھی فراموش نہیں کرسکتے ہیں۔ فکشن کا ناقد جب بھی اردو افسانوں کی تاریخ تحریر کرے گا تو انیس رفیع کا نام اس میں ہمیشہ سنہری حرفوں سے لکھا جایء گا۔ انیس رفیع نے یقیناّ اردو افسانوں کو متعدد ماسٹر پیس (شاہکار ) افسانے دییء ہیں۔
انیس رفیع گرچہ ایک جدید افسانہ نگار تصوّر کییء جاتے ہیں لیکن وہ اپنی پچاس سالہ خدمات کے سبب اب تو بزرگ افسانہ نگاروں میں شمار کییئ جاتے ہیں۔ جہاں تک فن اور فکر کی بات رہی تو وہ احساسات کی سطح پر آج بھی جوان ہیں۔
1970 ء کے بعد بیرون بہار سے جو انتہائی اہم نام ابھرے اور اردو فکشن کے افق پر چھاگیء ان میں ہم سلام بن رزاق ، حمید سہر وردی ، سلطان سبحانی ، انور قمر ، قمر احسن ، انور خان ، ساجد رشید ، سید محمد اشرف ، غضنفر ( گوکہ ان کا نام پہلے آچکا ہے ) طارق چھتاری ، مظہر الزماں خان ، ترنم ریاض ، صادقہ نواب سحر ، رحمان عباس اور محسن خان وغیرہ کو کبھی فراموش نہیں کرسکتے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی متعدد نام اور ہیں جو فی الوقت ذہن میں نہیں آرہے ہیں۔