۰۰۰
مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی
۰۰۰
صاحب طرز خطیب ، بالغ نظر عالم دین ، امام اہل سنت مولانا عبد الشکور فاروقی کی فکری وراثت کے امین ، بہترین مفسر، شارح حدیث، دار المبلغین لکھنوکے روح رواں ، جمعیت علماء ہند کے سابق ناظم عمومی، موجودہ نائب صدر، دار العلوم دیو بند وندو العلمائکی مجلس شوریٰ کے رکن، صدر مجلس تحفظ ناموس صحابہ ، دینی تعلیمی ٹرسٹ لکھنوکے چیرمین، امیرشریعت اترپردیش مولانا عبد العلیم فاروقی نے 24 اپریل 2024ئ مطابق 14 شوال 1445ھ بروز بدھ بعد نماز فجربوقت چھ بجے لکھنو میں اپنی رہائش گاہ پر اخری سانس لی، کئی ماہ قبل ان کے پِتّہ کا اپریشن ہوا تھا، اس کے بعد ان کی صحت سنبھل نہیں سکی اور وہ مستقل طور پر صاحب فراش ہو گیے، بعد میں معلوم ہوا کہ کینسر ہے، علاج ومعالجہ میں کمی نہیں کی گئی ، لیکن وقت موعود علاج ومعالجہ سے ٹلتا نہیں ہے سو وہ ٹل نہ سکا، جنازہ کی نماز ندو العلماء میں ان کے صاحب زادہ مولانا عبد الباری فاروقی نے اسی دن بعد نماز عصر پڑھائی اور عیش باغ قبرستان لکھنو میں تدفین عمل میں ائی، پس ماندگان میں اہلیہ تین بیٹے اور ایک بیٹی کو چھوڑا۔ مولانا عبد العلیم فاروقی بن مولانا عبد السلام فاروقی(م1973) بن امام اہل سنت مولانا عبد الشکور فاروقی لکھنوی کی ولادت 1948ء میں لکھنوہی میں ہوئی ، ابتدائی تعلیم اپنے والد اور دادا جان کی زیر نگرانی مدرسہ فرقانیہ لکھنو میں پائی ، ایک نا بینا استاذ کی نگرانی میں حفظ قران مکمل کیا، عربی فارسی کی ابتدائی کتابیں اپنے والد اور دادا سے پڑھیں، چودہ سال کی عمر میں پہلی بار تراویح میں قران سنایا،عربی تعلیم کے لیے جامعہ حسینیہ محمدی لکھیم پور میں داخل ہوئے اور عربی سوم تک یہاں تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1966ء میں مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور تشریف لے گیے اور وہاں اس زمانہ کی نابغہ روزگار شخصیات سے کسب فیض کیا، 1968ء تک یہیں قیام رہا اور شرح جامی سے مشکوٰۃ تک کی تعلیم یہاں پائی، اس کے بعد ازہر ہند دار العلوم دیو بند چلے ائے 1969ء میں یہیں سے حضرت مولانا فخر الدین احمد صاحب سے بخاری شریف پڑھ کر سند فراغ پائی ،1970ء میں دار المبلغین لکھنو میں تدریس کا اغاز 1973 میں والد کے انتقال کے بعد دار المبلغین کے ذمہ دار کی حیثیت سے کام کرنا شروع کیا، تزکیہ نفس کے لیے حضرت مولانامحمد طلحہ صاحب، صاحب زادہ وجانشیں حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کی طرف رجوع کیا اور سلسلہ چشتیہ میں بیعت سے سر فراز ہوئے اور خلافت پائی۔ عملی زندگی کا اغاز دفاع صحابہ اور حقانیت اسلام کی ترویج وشاعت سے کیا اور دار المبلغین لکھنو کو اس کام کے لیے ایک پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کیا 1998ئمیں دار العلوم دیو بند کی مجلس شوری کے رکن بنائے گیے اور تا حیات اس سے جڑے رہے ،2018ء میں اپ ندو العلماء لکھنوکے بھی رکن شوریٰ منتخب ہوئے، جمعیت علماء ہند جب تقسیم نہیں ہوئی تھی 1955ء اس وقت اس کے ناظم عمومی منتخب ہوئے اور سات سال تک اس عہدہ کو وقار بخشا، تقسیم کے بعد ان کا تعلق جمعیت علماء ہند کے مولانا ارشد مدنی گروپ سے رہا اور تیرہ سال تک اسی منصب پر وہاں بھی فائز رہے ، بعد میں وہ جمعیت علماء کے اس گروپ کے نائب صدر منتخب ہوئے اور تا حیات اس عہدہ پر رہ کر اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے رہے ، مولانا انتہائی متواضع ، منکسر المزاج اور انسانی قدروں کے بڑے پاسباں تھے، اللہ رب العزت نے اکابر کی محبوبیت اور عوام الناس کی مقبولیت انہیں عطا کی تھی، احقاق حق اور ابطال باطل ان کی زندگی کا نصب العین تھا، انہوں نے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ناموس کی حفاظت کو اپنا شیوہ بنا رکھا تھا، پچاس سال سے زائد تک وہ فرقہباطلہ کے لیے شمشیر برہنہ بنے رہے ، لکھنو کے اہل سنت والجماعت (مقابل اہل تشع) ان مسائل میں خصوصیت سے ان کو اپنا مقتدیٰ اور پیشوا سمجھتے تھے۔مولانا بہترین مقرر، مناظر، حاضر جواب اور بہترین نثر نگار تھے، اللہ رب العزت نے تصنیف وتالیف کا صاف، ستھرا اور محققانہ ذوق عطا فرمایا تھا، ان کی تصنیفات میں امیر معاویہ اور معاندین کے اعتراضات ائینہ مرزا ، مذہب شیعہ کا علمی محاسبہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔مولانا کا حلیہ او روضع قطع بھی انتہائی پر کشش تھا، چوڑی پیشانی ، پر نور بڑی بڑی انکھیں، خوبصورت نورانی چہرہ ، لکھنوی نستعلیقی انداز، خوبصورت دیدہ زیب سفید کپڑے اور شیروانی میں ملبوس مولانا کی شخصیت کو اس قدر جاذب نظر بناتی تھی کہ دیکھنے والا دیکھتا رہ جاتا۔
مولانا نے اپنی پوری زندگی جرات اظہار اورداعیانہ کردار کے ساتھ گذاری، وہ اپنے حلقہ کے علماء میں غیر متنازع شخصیت کے طور پر جانے پہچانے جاتے تھے، میری ملاقات مولانا سے بہت زیادہ نہیں تھی، جمعیت علماء کے بعض پروگرام ، سمینار وغیرہ میں ملاقات ہوجاتی تھی ، اور کہنا چاہیے کہ معاملہ دید وشنید سے اگے نہیں بڑھا، دید ان کے حصے میں اتی تھی اور شنید میرے حصہ میں، کبھی مصافحہ اور معانقہ کی نوبت بھی اجاتی تھی ، میں ان کی متنوع خدمات کی وجہ سے ان کا قدر داں رہا، وہ امارت شرعیہ کے اکابرین خصوصا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کے بڑے قدر داں تھے اور ملت کے اتحاد کے لیے ان کی کوشش کو بنظر استحسان دیکھتے تھے، مولانا کے دنیا سے چلے جانے کے بعد جو خلا پیدا ہوا ہے اس کی بھرپائی مستقبل قریب میں تو نظر نہیں اتی