موبائل فون کے عادی بچوں کی بصارت متاثر

0
107

گلفام بارجی
ہارون سرینگر

موبائل فون کی بھر مار نے معصوم بچوں کی بینائی پر برے اثرات مرتب کئے ہیں جس وجہ سے یہ معصوم بچے بچپن میں ہی عینک لگانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔حال ہی میں دہلی کے آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز(AIIMS) نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہیکہ پچھلے 10 سالوں میں بچوں میں نظر کی کمزوری کا مسئلہ بڑھ گیا ہیجبکہ پہلے یہ مسئلہ 13سے 15 فیصد بچوں میں پایا جاتا تھا۔ لیکن گزشتہ 10سالوں میں یہ مسئلہ بڑھ کر 20 سے 25 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہیکہ اگر ایک کلاس روم میں 50 بچے ہوں گے تو ان میں سے 15سے 20 بچے وہ ہوں گے جنہیں عینک کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر روہت سکسینہ پروفیسر آف Ophthalmology and Pediatrics ایمس کے آر پی سینٹر نے کہا کہ پہلے زمانے میں صرف 3 سے 4 فیصد بچوں کو عینک کی ضرورت ہوتی تھی لیکن اب اس تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ ڈاکٹر نے کہا کہ پہلے بصارت کی خرابی کا مسئلہ 10 سے 12سال تک کی عمر کے بچوں میں دیکھا جاتا تھا لیکن اب 6 سے 7 سال کی عمر میں بچوں کی بینائی خراب ہونے لگی ہے اور انہیں عینک پہننے کی ضرورت ہے۔صرف یہی نہیں بلکہ ڈاکٹر سکسینہ نے یہ بھی انکشاف کیا کہ 4سال سے کم عمر کے بچوں کو بھی بصارت یا Myopia کی خرابی کا مسئلہ درپیش ہے اور اس کے بڑھنے کی وجہ بچوں میں موبائل فون، ٹیبلٹ وغیرہ جیسے چیزوں کا مسلسل استعمال ہے۔بچے کئی گھنٹوں تک موبائل فون اور ٹیبلٹز کے ساتھ مشغول رہتے ہیں اور والدین ان میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالتے۔ ڈاکٹر روہت نے کا یہ بھی کہنا ہے کہ کورونا "COVID-19” سے پہلے جب والدین ہمارے پاس آتے تھے تو وہ ٹیلی ویڑن کے اوقات کار اور ان کے حل کے طریقوں کے بارے میں ہم سے بات کرتے تھے لیکن اب والدین کا کہنا ہے کہ وہ موبائل فون صرف دو گھنٹے استعمال کرتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ والدین کی ذہنیت میں تبدیلی آئی ہیجس سے بچوں کی بینائی متاثر ہو رہی ہے۔ ڈاکٹر روہت سکسینہ نے کہا کہ اگر بچے آن لائن تعلیم حاصل کر رہے ہیں تو والدین کو چاہیے کہ وہ صرف کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ پر ہی پڑھائی کریں اور تفریح کے لئے سمارٹ اسکرین کا استعمال کریں لیکن فاصلہ ایک ہاتھ کے برابر ہونا چاہیے اور اگر فاصلہ اسے ذیادہ ہوتو یہ بھی ٹھیک رہے گا۔ آر پی سینٹر کے ڈاکٹر روہت سکسینہ نے کہا کہ پچھلے 30 سالوں میں بچوں میں نظر کی کمزوری کے مسئلے میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور اس حوالے سے مشرقی ایشیا کے ممالک سب سے آگے ہیں۔ان میں چین، سنگاپور اور ہانگ کانگ جیسے ممالک شامل ہیں۔ڈاکٹر نے یہ بھی کہا ہے کہ مشرقی ایشیا کے ممالک میں 80سے 90 فیصد تک بچے بصارت کی کمزوری کا شکار ہیں صرف یہی نہیں اگر ہندوستان کی بات کریں تو ہندوستان میں بچوں میں یہ مسئلہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ پہلے ہم یہ سمجھتے تھے کہ بصارت کی خرابی کا مسئلہ دیہی علاقوں کے بچوں میں عام ہے لیکن اب جو اعداد و شمار سامنے آرہے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہیکہ دیہی علاقوں میں بھی بصارت کی خرابی کا مسئلہ چھوٹے چھوٹے بچوں میں دیکھا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان علاقوں میں بھی بچوں میں موبائل فون، ٹیبلٹز اور ان جیسے دیگر چیزوں کے استعمال میں اضافہ ہواہے۔ ڈاکٹر سکسینہ نے کہا کہ پچھلے 10 سالوں میں دیہی علاقوں سے جمع کئے گئے اعداد و شمار میں اس سے پہلے 3 سے4 فیصد بچوں میں بصارت کی خرابی کا مسئلہ درپیش تھا جو کہ اب بڑھ کر 7 سے 8 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ڈیجیٹلائزیشن کو بڑھانا بہت ضروری ہیجو کہ ایک اچھی بات ہے۔ دیہی علاقوں میں بھی لوگ اس بارے میں آگاہ ہورہے ہیں۔ اس کے ساتھ موبائل فون، ٹیبلٹ اور ان جیسے دیگر چیزوں کا استعمال بچوں کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہیاور والدین کو اس سے آگاہ کرنے کی اشد ضرورت ہے انہیں اپنے بچوں کو یہ سمجھانا ہوگا کیونکہ نوجوان ذہن ممکنہ نقصان سے آگاہ نہیں ہوتے۔ ایسی صورت حال میں کچھ علامات ظاہر ہوتی ہیں اگر آپ کے بچے میں یہ علامات ظاہر ہوں تو ان پر توجہ دیں۔ مثلاً اگر بچہ کلاس میں بورڈ سے ہوم ورک کی نقل نہیں کر پا رہا ہے، اگر بچہ دوسرے بچے کی نوٹ بک سے ہوم ورک کاپی نہیں کرپارہا ہے یا اگر بچہ تھوڑا سا بند آنکھوں سے بورڈ کو دیکھ رہا ہے۔ اس کے علاوہ اگر بچہ بہت قریب سے ٹی وی دیکھ رہا ہے یا کتابیں بہت قریب سے پڑھ رہاہے یا اس کی آنکھوں میں پانی آرہا ہیاور وہ اپنی آنکھوں کو مسلسل رگڑنے کا عادی ہے تو یہ سب بینائی کی خرابی یا Myopia کی علامات ہیں۔ اس سے والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو فوری طور ڈاکٹر کے پاس لے جائیں اور ان کی آنکھوں کا معائنہ کروائیں۔ اس کے ساتھ اگر بچے مسلسل موبائل فون استعمال کرتے ہیں یا آن لائن ہوم ورک کرنا پڑتا ہے تو والدین کو یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ وہ ہر آدھے گھنٹے میں 5 منٹ کا وقفہ لیں اور اپنے کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ کو ہمیشہ کھڑکی کے قریب رکھیں تاکہ ان کے بچے پڑھائی کے دوران باہر بھی دیکھ سکیں۔ اس کے ساتھ اگر ممکن ہوتو بالکونی یا کھلے میدان میں مطالعہ کریں۔اس کے علاوہ بچوں کو دن میں کم سے کم 2 گھنٹے کھلی جگہوں پر کھیلنے کی ضرورت ہوتی ہے جس کے لئے والدین پر ذمہ داری عاید ہوتی ہیکہ وہ اپنے بچوں کو یہ وقت کھیلنے کودنے کے لئے مئیسر رکھیں اور اپنے بچوں کو موبائل فون کے ذیادہ استعمال سے پرہیز کریں۔
٭٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا